"MABC" (space) message & send to 7575

بوجھ زیادہ ہے

اب اگر کسی کی سمجھ میں نہ آئے تو اس میں ہمارا کیا قصور؟ جب قریب پندرہ روز پہلے پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے سندھ میں اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی کا عندیہ دیا تھا تو ماتھا اسی وقت ٹھنک گیا تھا کہ کچھ گڑبڑ ہونے والی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی یقین ہو گیا کہ کہیں نہ کہیں ملک بھر میں یکساں نئے انتخابات کا بگل بجانے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے، وگرنہ پی ٹی آئی کے اپوزیشن لیڈر کو تبدیل کرنے کی کوئی خاص وجہ نظر نہیں آ رہی تھی۔ پنجاب اور سندھ میں پہلے ہی مرضی کی نگران حکومتیں تشکیل دی جا چکی ہیں جو اپنی میعاد پوری ہونے کے بعد بھی تختِ اقتدار پر براجمان ہیں اور جس حوالے سے لاہور ہائیکورٹ میں ایک درخواست سماعت کے لیے مقرر کی جا چکی ہے۔ جب ہم خیال اپوزیشن لیڈر ہو تو نگران حکومت کی تشکیل میں آسانی ہو جاتی ہے۔
قریب ایک ماہ پہلے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ نے زمان پارک لاہور میں چیئرمین تحریک انصاف سے ملاقات کی تھی۔ سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل بھی اس ملاقات میں شریک تھے۔ اس کے بعد خبر آئی کہ عمران خان نے حلیم عادل شیخ کو سندھ کے حوالے سے اہم ٹاسک سونپے ہیں۔ اس ملاقات میں عمران خان نے دونوں رہنمائوں کوتمام ہم خیال جماعتوں اور سول سوسائٹی سے رابطے کا ٹاسک سونپا تھا۔ حلیم عادل شیخ کو کہا گیا کہ وہ سندھ کی سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کے علاوہ سول سوسائٹی سے بھی رابطہ کریں اور انہیں فعال کریں۔جیسے ہی حلیم عادل شیخ نے واپس کراچی جا کر ایک دو جماعتوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو پیپلز پارٹی سندھ کے رہنمائوں نے بیانات دینا شروع کر دیے کہ سندھ میں اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی کا معاملہ زیرِ غور ہے۔ اس کے بعد ایم کیو ایم کا بیان آیا کہ وہ سندھ اسمبلی میں ایک خاتون رہنما کو اپوزیشن لیڈر بنا کر تاریخ رقم کرنا چاہتی ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت ایم کیو ایم مرکز کی طرح سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کی اتحادی ہے۔ اس کے بعد لابنگ شروع ہو گئی کہ کسی طرح ایم کیو ایم کو اپوزیشن میں بھیج کر جی ڈی اے کو ساتھ ملایا جائے اور اپنا اپوزیشن لیڈر بنوایا جائے۔ حلیم عادل شیخ نے بھی اس حوالے سے خدشات کا اظہار شروع کر دیا کہ سندھ میں کوئی گریٹ گیم کھیلی جا رہی ہے۔
