"MABC" (space) message & send to 7575

1977ء کی ریہرسل؟

پنجاب اور کے پی میں عدالتی حکم کے باوجودانتخابات سے گریز اور پھر کراچی‘ حیدر آباد اور اس کے بعد آزاد کشمیر کے ضلع باغ میں جس قسم کے الیکشن ہوئے ہیں‘اس پر پی ٹی آئی کاکمزور سا احتجاج تو اپنی جگہ لیکن جس نے سب کو اپنی جانب متوجہ کیا وہ حکمران جماعت‘ مسلم لیگ نواز کے لیڈران کے بیانات ہیں۔ باغ کی اس نشست سے نواز لیگ کے امیدوار مشتاق منہاس نے آزاد کشمیر میں اپنی جماعت کے ایک ہنگامی اجلاس میں الیکشن رزلٹ آنے کے بعد جو باتیں کی ہیں‘ وہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں۔ ایک جانب مسلم لیگ نواز اس شکست کو دھاندلی کا شاخسانہ قرار دے کر کہیں دبے دبے لفظوں میں تو کہیں پُر زور احتجاج کرتی دکھائی دے رہی ہے تو وہیں ایک اور وڈیو بھی اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں باغ سے پی پی پی کے کامیاب قرار دیے گئے امیدوار ضیا القمر اور ان کے والد مبارکباد دینے کے لیے آنے والے اپنے حامیوں کے نعروں کا جواب دیتے ہوئے ان سے ''وکٹری خطاب‘‘ کر رہے ہیں۔ اس وڈیو میں پی پی پی کے امیدوار کے والد نے اپنی کامیابی کا نسخہ کھلے عام سب کو بتایا۔ یہ دونوں وڈیوز اس وقت سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہیں اور صارفین ان کو دیکھ کر سوالات اٹھا رہے ہیں کہ کیا کراچی‘ حیدرآباد کے بلدیاتی انتخابات اور باغ کا ضمنی الیکشن آئندہ عام انتخابات کا ایک ٹریلر ہیں؟
کراچی کے بلدیاتی انتخابات کو ڈیڑھ ماہ ہونے والے ہیں مگر تاحال میئر کا انتخاب نہیں ہو سکا۔ اس حوالے سے صوبائی حکومت ''کھیڈاں گے، نہ کھیڈن دیاں گے‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا نظر آ رہی ہے۔کراچی سے تعلق رکھنے والے بعض لوگوں نے تو اب کھلے الفاظ میں کہنا شروع کر دیا ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی 1977ء کی الیکشن پالیسی پر گامزن نظر آتی ہے جب عام انتخابات میں بلامقابلہ جیتنے کے لیے لاڑکانہ سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے مدمقابل امیدوار‘ جماعت اسلامی کے نائب امیر جان محمد عباسی کو ہی اغوا کر لیا گیا تھا۔اب میئر کے انتخاب میں حافظ نعیم الرحمن کی کامیابی کو روکنے کے لیے طرح طرح کی سازشیں کی جار ہی ہیں۔
1977ء کے انتخابات کے حوالے سے راقم ذاتی طور پر کئی واقعات کا گواہ ہے۔ ا س وقت میرا ووٹ ضلع قصور کے ایک بڑے قصبے میں درج تھا اور میں قومی اتحاد کے سرگرم طالب علم لیڈروں میں شمار کیا جاتا تھا۔ انتخابات میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے لاہور سے دو دروز قبل اپنے گھر پہنچا اور پولنگ ڈے پر جب پولنگ سٹیشن گیا تو ایک پولنگ بوتھ پر ایک پولنگ ایجنٹ نے مجھے علیحدہ لے جا کر بیلٹ پیپرز کی ایک کاپی دکھائی جس میں ہر ووٹ پہ تلوار کے نشان پر مہریں لگی ہوئی تھیں۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس طرح کی کاپیاں قومی اسمبلی کے حلقوں میں بنائے گئے تمام پولنگ بوتھس پر تعینات پولنگ ایجنٹس کو دی گئی ہیں اور پولیس اور انتظامیہ کو کہہ دیا گیا ہے کہ ان ایجنٹس کی ہر طرح سے حفاظت اور مدد کرنی ہے۔اس پولنگ ایجنٹ نے کہا کہ بھلے وہ پیپلز پارٹی کا نمائندہ بن کر اس پولنگ بوتھ پر تعینات ہے‘ مگر وہ نظام مصطفی سے غداری نہیں کر سکتا ( نظام مصطفی کا نفاذ اس وقت پاکستان قومی اتحاد کا انتخابی نعرہ تھا‘ جس نے چھوٹے سے چھوٹے گائوں کی آبادیوںتک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا)۔
