ایک سال تک سازشوں کے تانے بانے بُننے کے بعد انتہائی چالاکی سے ترتیب دیے گئے کھیل کے ذریعے وزارتِ عظمیٰ سے عمران خان کی چھٹی کرانے کے بعد بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر مضحکہ خیز مسکراہٹ اچھالتے ہوئے کہا تھا ''ویلکم ٹو پرانا پاکستان‘‘۔ اس جملے پر اس وقت ایوان میں بیٹھے پی ڈی ایم اتحاد کے ہر رکن نے زور زور سے ڈیسک بجا کر اپنی تائید و حمایت کا اعلان کیا تھا۔ بلاول بھٹو، ان کے ساتھی اور سہولت کار‘ سب مل کر پرانا پاکستان تو واپس لے آئے لیکن اس ایک سال کی مدت میں ان سب نے مل کر پاکستان کا وہ حال کر دیا ہے کہ باہر سے آنے والا تو کوئی شخص شاید ہی اسے پہچان سکے کہ یہ وہی پاکستان ہے۔ ایک سال پہلے کا اگر منظر نامہ دیکھا جائے تو کوئی یقین ہی نہیں کر سکتا کہ حالات محض بارہ مہینوں میں اس قدر تنزلی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ سال پہلے تک ڈالر کا ریٹ 180 کے لگ بھگ تھا۔ آج یہ 280 روپے کی حد بھی تجاوز کر چکا ہے۔ اُس وقت عالمی مارکیٹ میں فی بیرل پٹرول کی قیمت 120 سے 125 ڈالر تھی جبکہ ملک میں پٹرول کی قیمت 150 روپے فی لیٹر‘ تین مہینوں کے لیے فکس کر دی گئی تھی۔ آج عالمی مارکیٹ میں بیرنٹ آئل کی فی بیرل قیمت 81 ڈالر ہے جبکہ ملک میں پٹرول کی قیمت 282 روپے فی لیٹر ہے۔ اسی طرح سال پہلے بجلی کی قیمت 21 روپے سے کم کر کے 15 روپے کر دی گئی تھی جبکہ آج ایک اوسط صارف بجلی کی قیمت تقریباً 40 روپے فی یونٹ کے حساب سے ادا کر رہا ہے۔ ایک سال پہلے تک چینی 70 سے 80 روپے فی کلو جبکہ بہتر کوالٹی کا فائن آٹا 50 روپے فی کلو تک دستیاب تھا۔ آج چینی کی قیمت 140 سے 150 روپے فی کلو ہے جبکہ آٹا تین گنا مہنگا ہو کر 150 روپے فی کلو ہو چکا ہے جبکہ آٹے کی معیار کی بابت کوئی بات کرنا اپنے آپ کو اذیت دینے کے مترادف ہے۔ خوردنی تیل اور گھی کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔ اب عوام ان چیزوں کو دور ہی سے دیکھ سکتے ہیں۔ کوئی ایک بھی چیز ایسی نہیں ہے جس کی قیمت پچھلے سال کی سطح پر کھڑی ہو سوائے لوگوں کی آمدن کے، بلکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کا بھٹہ بیٹھنے اور آٹو انڈسٹری اور موبائل مینوفیکچرنگ یونٹس بند ہونے سے ایک کروڑ کے قریب افراد بیروزگار ہو چکے ہیں جبکہ ورلڈ بینک کے تخمینے کے مطابق اس مدت میں چالیس لاکھ سے زائد افراد خطِ غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔
سب سے افسوسناک اور کربناک بات یہ ہے کہ پورے ملک کی کسی گلی‘ کسی بازار‘ کسی شاہراہ یا کسی چوک پر چلے جائیں‘ مانگنے والے افراد کی طویل قطاروں کے علاوہ کچھ نظر آتا ہی نہیں۔ جس طرف دیکھو ہاتھ پھیلائے مانگنے والے ہی دکھائی دے رہے ہیں۔ کسی مارکیٹ میں چلے جائیں تو ایسا لگے گا کہ مانگستان میں آ گھسے ہیں۔ تاجر اور دکاندار عوام کی راہیں تک رہے ہیں اور دوسری جانب عوام نجانے کس کس کی جان کو رو رہے ہیں۔ تاجر تنظیمیں الگ سے واویلا مچا رہی ہیں کہ امسال عید کا سیزن ملک کی تاریخ کا سب سے مندا سیزن تھا۔ عوام سے پوچھیں تو وہ کہتے ہیں کہ انہیں کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں‘ ایسے میں عید کی شاپنگ سے کس کو سروکار ہو سکتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اور پی ڈی ایم سرکار کو کیا علم کہ اس ایک سال میں عوام کے ساتھ کیا بیت چکی ہے اور کیا بیت رہی ہے۔ انہیں اس سے کوئی غرض ہی نہیں۔ ان کے تئیں وہ اپنی بھرپور کوشش کر رہے ہیں اور یہ ساری کوششیں محض غیر ملکی دوروں تک محدود ہیں۔ وزیر خارجہ کو ہر ہفتے کسی نئے ملک کا یا امریکہ و یورپ کا دورہ کرنے سے ہی فرصت نہیں مل رہی۔ اتنے ٹورز تو کسی عالمی جہاز ران کمپنی کے پائلٹ نہیں کرتے جتنے ہمارے وزیر خارجہ اب تک کر چکے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ان اَن گنت دوروں کے دوران ملک اور قوم کی کون سی خدمات سرانجام دی گئی ہیں؟ یقینا اس کا جواب ندارد ہے۔ صرف وزیر خارجہ پر ہی موقوف نہیں‘ وزیراعظم شہباز شریف اور سرکاری وفود کے غیر ملکی دوروں پر رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں ایک ارب 31 کروڑ روپے خرچ کیے جا چکے ہیں۔
سب سے حیران کن امر یہ ہے کہ اس حکومت اور اس کی کارکردگی کو کوئی بھی قبول یا ''اون‘‘ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ مریم نواز صاحبہ اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر کئی لیڈران کھلے عام یہ کہہ چکے ہیں کہ یہ ان کی حکومت نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں زرداری قبیلے سے خطاب کرتے ہوئے سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی نواب شاہ کو فنڈز نہ ملنے کا گلہ کیا اور کہا کہ وزارتِ خزانہ ان کے پاس نہیں ہے اور نہ ہی یہ ان کی حکومت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو وزارتیں ان کے پاس ہیں‘ ان میں ان کی کارکردگی اچھی ہے، وہ حکومت کا محض حصہ ہیں، یہ حکومت ان کی نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی ہو یا (ن) لیگ، بھٹو یا نواز شریف کے نام کے سوا عوام کو دینے کے لیے ان کے پاس کچھ بھی نہیں۔ حالیہ سیلاب میں جو سلوک اس پی ڈی ایم حکومت نے عوام کے ساتھ کیا‘ اس سے ملک کا ایک ایک بچہ نہ صرف واقف ہو چکا ہے بلکہ اپنی جان پر بھگت بھی چکا ہے۔ صوبہ سندھ کے متاثرہ علاقے ابھی تک بحال نہیں ہو سکے ہیں اور طرح طرح کے وبائی امراض کی زد میں ہیں۔ سندھ کے دانشور شاید اسی لیے شکوہ و شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ لے دے کے سندھ دھرتی کے ہاریوں، مزدوروں اور غریب لوگوں کو ورغلانے کیلئے سوائے بھٹو کے نام کے کچھ نہیں ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اپنی ہر تقریر میں اعلان کرتے ہیں کہ سندھ میں جو تبدیلی لے کر آیا ہوں‘ وہ ملک میں بھی لے کر آ رہا ہوں۔ غالباً یہاں تبدیلی سے مراد سندھ کی قیادت میں تبدیلی ہے کہ کل تک قائم علی شاہ تھے اور اب ان کی جگہ مراد علی شاہ ہیں اور اگلے پانچ سال شاید ناصر حسین شاہ تبدیلی کا ماڈل بنیں گے۔
مجھے ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں عتاب کا نشانہ بنایا گیا۔ جھوٹے مقدمے، پیشیاں، گرفتاریاں، جیلیں، غرض کیا کچھ نہیں بھگتا۔ میں اپنے کالموں میں کئی بار یہ واقعات شیئر کر چکا ہوں مگر بھٹو کی ایمانداری مسلمہ تھی۔ جب بھٹو نے کنونشن لیگ سے استعفیٰ دینے کے بعد ایوب خان کی مخالفت شروع کی تو اس وقت کی حکومت نے اپنا پورا زور لگایا کہ کسی طرح بھٹو کی کرپشن کو سامنے لایا جائے لیکن سوائے لاڑکانہ میں ٹریکٹروں کے غلط استعمال کے اور کوئی چارج بھٹو پر نہ لگا سکی۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون ہیں جنہوں نے بھٹو کے نام کو بدنام کیا ؟ وہ کون ہیں جنہوں نے بھٹو خاندان کے ماتھے پر سرے محل، دبئی، امریکہ، فرانس اور سوئٹزر لینڈ میں جائیدادوں کی داستانیں رقم کر رکھی ہیں۔ ضیاء الحق نے تو بھٹو کو صرف جسمانی طور پر ختم کیا تھا لیکن نظریاتی طور پر بھٹو کو اس کے نام پر سیاست کرنے والوں نے چاٹ لیا۔ جس دن کرپشن کا سمندر اُبلا‘ وہ ہوش ربا حقائق سامنے آئیں گے کہ دنیا دنگ رہ جائے گی۔
گزشتہ دنوں بلاول بھٹو اپنی تقریر میں جب یہ کہہ رہے تھے کہ روٹی مہنگی اور خون سستا ہے، غریب لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، تھر اور کراچی میں لوگوں کو پینے کا پانی نہیں مل رہا، مگر گھبرائیں مت! پی پی پی جب ایک بار پھر آپ کے ووٹوں سے جیت کر حکومت بنائے گی تو پھر غربت اور جہالت کو ختم کرے گی، آپ کو نوکریاں دے گی، ہسپتال اور سکول بنائے گی، سندھ بھر میں امن و امان قائم کیا جائے گا تو سننے والوں کو ایک لمحے کیلئے ایسا لگا ہو گا کہ یہ الفاظ پیپلز پارٹی کے چیئرمین کے نہیں بلکہ حکومت کے کسی مخالف، عمران خان یا اپوزیشن کے کسی رہنما کی جانب سے بولے جا رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے ساڑھے تین سالہ مرکزی اقتدار کے مقابلے میں پیپلز پارٹی مرکز میں لگ بھگ پندرہ سال اور سندھ میں تین دہائیوں سے زائد عرصہ حکومت میں رہی ہے۔ گزشتہ پندرہ سال سے یہ مسلسل سندھ میں حکومت میں ہے اور اب بھی اس کے نزدیک سبھی خرابیوں کی جڑ عمران خان کا دورِ حکومت ہے۔ عمران حکومت کو ''بلاول ہائوس کی سازش‘‘ کے ذریعے نکالنے کا کریڈٹ لینے والے بلاول بھٹو اور شہباز شریف نے اپنے اس ایک سالہ مشترکہ دورِ اقتدار میں پورے ملک کا جو حال کیا ہے وہ تاریخ کی کتابوں میں اس طرح لکھا جائے گا ''نئے پاکستان کی بنیادوں کو اکھاڑ کر جس پرانے پاکستان کی بنیاد رکھی گئی‘ ایک ہی سال میں نہ اس کی کوئی چھت رہی اور نہ ہی کوئی دروازہ‘ حتیٰ کہ اس گھر کا کوئی پردہ بھی نہیں رہا‘‘۔