اس وقت سندھ اسمبلی کی 168 سیٹوں میں سے 99 پیپلز پارٹی اور 30 ایم کیو ایم کے پاس ہیں اور یہ دونوں ہی حزبِ اقتدار میں ہیں۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی پی ٹی آئی ہے جس کی 30 سیٹیں ہیں۔ جی ڈی اے کے 14، ٹی ایل پی کے تین اور جماعت اسلامی کا ایک ممبر ہے۔ گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی کے اجلاس کے دوران سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کے پی ٹی آئی کے ایک منحرف رکن عبدالکریم گبول کو اپوزیشن لیڈر کی سیٹ پر یہ کہتے ہوئے بٹھا دیا کہ ان کے پاس اختیار ہے کہ وہ کسی بھی رکن کو کسی بھی سیٹ پر بٹھا دیں۔اسی طرح یہ بھی سندھ اسمبلی کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ پی ٹی آئی کے تین ممبران کی چھٹی کی درخواستیں مسترد کر دی گئیں اور پھر ان کو ڈی نوٹیفائی کرنے کی دھمکی دی گئی۔ حلیم عادل شیخ (جنہوں نے بطور اپوزیشن لیڈر اسمبلی میں کم اور حوالات اور جیل میں زیادہ وقت گزارا ہے) کی اسمبلی سے غیر حاضری پر اپوزیشن کو سپیکر کی جانب سے یہ مشورہ بھی دیا گیا کہ وہ فوری طور پر اپوزیشن لیڈر تبدیل کر لیں۔ پی ٹی آئی کو اُس وقت شاید ان باتوں کی سمجھ نہیں آ رہی تھی لیکن اب سر پیٹ رہے ہیں جب ایک ایک کر کے سندھ اسمبلی میں ان کے اراکین انہیں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ شنید ہے کہ قومی اسمبلی میں پارٹی کے منحرف اراکین کی طرح‘ ان سب کو بھی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ انہیں اگلے الیکشن میں پیپلز پارٹی کا ٹکٹ دیا جائے گا۔
گوگا دانشور سے جب ملک کی موجودہ گمبھیر صورتِ حال بارے پوچھا تو وہ حقے کا ایک لمبا سا کش لگاتے ہوئے کہنے لگے: کم عقلو! اتنی سی بات بھی تم لوگوں کو سمجھ میں نہیں آتی۔ پھر کہا کہ ایک گائوں میں کسی نمبردار کا کوئی فنکشن تھا۔ اس نے ایک بڑی بیٹھک نما ایک ہال بک کرایا۔ سو‘ ڈیڑھ سو افراد کی گنجائش والے اس ہال میں اگر ڈھائی سو سے زائد آدمی آ کر بیٹھ جائیں تو سوچئے کہ منتظمین کی کیا حالت ہو گی۔ اس نفیس ہال کی اپنی کیا حالت ہو جائے گی۔ یہی وہ مسئلہ تھا جو 90 دنوں سے انتظامیہ ہال کھولنے سے کترا رہی تھی۔ نمبردار اور ہال کی انتظامیہ کے درمیان اس بات پر باقاعدہ ہاتھا پائی شروع ہو گئی۔ جیسے جیسے دیر ہو رہی تھی‘ شور شرابا بڑھ رہا تھا۔ اسی دوران کسی نے ہال انتظامیہ کو خبر کر دی کہ پہلے سے تیار کی گئی مہمانوں کی فہرست میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ سنتے ہی ان کے اڑے ہوئے ہوش مزید اڑ گئے۔ فیصلہ ہو گیا کہ جب تک مہمانوں کی تعداد ان کی مرضی کے مطابق نہیں ہو گی‘ کسی کو ہال میں بیٹھنے کی اجازت تو دور‘ عمارت کے احاطے میں بھی کھڑا نہیں ہونے دیا جائے گا۔
گوگا دانشور نے ایک لمبی سانس لیتے ہوئے سامنے بیٹھے افراد کو کہا: بس یہ ہے کہانی اس ملک کی حالتِ زار کی۔ جب تک مہمانوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی کا یقین نہ ہو جائے‘ تب تک گائوں والے اسی طرح تکلیف، مصیبتوں اور پریشانیوں سے روتے رہیں گے۔ گوگا دانشور نے گُڑگُڑ کر کے دوبارہ حقے کا لمبا سا کش لیا۔ ایک بابا جی بولے: نو مئی کے واقعات کو جواز بنا کر جس تیز رفتاری سے تحریک انصاف کے اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی اور لیڈران، مقامی عہدیداران اور کارکنان اپنی جماعت اور اس کے چیئرمین کو چھوڑ کر جا رہے ہیں‘ اس سے بات تحریک انصاف کی صبحِ روشن شامِ غریباں میں بدل سکتی ہے۔ 'سمجھ دار‘ اور 'دور اندیش‘ لوگ ایک ایک کر کے تحریک انصاف سے بھاگ رہے ہیں۔
گوگا دانشور نے جواب دیا: سچ پوچھو تو چودھری وجاہت سمیت کئی افراد کے جانے کی جس قدر خوشی تحریک انصاف کے لوگوں کو ہوئی ہے‘ اس کا کسی کو اندازہ ہی نہیں۔ وہ تو دعا کر رہے ہیں کہ خدا کرے پی ٹی آئی سے اور بہت سے ''سمجھ دار‘‘ بھی چلے جائیں۔
بابا جی پھر بولے: بظاہر اس وقت پی ٹی آئی کے ڈوبتے ہوئے جہاز سے کودنے والوں کے بارے میں جو اطلاعات مل رہی ہیں‘ ان سے متعلق بتایا جا رہا ہے کہ یہ تو ابھی ابتدا ہے۔ ایک لمبی لائن انتظار میں ہے کہ کب انہیں اشارہ ہو اور وہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے تحریک انصاف پر تبرا بھیجتے ہوئے اپنے فرض سے سبکدوش ہو جائیں۔ گوگا دانشور بولے: عمران خان کے خلاف یہ ہو کر ہی رہنا تھا۔ ہمارے جیسے چند بیوقوف بار بار متنبہ کر رہے تھے کہ اس قدر بھاری وزن کے ساتھ کون احمق انہیں اسمبلیوں میں بیٹھنے کی اجا زت دے گا؟ کیا اس نے اپنا ہال تباہ کرانا ہے؟ اگر کسی دفتر یا بڑے شاپنگ پلازے اور ہوٹلوں کی لفٹوں کے اندر صاف اور موٹے الفاظ میں یہ لکھ دیا جاتا ہے کہ پانچ‘ سات‘ بارہ یا زیادہ سے زیادہ بیس افراد کی گنجائش ہے تو سوچیں کہ اگر کوئی ڈیڑھ‘ دو سو لوگ لے کر لفٹ میں گھسنے کی کوشش کرے تو کیا ہو گا؟ اول تو ایسا ہونے ہی نہیں دیا جائے گا۔ ہو بھی جائے تو پھر اس لفٹ نے تو کمزور ہو کر ٹوٹنا ہی ہے۔ کون ہے جو اپنی آنکھوں کے سامنے اپنا نقصان برداشت کرے گا؟ انتخابات کا کیا ہے‘ وہ تو نوے دنوں میں کرائے جاتے رہے ہیں‘ اب بھی کرائے جا سکتے تھے۔ ان انتخابات کی جو بھاری بھرکم ''قیمت‘‘ تھی اس کا ہی سب کو ڈر اور خوف لگا ہوا تھا کہ ان کے پاس پھر کچھ بھی نہیں بچے گا۔ یہی وجہ ہے کہ سب اکٹھے ہو گئے۔
ملکی سیاست میں ہم نے تو اب تک یہی دیکھا ہے کہ سیاست اسی کی ہوتی ہے جس نے اپنے خاندان کو اس منفعت بخش کاروبار میں اتارا ہو۔ عمران خان نے اپنا کوئی جانشین سامنے لانے کی کوشش ہی نہیں کی‘ حالانکہ انہیں کئی افراد کا نام دیتے ہوئے مشورہ دیا گیا کہ کسی کے نام کا اعلان کر دیں مگر نجانے کس خوف یا کس سبب سے ایسا نہ کیا جا سکا۔ دوسری جانب مخالفین اپنی دوسری بلکہ تیسری نسل کو بھی ایک کے بعد ایک میدان میں اتار چکے ہیں۔ اب ان سب کی خاندانی بادشاہت کے سامنے ایک ہی چٹان بچی ہے۔ اس آخری چٹان کو گرانے میں ہی سب جتے ہوئے ہیں۔ کامیاب کون ہوتا ہے‘ اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔ اور وقت کی سب سے اچھی خوبی یہ ہے کہ اس کا نظام کسی زمینی قوت کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اس رب کریم کے پاس ہے جو تمام جہانوں کا مالک اور ہمیشہ قائم و دائم رہنے والا خدائے ذوالجلال ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں