لاہور میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ملکی مسائل کی وجہ لیڈرشپ اور نظام کی ناکامی ہے، جب تک ہم اکٹھے نہیں ہوں گے معاملات ٹھیک نہیں ہوں گے، مصنوعی لیڈرشپ ملک کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔ یہ نظام اتنا کرپٹ اور فرسودہ ہو چکا ہے کہ ڈِلیور نہیں کر سکتا، ہم نے 84 ارب روپے آٹے کی مد میں خرچ کیے، اس میں سے 20 ارب کی کرپشن ہو گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ''ملک کے مسائل کی وجہ لیڈرشپ اور نظام کی ناکامی ہے، پوچھتا ہوں کہ آج معیشت کی حالت کیا ہے اور ہماری ترجیحات کیا ہیں؟ آج آپ ایسی کابینہ بھی نہیں بنا سکتے جو ملکی مسائل حل کر سکے، پارلیمان میں ایسے لوگوں کو لایا گیا جو اس کی اہلیت ہی نہیں رکھتے‘‘۔ ویسے تو اس پوری تقریر میں کئی ایسی باتیں ہیں جنہیں بحث کا موضوع بنایا جا سکتا ہے مگر ایک ایسا فقرہ بلکہ ایسا انکشاف اس میں موجود ہے جو سامنے بیٹھے افراد اور ٹی وی سکرینوں کے سامنے بیٹھ کر سننے والے والوں کیلئے بم شیل سے کم نہیں تھا۔ یہ انکشاف رجیم چینج حکومت کے خلاف ایک فردِ جرم کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ الزام کسی مخالف یا اپوزیشن کے کسی رکن نے نہیں بلکہ حکمران پارٹی کے ایک ممبر اور گھر کے ایک بھیدی نے لگایا ہے‘ وہ بھی کسی نجی محفل میں چھپ چھپا کر نہیں بلکہ کھلے عام ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے۔ شاہد خاقان عباسی نے رجیم چینج والوں پر الزام لگا یا ہے کہ ابھی حال ہی میں مفت آٹے کی تقسیم کی آڑ میں کم از کم بیس ارب روپے کی دیہاڑی لگائی گئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ بیس ارب کسی ایک جیب میں گئے ہیں یا سب نے مل بانٹ کر ڈکارے ہیں؟ کیا یہ سب میں برابر تقسیم ہوئے یا حصہ بقدر جثہ کے اصول کے مطابق تقسیم کیے گئے۔ کیا عجب اتفاق ہے کہ پنجاب میں الیکشن کے لیے الیکشن کمیشن کو بھی 20 ارب روپے ہی درکار ہیں مگر حکومت کبھی خزانہ خالی ہونے کی نوید سناتی ہے تو کبھی کابینہ و اسمبلی سے پیسے جاری نہ کرنے کی قراردادوں کی منظوری لی جاتی ہے۔ اسی طرح الگ الگ الیکشن کرانے سے متعلق الیکشن کمیشن کی جس رپورٹ کو لے کر حکومت کی جانب سے واویلا کیا جا رہا ہے‘ اس میں بھی صوبوں میں الگ الگ الیکشن کرانے کی صورت میں لگ بھگ بیس ارب روپے کے اضافی اخراجات کی بات کی گئی ہے۔ یعنی اب تک حکومت یہ تاثر دیتی آئی ہے کہ اگر صوبوں اور وفاق میں الگ الگ الیکشن ہوئے تو گویا ملکی خزانے کو شدید نقصان پہنچے گا اور ہم دیوالیہ ہو جائیں گے مگر اب حقائق سامنے آ رہے ہیں کہ محض ایک منصوبے میں ہی مبینہ طور پر بیس ارب روپے پار کر لیے گئے۔ وہ بھی ایسے منصوبے میں جو ایک ماہ سے بھی کم مدت کے لیے تھا اور جو تیس سے زائد جانوں کی بلی لے کر ٹلا۔
