"MABC" (space) message & send to 7575

سندھ طاس معاہدے کا مستقبل

بھارتی میڈیا اور مودی سرکار پاکستان کی جانب سے ہیگ کی عالمی عدالت میں بھارت کے خلاف دائرکیے گئے آبی مقدمات واپس نہ لیے جانے کی صورت میں کھلے عام دھمکی دیتے نظر آ رہے ہیں کہ اگر یہ مقدمات فی الفور واپس نہ لیے گئے تو پھر بھارت سندھ طاس معاہدے کیساتھ بھی وہی سلوک روا رکھے گا جو وہ اب تک مقبوضہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ساتھ کرتا آیا ہے۔ بھارتی میڈیا میں ایک طبقہ پورے زور و شور سے مطالبہ کر رہا ہے کہ فوری طور پرمودی حکومت سندھ طاس معاہدے کوختم کر دے اور اس کیساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے جو اس نے آرٹیکل 370 سے کیا۔ کچھ تجزیہ کار اور اینکرز تو اس قدر جذباتی انداز میں سندھ طاس معاہدے کی مخالفت پر تلے ہوئے ہیں‘ گویا بھارت کی غربت اور پسماندگی کی وجہ یہی ایک معاہدہ ہے۔ بھارت نے پاکستان کی جانب سے عالمی ثالثی کی درخواست کو سندھ طاس معاہدے سے انحراف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب بھارت چناب اور جہلم کا ایک قطرہ بھی پاکستان کی جانب نہیں آنے دے گا اور دریائے سندھ کے پانی کو بھی روکے گا۔ بھارت کی جانب سے دی گئی ان دھمکیوں اور بھارتی میڈیا کی سندھ طاس پر مسلسل رپورٹنگ کے جواب میں ہمارے ہاں مکمل خاموشی ہے۔یہ قومی نوعیت کا اہم ترین معاملہ ہے جسے سر سری نہیں لیا جانا چاہیے۔ ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ نریندر مودی اپنے جلسوں میں اس قسم کے اعلانات کرتے رہے ہیں کہ وہ پاکستان کے طرف آنیوالے دریائوں کی ایک ایک بوند پر روک لگا دیں گے۔ کچھ طبقات ان بڑھکوں کو اپنے ووٹرز کو رام کرنے اور انتہا پسند ووٹرز کو اپنے گرد جمع کرنے کے حربے کے طور پر دیکھتے ہیں مگر معاملے کی سنگینی اور مودی کے ٹریک ریکارڈ کے پیشِ نظر اس معاملے سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔
اگر سندھ طاس معاہد ے کی بات کریں تو قریب63 سال پہلے پاکستان کے صدر ایوب خان اور بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو کی کوششوں سے دریائوں کے پانی کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان یہ متفقہ معاہدہ طے پایا تھا۔ اس معاہدے کے مطابق تین مغربی دریاؤں جہلم‘ سندھ اور چناب کے 80 فیصد پانی پرپاکستان کا حق قرار پایا اور اس حق کو بھارت نے باقاعدہ تسلیم کیا۔ معاہدے کے مطابق بھارت کو دریائے سندھ کے 20 فیصد پانی اور تین مشرقی دریاؤں‘ راوی، بیاس اور ستلج کا پانی استعمال کرنے کا حق دیاگیا۔ بھارت کو پاکستان کے حصے میں آئے دریاؤں کے بہتے ہوئے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا حق ہے لیکن اسے پانی ذخیرہ کرنے یا اس کے بہاؤ کو کم کرنے کا حق نہیں ہے۔ ورلڈ بینک اس معاہدے میں عالمی ضامن ہے لیکن اب بھارت نے اس معاہدے کے قواعد و ضوابط کو یکطرفہ طور پر بدلنے کی کوشش کی ہے۔بھارت نے پاکستان کو نوٹس بجھوایا تھا کہ دونوں ملک مل کر اس معاہدے پر نظرِ ثانی کریں اور اس میں ترامیم کریں۔
اس وقت پاکستان اور بھارت میں کشن گنگا اور ریتل ڈیم کے حوالے سے تنازع چل رہا ہے اور پاکستان نے ہیگ کی بین الاقوامی عدالت میں بھارت کے خلاف کیس دائر کر رکھا ہے اور عدالت سے درخواست کی ہے کہ دونوں ممالک کے اختلافات پر اپنا فیصلہ دے یا ثالثی کی کوشش کرے۔ بھارت کے یہ دونوں پن بجلی پروجیکٹس جہلم اور چناب کے دریائوں پر بن رہے ہیں۔ پاکستان کو خدشہ ہے کہ ان ڈیموں کے ذریعے پاکستان کے پانی کو نہ صرف بھارت روکے گا بلکہ ڈیموں کو اچانک کھول کر پاکستان کو سیلاب میں ڈبونے کی کوشش بھی کرے گا۔بھارت کے آبی منصوبوں کے متنازع ڈیزائن پر پاکستان نے اگست 2016ء میں عالمی بینک کی ثالثی عدالت سے رجوع کیا تھا جس پر ورلڈ بینک نے مارچ 2022ء میں عدالتی تشکیل کا عمل شروع کیا۔ 330 میگا واٹ کے کشن گنگا منصوبے کو آبی ماہرین ضرورت سے زیادہ بھارت کا سٹرٹیجک منصوبہ قرار دے رہے ہیں۔ اس منصوبے کا محض ایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح پاکستان کے ایک ہزار میگا واٹ کے نیلم جہلم ہائیڈرو پروجیکٹ کو بند کیا جائے۔ پاکستان نے پہلے یہ اعتراض بھارت کے ساتھ بھی اٹھایا تھا مگر سندھ طاس کمیشن اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہ کر سکا۔ اسی لیے اب غیر جانبدار ثالثی کے لیے درخواست کی گئی ہے۔ اگرچہ 2015ء میں بھی اس حوالے سے ایک درخواست کی گئی تھی مگر پھر نجانے کیا ہوا کہ اگلے ہی سال وہ درخواست واپس لے لی گئی۔ اب پاکستان کے اصرار پر عالمی بینک نے غیر جانبدار ماہر اور ثالثی کا عمل بیک وقت شروع کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس معاہدے پر لگ بھگ سبھی مسائل بھارت کی جانب سے نئے ڈیموں کی تعمیر کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ 2008ء میں ہماری حکومت کی عدم توجہی اور اپنا موقف مدلل انداز میں پیش نہ کر سکنے کی وجہ سے پاکستان کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے بھارت کو بگلیہار ڈیم کی تعمیر کی اجازت دی گئی تھی۔ اسی طرح 2013ء میں کشن گنگا ڈیم پر بھی اپنا کیس بھرپور طریقے سے عالمی ثالثی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔
ورلڈ بینک کے آبی ماہر کی حیثیت سے بنگلہ دیش، بھارت اوربرازیل میں 35 برس تک خدمات سرانجام دینے والے جنوبی افریقہ کے جان بریسکو (John Briscoe) نے 2006ء اور 2007ء میں بھارت اور پاکستان کی آبی معیشت پر لکھی جانے والی کتابوں اور اپنے مقالوں میں اقوام عالم کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا ''مستقبل قریب میں پانی کے مسئلے پرپاکستان اور بھارت میں کسی بھی وقت جنگ چھڑسکتی ہے ‘‘۔دنیا بھر میں ''مسٹر واٹر‘‘ کی شہرت رکھنے والے آنجہانی جان بریسکو نے قریب ایک دہائی قبل کہا تھا کہ بھارت پاکستان پر گزشتہ کئی برسوں سے آبی حملے کر رہا ہے اور پاکستان کے غذائی مورچے تباہ ہوتے جا رہے ہیں مگر پاکستان اس حوالے سے خوابِ غفلت کا شکار ہے۔ 2006ء آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے شائع ہونے والے India's Water Economy: Bracing for a Turbulent Future اور 2007ء میں شائع ہونے والے مقالے Pakistan's Water Economy: Running Dry میں جان بریسکو نے مستقبل کی تمام صورتحال واضح کر دی تھی۔
سندھ طاس معاہدے میں بھارت کو پاکستانی دریائوں پر صرف اس حد تک اختیار دیا گیاتھا کہ وہ ان پر ہائیڈرو پاور پروجیکٹ بنا سکتا ہے۔ نہ تو ان دریائوں میں پانی کی مقدار میں کمی کر سکتا ہے اور نہ ہی ان کا رخ بدلا جاسکتا ہے۔ لیکن ان شقوں پر عملدرآمد تو دور کی بات‘ مودی سرکار نے اب اس معاہدے سے ہی انکار شروع کر دیا ہے۔ بگلیہار ڈیم کے معاملے پر پاکستان کا اعتراض تھا کہ ڈیم پر واٹر گیٹ نصب نہیں کیے جا سکتے مگر بھارت نے سلٹ (Silt) کا بہانہ بنایا۔ اگر صرف یہی ایک معاملہ ہوتا تو باہمی رضامندی سے کچھ حل نکل سکتا تھا لیکن یہاں پر تو ریتل، سوالکوٹ، پاکلدل، برسار، دل ہست اور جسپا سمیت ڈیموں کی ایک طویل اور نہ ختم ہونے والی فہرست ہے۔ جان بریسکو نے کہا تھا کہ وہ پانچ سال تک نئی دہلی میں رہنے کے بعد پورے وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ بھارت کے دل میں پاکستان دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور وہ ہمیشہ اسی تاک میں رہتا ہے کہ موقع ملے اور پاکستان کو نقصان پہنچایا جائے۔ اس کام میں بھارتی میڈیا اپنی حکومت سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔ جان بریسکو نے کہا تھا کہ پاکستان کو یہ شق معاہدے کا حصہ بنانی چاہیے تھی کہ پاکستان تبھی بھارت کو ہائیڈرو پاور پروجیکٹس کی اجازت دے سکتا ہے جب پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد اور اس کا اخراج پاکستان کی منشا کے مطابق ہو۔ نجانے ہمارے ماہرین اس امر پر اب غور کیوں نہیں کرتے۔ جہاں تک معاہدہ توڑنے کی بات ہے تو جنوبی ایشیا میں دریاؤں کے تنازع پر ایک کتاب کے مصنف اور سنگاپور نیشنل یونیورسٹی کے بھارتی نژاد پروفیسر امت رنجن کا ماننا ہے کہ سندھ طاس معاہدے سے اگر دونوں میں سے کوئی ایک ملک بھی یکطرفہ طور پر نکلنا چاہے تو وہ نہیں نکل سکتا؛ اگرچہ ویانا کنونشن کے تحت عالمی معاہدے ختم کرنے یا اس سے الگ ہونے کی گنجائش موجود ہے لیکن اس پہلو کا اطلاق سندھ طاس معاہدے پر نہیں ہو گاکیونکہ اگر کسی طرح یہ معاہدہ ٹوٹ جائے تو بھی ایسے بین الاقومی کنونشنز، ضوابط اور اصول موجود ہیں جو دریائی ملکوں کے آبی مفادات کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں