اس خوفناک جنگ کا آغاز بنوں کے ایک سکول ٹیچر سید امیر نور شاہ اور ایک ہندو لڑکی رام کوری کی شادی سے ہوا۔ 23 برس تک جاری رہنے والی یہ جنگ 1960ء میں اس وقت ختم ہوئی جب ایک پُراسرار کردار طبعی موت کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہوا۔ یہ کردار ''فقیر آف ایپی‘‘ ہے جو شمالی وزیرستان کے ایک چھوٹے سے گائوں ''کرتا‘‘ میں پیدا ہوا۔ اس کا نام تو والدین نے مرزا علی خان رکھا تھا لیکن یہ فقیر آف ایپی کے نام سے دنیا بھر میں مشہور ہوا۔ کرتا نامی گائوں کے قرب و جوار میں کوئی سکول نہیں تھا‘ اس لیے بچے کے والد ارسلان خان نے مرزا علی خان کو اپنے گائوں سے کچھ فاصلے پر واقع ایک گائوں 'ایپی‘ بھیج دیا جہاں وہ ملا عالم خان کے پاس دینی تعلیم حاصل کرنے لگا۔ ملا عالم خان اور علاقے کے لوگ حیران تھے کہ یہ بچہ بہت ہی نڈر اور بے خوف ہونے کے علاوہ مزاجاً درویش صفت بھی تھا۔ جب مرزا علی خان بڑا ہوا تو اس میں ایک عسکری سالار کی خوبیاں ظاہر ہونے لگیں۔ جب 1919ء میں انگریز اور افغان فوج میں تیسری جنگ چھڑی تو مرزا علی خان نے اس جنگ میں انگریز کے خلاف بھرپورطریقے سے حصہ لیا۔ جس محاذ پر مرزا علی خان جنگ میں شریک تھا‘ وہی واحد محاذ تھا جہاں افغان جنرل نادر خان نے انگریز کے خلاف پیش قدمی کی تھی۔
1923ء میں جنگ کے خاتمے کے بعد مرزا علی خان پا پیادہ سفرِ حج پر روانہ ہو گیا، چند سال بعد جب وہ حج سے واپس آیا تو دیکھا کہ اس کے استاد محترم عالم خان وفات پا چکے ہیں‘ لہٰذا مرزا علی خان نے ان کے گائوں ایپی میں ان کا منصب سنبھال لیا۔ علاقے کے لوگ مرزا علی خان کو حاجی صاحب کے نام سے پکارنے لگے تھے۔ اس وقت کے قبائلی سماج میں ''حاجی صاحب‘‘ کی اصطلاح کے ساتھ بے پناہ تقدس وابستہ تھا۔ یہ صرف قبائلی علاقوں کی بات نہیں تھی‘ میرا آبائی تعلق قصور کے ایک قصبے سے ہے‘ پاکستان بننے سے قبل سے اس علاقے میں ایک ریلوے سٹیشن موجود ہے۔ پچاس‘ ساٹھ سال پہلے لوگ کراچی سے بحری جہازوں پر حج کے لیے جایا کرتے تھے اور اس کے لیے وہ ملک کے مختلف علاقوں سے ریل گاڑی کے ذریعے کراچی پہنچا کرتے تھے اور حج کی ادائیگی کے بعد دوبارہ کراچی سے وہ ریل گاڑی کے ذریعے اپنے اپنے آبائی علاقوں میں روانہ ہو جاتے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں جب ریلوے سٹیشن پر حاجیوں کی آمد ہوتی تو ان کے آنے سے کئی گھنٹے پہلے ہی دور دراز کے گائوں‘ دیہات سے مرد و عورتیں اور بچے ''حاجی صاحب‘‘ کو دیکھنے کیلئے اکٹھے ہو جایا کرتے تھے۔ لوگوں کا ماننا تھا حاجی صاحب دیارِ حبیب اور خانہ کعبہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آئے ہیں، وہ مکہ‘ مدینہ کی گلیوں میں چلتے رہے ہیں‘ اس لیے ان کے قدموں اور ہاتھوں کو چومنا بہت بڑی سعادت سمجھی جاتی تھی۔ آج سے چھ‘ سات دہائیاں اُدھر حج کا سفر جان جوکھم کا کام تھا اور کم ہی لوگ اس سعادت سے بہرہ ور ہوا کرتے تھے۔ اسی لیے پورے معاشرے میں حاجی صاحبان کو نہایت عزت و احترام سے دیکھا جاتا تھا۔
حج کے بعد مرزا علی خان نے جب ایپی میں ڈیرہ ڈال دیا تو لوگ دور دراز سے صرف انہیں دیکھنے کے لیے آنے لگے۔ وہ ان کے ہاتھوں کو اپنی آنکھوں سے لگاتے اور چومتے۔ دور‘ نزدیک ہر جگہ سے لوگ ان سے اپنے لیے دعائیں کراتے۔ رفتہ رفتہ مرزا علی خان کا نام پس منظر میں رہ گیا اور صرف ''ایپی کا فقیر‘‘ کے نام سے انہیں پکارا جانے لگا۔ چند برسوں بعد فقیر آف ایپی کی بزرگی‘ درویشی اور صاحبِ کرامت ہونے کی داستانیں وزیرستان کے ایک ایک گھر تک پھیل چکی تھیں۔ اسی دوران رام کوری نام کی ایک ہندو لڑکی بنوں کے ایک استاد سید امیر نور علی شاہ کے عشق میں مبتلا ہو کر اس کے ساتھ قبائلی علا قے میں آ گئی اور دونوں نے منداخیل وزیریوں کے ہاں پناہ لے لی۔ بعد ازاں ایک جرگے کی موجودگی میں لڑکی نے اسلام قبول کرنے کے بعد امیر نور شاہ سے شادی کر لی۔ اب اس کا نام ''اسلام بی بی‘‘ رکھا گیا۔ لڑکی کے والدین ہندو کمیونٹی کے چند بڑے بڑے لوگوں کو لے کر بنوں کے انگریز ڈپٹی کمشنر کے پاس فریادی بن کر چلے گئے۔ ڈپٹی کمشنر نے پولیٹکل ایجنٹ اور گیریژن کمانڈر کو ٹوچی قبائل کے سکائوٹس کی دو رجمنٹ کے ہمراہ لڑکی کو بازیاب کرانے کا حکم جاری کر دیا‘ جس پر انہوں نے اُس گائوں‘ جہاں یہ دونوں میاں بیوی پناہ لیے ہوئے تھے‘ کا گھیرائو کر لیا۔ ساتھ ہی رائل ایئر فورس کے طیارے بھی اس علاقے کی فضا میں منڈلانے لگے۔ اس پر دوبارہ جرگہ بیٹھا اور اس وعدے کے ساتھ ان دونوں کو سرکار کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا کہ ڈی سی بنوں ایک مشترکہ جرگہ بلائیں گے جہاں سب کی موجودگی میں لڑکی سے پوچھا جائے کہ وہ اپنی مرضی سے‘ کسی دبائو کے بغیر مسلمان ہوئی ہے‘ اور اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے‘ اگر اس نے سب کے سامنے اقرار کر لیا تو پھر ان دونوں کو اپنی مرضی کی زندگی بسر کرنے کی اجا زت ہو گی‘ وگرنہ لڑکی اپنے والدین کے ہمراہ چلی جائے گی۔ ڈپٹی کمشنر نے ہامی بھر لی لیکن ہوا یہ کہ جرگے سے کیے گئے عہد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لڑکی کو اس کے والدین کے سپرد کر کے پنجاب بھجوا دیا اور امیر نور شاہ کو لڑکی بھگانے کے جرم میں ڈھائی برس قید کی سزا سنا دی۔ ڈپٹی کمشنر کی اس عہد شکنی پر بنوں میں تو کوئی خاص ردعمل نہ ہوا لیکن وزیری قبائل نے اسے اپنی توہین سمجھتے ہوئے انگریز کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔ جس روز فقیر آف ایپی نے اپنے درویشانہ حجرے سے باہر نکل کر بندوق لہرا کر اعلانِ جہاد کیا‘ اس دن یہ نعرہ وزیرستان کے ہر گھر کی آواز بن گیا۔
فقیر آف ایپی نے اسلحے کی مد میں اپنی کم مائیگی کو سامنے رکھتے ہوئے گوریلا جنگ کا طریقہ اپنایا اور کچھ ہی عرصے میں انگریز فوج کی 200 بڑی فوجی گاڑیوں اور 6 آر مڈ کاروں کو تباہ کر دیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ قلیل سے آبادی والے قبائلی علاقوں سے دس ہزار سے زائد کا لشکر اس کے ساتھ شامل ہو گیا جس نے آگے بڑھ کر انگریز فوج کے میرام شاہ اور میر علی کے قَلعوں کا گھیرائو کر لیا۔ اس پر انگریز سرکار نے رائل ایئر فورس کے دو سکواڈرن فضائی حملوں کیلئے روانہ کیے جنہوں پورے علاقے پر اندھا دھند بمباری شروع کر دی۔ اس حملے سے ایپی لشکر کو فوری طور پر پسپا ہونا پڑ گیا لیکن یہ ایک عارضی اقدام تھا۔ انگریز سرکار کی وحشیانہ بمباری نے زیادہ تر بچوں اور عورتوں کو نشانہ بنایا تھا جس پر یہ بغاوت پورے صوبہ سرحد کے اندر پھیلنا شروع ہو گئی۔ اب دوسرے علاقوں سے بھی پختون فقیر آف ایپی کی اپیل پر وزیرستان پہنچنا شروع ہو گئے جس پر انگریز سرکار نے کراچی سے رائل انڈین ایئر فورس کا اکلوتا سکواڈرن بھی اس جنگ میں جھونک دیا۔
یہ خوفناک جنگ 23 برس تک جاری رہی‘ انگریز کی ایئر فورس نے ہر اس گھر اور جگہ کو نشانہ بنایا جس پر فقیر آف ایپی سے وابستگی کا ذرا سا بھی شائبہ تھا۔ انگریز شاید بھول گیا تھا کہ پشتون روایت میں جسے اپنا مہمان اور دوست کہہ دیتے ہیں‘ اس کیلئے جان تو بہت ہی چھوٹی سی چیز ہے‘ اپنی نسلوں تک کو قربان کر نے سے دریغ نہیں کیا جاتا۔ 23 برس تک گولیوں اور بمباری کے طوفان میں بھی زندہ رہنے والا انگریز کا سب سے بڑا باغی فقیر آف ایپی 1960ء میں جب اپنے بستر پر طبعی موت مرا تو اس کا جنازہ ایک بے کنار سمندر کی طرح تھا جس کا آخری سرا کہیں دکھائی نہیں دیتا تھا۔ فقیر آف ایپی کی یہ جنگ وزیرستان کے سنگلاخ پہاڑوں پر آباد ان سرکشوں کی داستان ہے جن کیلئے سماجی و قبائلی رسم و رواج مال و دولت اور آرام ہی نہیں‘ زندگی سے بھی زیادہ اہم تھے۔ وہ لوگ جنہیں تاریخ سے کوئی غرض تھی نہ جغرافیے سے کوئی دلچسپی‘ ان کیلئے اپنے پاس پناہ لینے والی ایک ہندو لڑکی کی حفاظت سب سے زیادہ اہم تھی اور اس کی خاطر انہوں نے دو عشروں تک ہزاروں بچے‘ جوان اور بوڑھے قتل کرا دیے ۔
اسلام آباد میں سرینگر ہائی وے کو راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر واقع آئی جے پی روڈ سے ملانے والی رابطہ سڑک کے آغاز پر ''فقیر ایپی روڈ‘‘ کا بورڈ نصب ہے۔ ہزاروں لوگ ہر روز اس سڑک سے گزرتے ہیں مگر شاید ہی کسی کو علم ہو کہ فقیر آف ایپی کون تھا۔