یہ تو اب شاہد خاقان عباسی ہی بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے یہ بات کس بنیاد پر کی ہے اور اس حوالے سے ان کے پاس کیا معلومات ہیں؛ البتہ ایک بات سب کے علم میں ہو گی کہ جب مفت آٹا سکیم کی منظوری دی جا رہی تھی تو ابتدا میں اس کے لیے 53 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی تھی جس کے تحت فیصلہ ہوا کہ اس سے 5 لاکھ 37 ہزار ٹن گندم فلور ملوں کو جاری کی جائے گی لیکن بعد میں نجانے کیا ہوا کہ یکم اپریل کو اس رقم میں مزید 35 ارب روپے کا اضافہ کر دیا گیا۔ اگر اس دوران پنجاب میں آنے والے اچانک اور بے ربط تبادلوں کے ریلے کو سامنے رکھیں تو ایسی کئی کہانیوں کا پس منظر شاہد خاقان عباسی کے الزامات کے آئینے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ آئینی و قانونی طور پر نگران حکومتیں انتظامی عہدوں پر تبادلوں کا اختیار نہیں رکھتیں اور انتہائی ضروری نوعیت کے تبادلوں کے لیے الیکشن کمیشن کی اجازت کی مرہونِ منت ہوتی ہیں مگر گزشتہ ایک سال میں آئین و قانون کے شاید مفہوم ہی پلٹ گئے ہیں یعنی ''تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا‘‘ کے مصداق سبھی وہ کام‘ جو کل تک غیر آئینی متصور ہوتے تھے‘ نہ صرف دیکھنے کو مل رہے ہیں بلکہ اب ان کی نئی نئی توضیحات کی جا رہی ہیں۔ انتظامی عہدوں پر اب تک کتنے تبادلے ہوئے ہیں اور ان کے مقاصد کیا ہیں‘ ذرائع کے مطابق اس کے لیے کچھ لوگوں کی جانب سے علیحدہ سے ریکارڈ مرتب کیا جا رہا ہے اور ہو سکتا ہے کہ جلد ہی کسی وقت یہ سب کچھ سامنے آ جائے۔
رمضان المبارک کے متبرک اور رحمتیں اور برکتیں بکھیرنے والے مہینے میں عوام کو ریلیف دینے کے نام پر جب ''مفت آٹا سکیم‘‘ کا اعلان کیا گیا تو اس وقت پنجاب میں الیکشن کے لیے 30 اپریل کی تاریخ کا اعلان ہو چکا تھا‘ جسے بعد ازاں 14 مئی کر دیا گیا۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ الیکشن کے دوران نہ تو کسی نئے منصوبے کا اعلان کیا جا سکتا ہے مگر نہ ہی وزرا یا حکومت کا کوئی نمائندہ متعلقہ علاقوں کا دورہ کر سکتا ہے مگر غریب عوام کو اپنے ساتھ ملانے کیلئے راشن کے نام پر ڈرامہ کرتے ہوئے دس کلو آٹے کا تھیلا مفت بانٹنے کیلئے شہباز شریف حکومت نے 84 ارب روپے جاری کرنے کے احکامات جاری کر تے ہوئے لاکھوں من گندم کی خریداری شروع کر دی۔ اس کے لیے کن فلور ملوں کو ٹاسک سونپے گئے‘ یہ ایک الگ بحث ہے، البتہ جس وقت یہ گندم ان فلور ملوں تک پہنچائی جا رہی تھی‘ محکمہ خوراک اور فلور ملز میں کام کرنے والے بہت سے خدا ترس افراد نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ بتانا شروع کر دیا کہ یہ گندم انسان تو کجا‘ جانور بھی نہیں کھا سکتے جس کا پسا ہوا آٹا عوام کو دیا جا رہا ہے۔ عین اسی وقت سوشل میڈیا پر بھی سندھ سے خریدی گئی گندم کی بہت سی وڈیوز وائرل ہو نا شروع ہو گئیں۔ ان وڈیوز میں جو گندم دکھائی جا رہی تھی‘ وہ گھوڑوں، گدھوں اور خچروں کی خوراک کیلئے تو شاید مناسب ہو سکتی تھی لیکن انسانوں کیلئے ہرگز نہیں، لیکن کسی بھی فورم پر عوام کی شنوائی نہ ہو سکی اور ''مفت آٹے‘‘ کے نام پر عوام کو وہ گندم فراہم کی گئی جو سیلاب اور نمی کی وجہ سے ناقابلِ استعمال ہو چکی تھی۔ جب اس آٹے کے بارے میں تشویشناک خبریں گردش کر رہی تھیں تو اس وقت بھی سول سوسائٹی اور ملکی حالات کو قریب سے دیکھنے والوں کی جانب سے متنبہ کرنے کا سلسلہ جاری تھا۔ 31 مارچ کو ایک ایسی ہی ذمہ دار شخصیت کی جانب سے ٹویٹ کیا گیا تھا کہ ''فری آٹا حقیقت: یہ چیک کر لیں کہ کس نے اپنی گلی سڑی گندم بیچ کر قوم کے پیسوں سے سبسڈی لی اور کوئی اکیلا شخص نہیں بلکہ اس کے ساتھ دیگر بہت سے افراد بھی ملے ہوئے ہیں‘‘۔ سندھ کے کچھ انجانے گوداموں سے متعلق بتایا جا رہا تھا کہ کھلی جگہوں پر بنائے گئے گندم کے یہ گودام بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے خراب ہو چکے تھے‘ وہاں سے پنجاب پہنچائی گئی گندم کی حالت اس قابل نہیں تھی کہ انسان کھا سکیں۔ شاہد خاقان عباسی نے تو 29 اپریل کو بتایا کہ اس مفت آٹے کے چکر میں کم ازکم 20 ارب روپے کی دیہاڑی لگائی گئی ہے، راقم نے 12 اپریل کے اپنے کالم میں اس بابت خدشے کا اظہار کیا تھا کہ جس گندم سے یہ آٹا تیار کرایا گیا ہے‘ اسے دیکھ کر تو فلور ملز والے بھی اپنے کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں۔
پنجاب اور کے پی میں جہاںاس سڑی بُسی گندم کا آٹا تقسیم کیا گیا‘ وہاں عوام کے ووٹوں سے منتخب حکومت کے قیام کیلئے رجیم چینج والوں کے پاس بیس ا رب روپے نہیں ہیں لیکن ان صوبوں کے عوام کو ناقص اور مضرِ صحت آٹا مفت میں بانٹنے اور اس سکیم پر اپنی سیا سی دکان چمکانے کیلئے 85 ارب روپے سے زائد ضائع کیے جا سکتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کی بیس ارب روپے کرپشن کی بات نے پوری قوم کو ایسے دکھ اور تکلیف میں مبتلا کر دیا ہے جس کا شاید رجیم چینج والوں کو اندازہ نہیں۔ یہ جیتا جاگتا پاکستان ہے‘ یہ وہ پہلے والا خوابیدہ پاکستان نہیں ہے۔ اب یہاں سب جاگ رہے ہیں۔ ہر گھر کے لوگ جاگ چکے ہیں اس لیے اب ایک ایک پیسے کا حساب دینا ہو گا۔ یہ قوم اب بھولنے والی نہیں ہے۔ یہ ایشو یہاں تک ہی نہیں رہے گا، معاملہ کھلے گا تو ساری حقیقت سامنے آئے گی کہ فلور ملوں نے اس آٹے کی پسائی کیلئے کتنا معاوضہ اور کتنا کمیشن لیا، گندم کا کوٹہ کس بنیاد پر دیا گیا، یہاں پر کس کس نے کمیشن بنایا اور پھر جب یہ آٹا تقسیم کیلئے بھجوایا گیا تو متعلقہ پٹواریوں نے کتنی دیہاڑیاں لگائیں۔ یہ معاملہ اب دبتا نظر نہیں آتا کیونکہ اس کرپشن کی گواہی کوئی اور نہیں بلکہ شاہد خاقان عباسی جیسا شخص دے رہا ہے‘ جو اس ملک کا وزیراعظم ہے اور جو حکومتی جماعت کا مرکزی رکن ہے۔