یومِ تکبیر پر وہ ادارہ جسے کم کریڈٹ دیا جاتا ہے‘ ہماری فضائوں کے نگہبان‘ ہمارے شاہین اور پاکستان ایئر فورس ہے۔ اسی طرح سرگودھا میں واقع کیرانہ ہلز اور واہ گروپ‘ یہ دو نام پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کی تاریخ میں گمنام ہی رہے حالانکہ ان کا بھی ایک یادگار کردار ہے۔ 11مارچ 1983ء کو پاکستان کے ایٹم بم کا پہلا کولڈ ٹیسٹ یہاں پر ہی کامیابی سے ہمکنار ہوا تھا۔ یہ اولین ایٹمی تجربہ ڈ اکٹر اشفاق احمد کی نگرانی میں کیا گیا تھا۔ کیرانہ ہلز میں سرنگوں کی کھدائی کا کام 1979ء سے 1983ء تک جاری رہا۔ اس کامیابی کا سہرا پاک فوج کے زیر انتظام کام کرنے والے ''سپیشل ڈویلپمنٹ ورکس‘‘ کے سر ہے۔ کیرانہ ہلز کے اس علاقے میں جنگلی سوروں کی وجہ سے اس ٹیم کو بہت سی پریشانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا‘ یہاں تک کہ ایک فائٹر جہاز بھی رن وے پر دوڑتے ہوئے ان جانوروں کا نشانہ بنا۔ یہ ایک علیحدہ کہانی ہے۔ بہرکیف کیرانہ ہلز کی ان سرنگوں میں کولڈ ٹیسٹ سے پہلے ایک ایڈوانس پارٹی انہیں ڈی سیل کرنے کے لیے بھیجی گئی۔ جب یہ سرنگیں مکمل صاف کر دی گئیں تو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی ٹیم‘ جس کی سربراہی ڈاکٹر ثمر مبارک مند کر رہے تھے‘ اپنے ساتھ جدید تکنیکی سامان لیے پہنچی۔ واہ گروپ بھی نیوکلیئر ڈیوائس کے ساتھ پہنچ گیا جسے یہاں پر اسیمبل کرنے کے بعد سرنگ کے اندر مناسب طریقے سے رکھ دیا گیا۔ 20 کے قریب مختلف قسم کی انتہائی طاقتور کیبلز‘ جنہیں نیوکلیئر ڈیوائس کے مختلف حصوں کے ساتھ منسلک کرتے ہوئے‘ diagnostic vans سے جوڑ دیا گیا‘ جن کو کیرانہ ہلز میں پارک کیا گیا تھا۔ اس کولڈ ٹیسٹ کے لیے پش بٹن کی تکنیک استعمال کی گئی جو چودہ سال بعد چاغی کے اس تجربے سے بالکل الٹ تھی جس میں ریڈیو لنک تکنیک کا استعمال کیا گیا۔
مارچ 1984ء میں کہوٹہ میں بھی ایک کولڈ ٹیسٹ کیا گیا اور پھر یہ سلسلہ پاک فوج کی زیر نگرانی ترقی کی جانب بڑھتا ہی گیا اور 1983ء سے 1990ء کے سات سال کے دوران ایٹم بم کی تیاری میں مصروف '' واہ گروپ‘‘ ایک ایسا چھوٹا بم ڈیزائن کرنے میں کامیاب ہو گیا جو ایف سولہ جیسے فائٹر طیارے کے پروں کے نیچے نصب کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پاکستان ایئر فورس میراج فائیو، ایف سولہ اور اے فائیو طیاروں کے ذریعے ان نیوکلیئر بموں کو ٹھیک ٹھیک نشانوں پر گرانے کیلئے کنونشنل فری فال‘ لوفٹ بمبنگ‘ ٹاس بمبنگ اور ''لو لیول لے ڈائون اٹیک تکنیک‘ میں کامیابی حاصل کر چکی ہے۔
بھارت کی طرف سے 11 اور 13 مئی 1998ء کو راجستھان کے علاقے پوکھران میں پانچ ایٹمی دھماکے کرنے سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑ کر رہ گیا تھا اور بھارت نے ان سے پہلے ہی بڑھ چڑھ کر دھمکیاں دینی شروع کر دی تھیں۔ بھارت کو اسی لہجے میں جواب دینے کے لیے جی ایچ کیو نے 16 مئی کو چیئرمین اٹامک انرجی کمیشن ڈاکٹر اشفاق احمد‘ جو بیرونی دورے پر تھے‘ کو فوری طور پر واپس پاکستان آنے کا پیغام دیا۔ ان کے آنے پر چوٹی کے ایٹمی سائنسدانوں ڈاکٹر اشفاق احمد اور ثمر مبارک مند کا ایک اہم اجلاس ہوا تاکہ طے کیا جائے کہ بھارت کے جواب میں کتنے اور کس نوعیت کے دھماکے کرنے چاہئیں کیونکہ چاغی راس کوہ کی سرنگ میں 6 ایٹمی دھماکے کرنے کی صلاحیت تھی۔ طے پایا کہ بھارت‘ جو پانچ دھماکے کرنے کا دعویٰ کرتا ہے‘ اس کے جواب میں زیادہ دھماکے کیے جائیں گے۔ 19 مئی کو اٹامک انرجی کمیشن کے 140 سائنسدانوں، انجینئرز اور ٹیکنیشنز پر مشتمل ایک ٹیم بوئنگ737 کی دو پروازوں پر چاغی جانے کے لیے اسلام آباد سے بلوچستان روانہ ہو گئی۔ ٹیم میں واہ گروپ کا DTD اور Diagnostic Group بھی شامل تھا۔ ان میں سے کچھ لوگ اور بڑے بڑے آلات این ایل سی کے ٹرالروں کے ذریعے وہاں پہنچائے گئے۔ جیسے پچھلے کالم میں بتایا تھا کہ زمین پر ان کی حفاظت کی ذمہ داری پاک فوج کے خصوصی کمانڈوز کے پاس تھی جبکہ فضا میں پاک فضائیہ ان کی مسلسل نگرانی کر رہی تھی۔ اس کے علاوہ مطلوبہ نیوکلیئر ڈیوائسز کو بھی پاکستانی فوج کے سی 130کے ذریعے ''سب اسیمبل فارم‘‘ میں پہنچایا گیا۔ پاکستانی حدود میں ہونے کے باوجود ایئر فورس کے چار ایف سولہ جہازوں کی حفاظت میں انہیں چاغی اور ایک دوسرے مقام پر پہنچایا گیا۔ ان کے پہنچنے سے پانچ دن پہلے ہی جی ایچ کیو کی ہدایات پر کوئٹہ کی پانچویں کور کے انجینئرز نے چاغی اور دوسری جگہوں پرکھودی گئی سرنگوں کو سیل کر دیا تھا۔ اس کام میں سیمنٹ اور ریت کے 6000 تھیلے استعمال ہوئے۔ 26 مئی کی دوپہر تک یہ کام مکمل ہو چکا تھا اور 27 مئی کو پہاڑوں پر سخت گرمی پڑنے کی وجہ سے لگایا جانے والا سیمنٹ جلد ہی سوکھ گیا۔ پھر فیصلہ کیاگیا کہ 28 مئی کو 3 بجے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے ہوئے بٹن دبایا جائے گا۔
اس سے پہلے بھارت اور اسرائیل کے ممکنہ فضائی حملوں کے خدشات کے پیش نظر پاکستان کی ایئر فورس کو ہدایات جاری کر دی گئیں کہ فضائی طور پر پورا پاکستان کور کر لیا جائے۔ اس پر پاکستان ایئر فورس کے ایف سولہ اے اور ایف سیون ایم پی کے جہازوں نے فضائوں میں گشت شروع کر دیا۔ پھر سوائے diagnostic گروپ اور فائرنگ ٹیم کے‘ باقی تمام سول اور ملٹری اہلکاروں کو ''گرائونڈ زیرو‘‘ سے ہٹا دیا گیا۔ اس کے بعد دس ممبران کی ٹیم وہاں سے دس کلومیٹر دور بنائی گئی آبزرویشن پوسٹ پر پہنچی۔
ایک بج کر تیس منٹ پر فائرنگ آلات کو ایک بار پھر چیک کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور کامیابی کی خصوصی دعائیں مانگی گئیں۔ پھر اڑھائی بجے پاکستانی فوج کے ایک ہیلی کاپٹر میں ڈاکٹر اشفاق احمد کے علاوہ لیفٹیننٹ جنرل ذوالفقار کی سربراہی میں فوج کی ایک ٹیم موقع پر پہنچ گئی۔ تین بج کر سولہ منٹ پر چیف سائنٹیفک آفیسر محمد ارشد نے نعرۂ تکبیر کی گونج میں بٹن دبا دیا اور اللہ کی رحمت سے پانچ ایٹمی دھماکوں کی گونج سے پاکستان دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بن گیا اور ساتھ ہی دشمنوں کے دلوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی ہیبت بٹھا دی۔
چند سال قبل ایک تقریب میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے ایک رہنما نے یومِ تکبیر کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میاں نواز شریف صاحب نے خود بٹن دبا کر ایٹمی دھماکے کیے اور یوں بل کلنٹن کی پانچ ارب ڈالر کی پیشکش کو ہوا میں اڑا دیا۔ اس حوالے سے پانچ ارب ڈالر کی کہانی تو پچھلے کالم میں بیان کی جا چکی ہے۔ بل کلنٹن نے پاکستان کو ایٹمی دھماکے نہ کرنے پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے آسان شرائط میں اگلے تین سال میں تین سے پانچ بلین ڈالر کا قرض دلانے میں اپنا کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی مگر ہمارے ہاں اسے ایک پرسنل آفر سمجھ لیا گیا۔ دوم، 28 مئی کو جس وقت پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے‘ اس وقت میاں نواز شریف چاغی تو دور‘ بلوچستان میں بھی نہیں تھے۔ لہٰذا بٹن دبا کر خود دھماکے کرنے کی بات افسانے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ میاں صاحب اکثر اپنی تقاریر میں پانچ دھماکوں کا ذکر کرتے ہیں حالانکہ پاکستان نے پانچ نہیں چھ دھماکے کیے تھے۔ چھٹا دھماکا کہاں ہوا‘ بہت کم لوگوں کو اس کا علم ہے۔
28 مئی کے دو دن بعد یعنی 30 مئی کو پاکستان نے چھٹا ایٹمی دھماکا کیا تھا اور یہ دھماکا کھاران میں ایک وسیع صحرائی وادی میں کیا گیا تھا‘ جو راس کوہ سے150 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس حوالے سے بہت سے مزید باتیں بھی ہیں‘ مگر شاید تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ قارئین کو پتا چل گیا ہو گا کہ پاکستان ایٹمی طاقت کب بنا تھا اور اس میں کس کا کتنا کردار تھا۔