اس وقت کے اخبارات کا ریکارڈ گواہ ہے کہ قومی اسمبلی کی نشستوں پر پیپلز پارٹی کے امیدواران کی جانب سے بیلٹ پیپرز کی ایک ایک کاپی ہر پولنگ ایجنٹ کو ایک رات پہلے ہی سے دے دی گئی تھی۔ بی بی سی سمیت غیر ملکی میڈیا نے بھی اس حوالے سے رپورٹنگ کی۔ اس دھاندلی سے بھٹو صاحب کی پارٹی نے واضح اکثریت حاصل کر لی تھی۔ قصور کے میرے آبائی حلقے سے سردار احمد علی‘ جو سردار آصف احمد علی کے والد تھے‘ پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے۔ وہ بھی الیکشن جیت کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے تھے لیکن جیسے ہی قومی اتحاد کی دھاندلی کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا تو سردار احمد علی نے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دیتے ہوئے برملا دھاندلی کا اقرار کیا اور کہا کہ وہ اس طرح کی جیت کو اپنے گلے میں لٹکاکر حکومتی اقتدار کا حصہ بننے کے بجائے گھر بیٹھنا پسند کریں گے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ پارٹی کی جانب سے بیلٹ پیپرز کی بکس ملک بھر میں ہر پولنگ ایجنٹ کو مہیا کی گئی تھیں۔
آزاد کشمیر میں باغ کا الیکشن ہو اور کراچی میں میئر کے الیکشن سے قبل ہی تحریک انصاف کے منتخب کونسلرز اور چیئرمینوں کا مبینہ اغوا‘ یہ سب کچھ 1977ء کے الیکشن کی ریہرسل کے خدشات کو تقویت دے رہا ہے۔ کراچی میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے چیئرمینوں کو جس طرح مختلف مقدمات میں گرفتار کرنے کے بعد وفاداری بدلنے پر مجبور کیا جا رہا ہے‘ جس طرح ان پر تھرڈ ڈگری ٹارچر کیا جا رہا ہے‘ اس کا پورا شہر گواہ ہے۔ اب تو کراچی سے جماعت اسلامی کے میئر کے امیدوار حافظ نعیم بھی کھل کر کہہ رہے ہیں کہ دبئی میں خرید و فروخت کی منڈی لگی ہوئی ہے۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے بھی کچھ ایسا ہی بیان دیا ہے۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کراچی کے میئر کے الیکشن میں دھونس، دھاندلی اور خریدو فروخت سمیت مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالنے کو ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے سینیٹ میں اس کے خلاف آواز اٹھائی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان سے سوال کیا کہ وہ اس کا کوئی نوٹس کیوں نہیں لے رہا؟ادھر پیپلز پارٹی کے لیڈران اب قومی میڈیا کے سامنے اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ تحریک انصاف کے اراکین کا ایک فارورڈ بلاک بنانے جا رہے ہیں جو جلد ایک اجلاس میں بلاول بھٹو اور زرداری کی قیا دت پر بھر پور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے کا اعلان کرے گا۔
پیپلز پارٹی کی قیادت نے باغ میں پی پی پی کی ' کامیابی‘ پر جس طرح فخریہ انداز میں اپنی مقبولیت کا اظہار کیا ہے‘ اس پر سوائے ہنسنے کے اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کا مقابلہ تو مسلم لیگ نواز کے ساتھ تھا مگر طنز کا نشانہ پی ٹی آئی کو بنایا جا رہا ہے۔ ادھر مسلم لیگ نواز کے امیدور وفاقی وزیر داخلہ کو اس صورتحال پر موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف کی سوشل میڈیا پر کی جانے والی ایک تقریرکے جواب میں گزشتہ دنوں بلاول بھٹو زرداری نے ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ خان صاحب مقتدرہ کی مدد کھو دینے پر پریشانی اور مایوسی کا شکار ہیں، جس پر کئی ناقدین کی طرف سے جواب میں کہا گیا کہ اب پیپلز پارٹی خود اس مدد کے ملنے پر ہر جگہ خوشیاں منا رہی ہے۔ اگر ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے دیکھا جائے‘ اگر جمہوریت کے تناظر میں دیکھا جائے‘ اگر عوام کی رائے کا احترام دیکھا جائے تو پھر کسی کو بھی کسی غیر جمہوری طاقت کی مدد کے لیے در بد رپھرنے سے توبہ کر لینی چاہئے۔خدا کرے کہ ہمارے ملک کے تمام سیاست دان اپنی سیاست میں کسی غیر جمہوری اور غیر ملکی طاقتوں کی مدد لینے سے انکار کردیں۔ یہ اس ملک اور قوم پر ایک احسانِ عظیم ہو گا اگر سیاستدان اپنے گھنائونے عزائم اور خاندانی بادشاہتوں کے قیام کے لیے غیر جمہوری قوتوں کو آواز دینا تو دور کی بات‘ اپنی مدد کے لیے بلانے کے لیے ہلکا سا اشارہ بھی نہ کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں