ستمبر1965ء میں بھٹو اور 2017ء اور 2019 ء میں عمران خان ‘ یہی دو ایسے حکمران تھے جنہوں نے کشمیر پر عوامی رائے کو اہمیت دیتے ہوئے ہم سب کی ترجمانی کی۔ عمران خان پر آج کل تھوک کے حساب سے مقدمات درج کروائے جا رہے ہیں ‘ غداری جیسے سنگین الزامات تک لگادیے گئے ہیں‘ مگر یہ حرکتیں کشمیریوں اور اوورسیز پاکستانیوں کیلئے ندامت کا باعث بن ہیں جو عمران خان کی جنرل اسمبلی میں کی جانے والی تقریر دنیا کو سنا کر مقبوضہ کشمیر پر اپنے مقدمے کو مضبوط بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔
مقبوضہ وادیٔ کشمیر میں کچھ عرصے سے صبح کے وقت مختلف قسم کے ہتھیاروں کی فائرنگ نے خوف اور دہشت کی ایسی فضا قائم کر رکھی ہے۔ ایسے میں مقامی لوگ اپنے روزمرہ کام کاج کیلئے باہر نکلنے سے بھی گھبرانے لگے ہیں کیونکہ وہ کئی دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں کہ جیسے ہی رات گئے کہیں فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو تھوڑی دیر میں بھارتی فوجی آس پاس کی آبادیوں پر چڑھ دوڑتے ہیں اورگھر وں سے نوجوان لڑکوں‘ لڑکیوں کو تفتیش کے نام پر اٹھا کر لے جاتے ہیں‘ جن میں سے جو واپس آتے ہیں وہ عرصے تک اپنے حواس میں نہیں آسکتے جبکہ باقی کا کبھی پتا ہی نہیں چل پاتا کہ کدھر گئے ہیں؛ تاہم جب کئی دنوں تک بھارتی فوجی ‘ پیرا ملٹری فورسز اور پولیس کی جانب سے اس فائرنگ کا کوئی نوٹس نہ لیا گیا تو لوگ کچھ حیران بھی ہوئے لیکن سمجھ دار لوگوں کیلئے یہ پریشانی کا باعث بھی بن چکا تھا ‘وہ سمجھتے تھے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہلکے اور بھاری ہتھیاورں سے روزانہ صبح سویرے اس قدر فائرنگ ہو اور بھارتی فوج اس کا نوٹس ہی نہ لیں۔کچھ دنوں کے بعد عقدہ کھلا کہ بھارتی سرکار اور اس کی خفیہ ایجنسیوں نے فوج سے ریٹائر ہونے والے سینکڑوں لوگوں کو ان کے خاندانوں سمیت مقبوضہ وادی میں آباد کر نا شروع کر رکھا ہے اورانہیں فوجی تربیت دی جا رہی ہے تاکہ وہ کشمیری مجاہدین اور تحریک آزادی کشمیر کیلئے جلسے جلوس اور ریلیاں نکالنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کے علا وہ مقامی آبادیوں پر اپنا رعب اور دبدبہ بھی قائم کر سکیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سینکڑوں ریٹائرڈ فوجی جنہیں بھارت کی جانب سے مقبوضہ وادیٔ کشمیر میں بسایا جا رہا ہے ان میں ایک بھی سکھ خاندان نہیں۔ یہ سلسلہ کب تک پوشیدہ رہ سکتا تھا‘ جلد ہی اس کی بھنک بین الاقوامی میڈیا کو بھی پڑ گئی اور AFP نے اس حوالے سے اپنی خبر میں لکھا کہ بھارت مقبوضہ وادی میں سینکڑوں ریٹائرڈ فوجیوں کے علا وہ پانچ ہزار سے زائد ناجائزآبادکاروں کو بھی فوجی تربیت دے رہا ہے۔ RAW اور بی جے پی کا منصوبہ یہ ہے کہ ایک طرف تو ان پانچ ہزار ناجائز قابضین کو دھرم کے نام پر کشمیری مسلمانوں سے ٹکرایاجائے اور دوسری طرف ان میں سے اگر کوئی مارا جائے توگودی میڈیا کے ذریعے شور مچا دیا جائے کہ کشمیری مجاہدین ہندو سویلین آبادی کو نشانہ بنا رہے ہیں اور ان کی لاشیں بھارت اور دنیا بھر کو دکھا کر اپنے لیے اگلے الیکشن کیلئے ہمدردیاں اور ووٹ پکے کئے جاسکیں۔
ادھر حال ہی میں آزاد کشمیر میں تحریک انصاف کی حکومت کو جس طرح پلٹا گیا اسے سوائے نادانی کے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تحریک انصاف الزام لگا رہی ہے کہ یہ اس مبینہ معاہدے کی ابتداہے جو لندن میں کیا گیا تھا تا کہ تحریک انصاف کے بخیے ادھیڑ کر اسے ادھر اُدھر بکھیر دیا جائے ‘ مگر یہ اس ملک اور اس کی جمہوری سیا ست پر ظلم ہو گا جس کا خمیازہ مدتوں بھگتنا پڑسکتا ہے۔ صرف اتنا کہیں گے کہ زمینی حقائق کا اندازہ کرنے کیلئے سروے کروا لیجئے یا جمعہ خان صوفی کی کتاب پڑھ کر سوچ لیجئے کہ اس نادانی سے بات دور تک جاسکتی ہے۔ عمران خان اور کشمیرلازم و ملزوم ہیں کہ دنیا بھر میں کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کیلئے نکلنے والے80 فیصد سے زائد اوور سیز پاکستانیوں کا تعلق عمران خان کی جماعت سے ہے‘ ا س لیے کشمیر کاز کو اجاگر کرنے کے کریڈٹ کو عمران خان سے چھیننا کسی نادان دوست کا کارنامہ لگتا ہے۔ اپریل 2017ء میں تحریک انصاف کے چیئر مین نے اسلام آباد‘ شکر پڑیاں پریڈ گرائونڈ اور پھر جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں مسئلہ کشمیر کو جس انداز سے اٹھایا وہ پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے کروڑوں لوگوں کے دلوں کی آواز تو تھی ہی دنیا بھر کے لیڈرز اور سفارتی اہلکاروں کیلئے بھی ایک پیغام تھا کہ حقِ خود ارادیت صرف مخصوص قوموں کا مقدر نہیں ہونا چاہئے۔
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے بھی اگلے روز کاکول میں خطاب کرتے ہوئے بھارت سمیت دنیا بھر تک پیغام پہنچا تے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی دہشت گردی سے ہم لاتعلق نہیں رہ سکتے۔اس پیغام سے کشمیریوں کو یقین ہو گیا ہے کہ وہ اپنی جدو جہد میں اکیلے نہیں۔ کشمیری بہن بھائیوں کو یقین ہے کہ پاکستان سے اٹھنے والی ان طاقتور آوازوں کے پیچھے سچا جذبہ کارفرما ہے۔ آرمی چیف نے کاکول میں کشمیر کے لیے جو کچھ کہا‘ کشمیریوں کے متعلق یہ سوچ اور جذبہ ہماری عسکری اور سیاسی قیادت کی یکساں سوچ کا غماز ہے۔
2018ء میںجب عمران خان کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے اقوام متحدہ میں کشمیر کے لیے زور دار آواز بلند کی اور کہا کہ بھارت کے فوجی قبضے میں کشمیری ہر روز ظلم کا شکار ہوتے ہیں لیکن ان کیلئے کسی کے دل میں کوئی درد نہیں اٹھتا‘ کسی کی انسانیت پامال نہیں ہوتی‘ ہاں اگر کشمیری اسلام کے سوا کسی اور مذہب کے ماننے والے ہوتے تو انہیں کب کی آزادی مل چکی ہوتی۔ 1966ء میں اقوام متحدہ کی منظور کی جانے والی وہ قرار داد اقوام عالم شائد بھول گئی ہیں جس میں محکوم قوموں کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا‘ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے اپنے فیصلے میں حقِ خود ارادیت کو قانون کا حصہ بنا دیا ہے۔ کشمیری مسلمان اپنے لئے Self- determination کا جو حق مانگ رہے ہیں اس کے بارے میں مغربی ممالک سمیت امریکیوں کی کیا رائے ہے ‘اس کیلئے اگر ہم 18ویں صدی میں چلے جائیں توRousseau‘ Mill‘Locke جیسے بڑے بڑے مانے ہوئے فلاسفر اور دانشور یہی کہتے رہے کہ انسانوں کو ان کی مرضی کے مطا بق زندگی گزارنے کا حق ملنا چاہئے‘ ان پر کوئی حکم ٹھونسا نہ جائے بلکہ انہیں اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا اختیار ہونا چاہئے۔ امریکہ کے انقلابیوں نے تو اسی پر عمل کرتے ہوئے اپنی آزادی کی جنگ شروع کی تھی۔کیا فرانسیسی قوم اس امر سے ذرا سا بھی انکار کر سکتی ہے کہ روسو کے حقِ خود ارادیت کے فلسفے پر عمل کرکے ہی انہوں نے انقلابِ فرانس کی جانب قدم بڑھایا تھا؟اور کون انکار کرے گا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہیThe right of people to decide their own destiny کے تصور نے جنم لیا تھا۔ یہ وہی اقوام متحدہ ‘ یورپی یونین اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں ہیں جنہوں نے مشرقی تیمور کی علیحدہ ریاست کیلئے انڈو نیشیا کو ناکوں چنے چبوا کروہاں ریفرنڈم کے ذریعے2002ء میں ایسٹ تیمور کے نام سے نئی ریاست بنا دی جبکہ امریکہ اوراقوام متحدہ نے سوڈان پرمکمل معاشی پابندیوں کے ذریعے 2011ء میں جنوبی سوڈان کی شکل میں ایک علیحدہ ریاست تشکیل دلوائی ‘ چیکو سلواکیہ کی جگہ جمہوریہ چیک اور سلواک اورایتھوپیا کے وجود سے اریٹیریا اوریوگو سلاویہ سے کتنی ہی نئی آزاد ریا ستیں وجود میں لائی گئیں۔ اگر کہیں بے عملی اور قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی نظر آتی ہے تو وہ مقبوضہ کشمیر ہے۔