جس طرح وطن عزیز میں تھوک کے حساب سے ضمیروں نے بیدار ہونا شروع کر دیا ہے‘ اس سے امید ہو چلی ہے کہ بہت جلد یہاں سے تمام برائیاں‘ جنہوں نے معاشرت سمیت ہماری سیاست کو پراگندہ کر رکھا ہے‘ دور ہو جائیں گی اور ماحول بارش کے بعد کے آسمان کی طرح صاف اور شفاف ہو جائے گا۔ ضمیر کے حوالے سے کہا جاتا تھا کہ یہ کم کم ہی جاگتا ہے بلکہ دیکھا تو یہی گیا ہے کہ اسے لاکھ جگانے کی کوشش کی جائے‘ پھر بھی یہ جاگنا تو دور کی بات‘ ہلکی سی کروٹ لینے پر بھی آمادہ نہیں ہو پاتا۔ مگر وہ جو کہتے ہیں نا! معاملات سدھرنے کا جب وقت آتا ہے تو پھر ہر چیز ممکن ہونے لگتی ہے اور استحکامِ پاکستان کی خاطر ہی سہی‘ ملک کی بہتری کی سوچ کے ساتھ ہی سہی‘ ایسے ضمیر بھی اب جاگنا شروع ہو گئے ہیں جو پہلے ہی سے جاگے ہوئے تھے اور ایسے ضمیروں کا پھر سے جاگنے کا اعلان کر دینا یقینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
ضمیر کے جاگنے کے تناظر میں پہلے کہا جاتا تھا کہ سوئے ہوئے کو جگایا جا سکتا ہے لیکن جو جاگ رہا ہو اسے جگانا مشکل ہوتا ہے لیکن کرنی خدا کی دیکھئے کہ جن کا ضمیر شاید تھا ہی نہیں‘ وہ بھی اب جھاڑو لیے ضمیر کی صفائی کا اعلان بڑے فخر سے کر رہے ہیں اور یہ ضمیر کا جھاڑو ہی تو ہے جب پھرنے پر آ جائے تو راستے میں آنے والی بڑی بڑی رکاوٹیں بھی تنکوں کی طرح اڑنے لگتی ہیں۔ ضمیر کے جھاڑو سے ہمارے ملک کی جس قدر صفائی ہو رہی ہے یہ ایک نعمت نہیں تو اور کیا ہے کہ معاشرے اور سماج کے لیے پریشانی اور تباہی کا سبب بننے والے اور اس طرح کے ہر قسم کے کچرے اور گند کو اکٹھا کر کے ایسی جگہ پھینک دیا گیا ہے جہاں اس کی اصل جگہ بنتی تھی۔ شکر ہے کہ جتنے بھی مردہ ضمیر لوگ تھے‘ اب ایک ایک کر کے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ کیا کم کرشمہ ہے کہ سوئے ہوئے ضمیر تو جاگ رہے ہیں‘ ساتھ ہی ساتھ مردہ ضمیر بھی زندہ ہو رہے ہیں۔ البتہ یہ گتھی ابھی سلجھنا باقی ہے کہ وہ کون سا سرد خانہ تھا جہاں پر اتنا عرصہ تک یہ مردہ ضمیر رکھے گئے۔
اردو لغت میں ضمیر کو اسم کی ایک قسم سمجھا جاتا ہے۔ کسی کا نام بار بار دہرانے کے بجائے جو صیغہ استعمال کیا جاتا ہے‘ اسے اسم ضمیر کہا جاتا ہے۔ ضمیر کے ایسے کئی صیغے ہماری سیاست میں بھی رائج ہیں اور کئی دہائیوں سے رائج ہیں۔ لغت کے معنوں میں اسم ضمیر کی درج ذیل اقسام ہیں؛ ضمیر شخصی، ضمیر موصولہ، ضمیر صفتی، ضمیر تنکیری وغیرہ۔ اگر ضمیر شخصی کی بات کریں تو اس کی آگے مزید تین اقسام ہیں؛ ضمیر حاضر، ضمیر غائب اور ضمیر متکلم۔ ہمارے ہاں شخصی ضمیر کی سبھی اقسام کثرت سے مستعمل رہتی ہیں بلکہ ضمیر حاضر یا ضمیر متکلم کے بجائے ضمیر غائب پر زیادہ زور رہتا ہے۔ اسی طرح ضمیر کا لفظ نفسیات کے مضمون میں بھی کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ ضمیر کی تعریف انسانی نفسیات میں اُس احساس کے طور پر کی جاتی ہے جو اصولوں اور اقدار کی خلاف ورزی کی صورت میں ذہنی اذیت اور احساسِ جرم کو جنم دیتا ہے۔ علمِ نفسیات کی رو سے دیکھا جائے تو ضمیر کا جاگنا اور اس بڑی تعداد میں جاگنا یہ غمازی کرتا ہے کہ ابھی معاشرے میں اچھائی کا عنصر غالب ہے اور لوگ احساسِ جرم سے تنگ آ کر‘ ضمیر کی پکار پر نہ صرف لبیک کہہ رہے ہیں بلکہ پریس کانفرنسز میں اس کا اعلانیہ اظہار بھی کر رہے ہیں۔ جس طرح ہر گھر‘ ہر شہر اور ہر گلی سے ضمیر کے جاگنے کی آوازیں ابھرنا شروع ہوئی ہیں‘ دعا کیجئے کہ یہ سلسلہ اس قدر دراز ہو جائے کہ معاشرہ امن کا ایسا گہوارا بن جائے کہ قانون کے نفاذ کے لیے پولیس جیسے اداروں کے ضرورت ہی باقی نہ رہے۔
دعا یہ بھی ہے کہ ضمیرکا یہ جھاڑو ملک کے دیگر شعبوں اور اداروں میں بھی پھرنا شروع ہو جائے اور تمام خامیوں اور برائیوں کے ایک ایک تنکے کا اس طرح خاتمہ کر دے کہ دوبارہ مردہ ضمیروں کے لیے وہاں کوئی جگہ ہی نہیں رہے اور یہ دیکھے بغیر کہ سامنے والا کتنا بڑا‘ کتنا مالدار اور کتنا طاقتور ہے‘ ضمیر کے جھاڑو سے اس طرح صفائی شروع کر دے کہ گندگی اور کچرے کا وجود ہی باقی نہ رہے۔ جس دن ضمیر کا یہ جھاڑو اس ملک کے نظامِ عدل اور پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے اس ملک کے تمام اداروں کے تہہ خانوں سے لے کر ان کی چھتوں تک صفائیاں کرنا شروع ہو گیا اور اس ملک کے ایک ایک پیسے کی حفاطت کرنے کے لیے میدان میں اتر آیا تو لگے گا کہ ہم سب کا وجود بہت ہلکا ہو گیا ہے اور ناتواں جسموں پر کئی دہائیوں سے لادا ہوا بھاری بوجھ کسی نادیدہ طاقت نے اٹھا کر کہیں پرے پھینک دیا ہے۔ ضمیر کے لگائے گئے اس جھاڑو سے ہر کوئی سکھ کا سانس لینا شروع ہو جائے گا۔ ضمیر کا یہ جھاڑو ہمارے معاشرے کے اند ر اس طرح پھرے گا کہ انصاف اور قانون کا بول بالا ہو جائے گا۔ پھر یہ تو ہو نہیں سکتا کہ پولیس اور نظام عدل کا جاگا ہوا ضمیر دیکھنے کے بعد ہماری ہوائی کمپنی یا ریلویز سمیت سٹیل مل اور دیگر بڑے بڑے اداروں کے اندر بیٹھے ہوئے مضبوط کردار کے لوگوں کا ضمیر زبردست انگڑائی لے کر ایک جھٹکے سے بیدار نہ ہو جائے اور خفیہ خانوں میں دفن کی گئی فائلیں باہر آ کر ہر قسم کے کچرے کی صفائیاں کرنا نہ شروع کر دیں۔
ضمیر کا یہ جھاڑو اگر صحیح معنوں میں پھرنا شروع ہو گیا تو ا س ملک کے اربوں نہیں بلکہ کھربوں روپے کی بر آمدگی کرا دے گا، پھر نہ تو ایک ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف کی سبھی جائز و ناجائز شرائط ماننا پڑیں گی اور نہ ہی مقہور اور مجبور عوام پر مزید بوجھ لادنا پڑے گا۔ پھر چہار اطراف سے ہن برسنے لگے گا اور ملکِ عزیز میں کوئی بھی شخص بھوکا نہیں سوئے گا۔ کسی کو بھی اپنے مادرِ وطن کو چھوڑ کر دور دراز سمندوں میں موت کا سفر نہیں کرنا پڑے گا۔ کسی کو بھی علم و ہنر کے باوصف بیروزگاری کا عذاب نہیں جھیلنا پڑے گا۔ ملکی اداروں میں سوئے ہوئے یا بندھے ہوئے ضمیروں کے بیدار ہونے کی جیسے ہی اطلاع آئے گی‘ یقین کیجئے کہ وطن کا یہ نڈھال جسم پھر سے توانائی پکڑنا شروع ہو جائے گا۔ شرط صرف ایک ہی ہے کہ ایک دفعہ جاگنے کے بعد یہ ضمیر کہیں پھر سے سو نہ جائیں۔
ضمیر کا استحکام کوئی عام بات نہیں ہے بلکہ ضمیر تو اپنے جسم کی طاقت ہوتا ہے‘ کیونکہ جس کا ضمیر مر جائے یا نیم مردہ ہو جائے‘ اسے لوگ اچھی نظروں سے کہاں دیکھتے ہیں۔ ضمیر کو جگائے رکھنا ہی اصل مسئلہ ہوتا ہے۔ کبھی کسی کی طاقت سے مرعوب ہو کر یہ اونگھنے لگتا ہے، کبھی سکوں کی چمک دمک اس کی آنکھیں چندھیا دیتی ہے۔ کبھی کوئی خوف اسے گہری نیند سلا دیتا ہے تو کبھی کوئی ترغیب اسے نیند کی وادیوں میں اتار دیتی ہے۔ اس کے دوبارہ سو جانے کے تو بے شمار اسباب ہیں مگر اصل کام اسے جگانا اور پھر جگائے رکھنا ہی ہے۔
ہمارے لیڈران‘ بہت سے دانشور اور کچھ واعظ مسلسل یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ اپنے ضمیر کو جھنجھوڑ کر دیکھو کہ جو کچھ کہہ رہے ہو یا جو کچھ کر رہے ہو یا کرنے جا رہے ہو‘ کیا یہ صحیح ہے؟ اب ان لیڈران اور واعظ حضرات کو کس طرح بتایا جائے کہ یہ ضمیر جو اب درجنوں کی تعداد میں روزانہ جاگنا شروع ہوئے ہیں‘ یہ آپ کی پُراثر باتوں کے سبب ممکن نہیں ہوا بلکہ یہ صدیوں کی کسی گھڑی‘ پل میں ہونے والی ایسی انہونی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے جو اس ملک کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ اگرچہ انتخابات سے قبل ضمیروں کے اجتماعی طور پر جاگنے کو ہمارے ہاں ایک سیاسی روایت کا درجہ حاصل رہا ہے مگر اُس طرح ضمیر کے جاگنے اور اس حالیہ جاگنے والی مثالوں میں فرق ہے۔ اگرچہ یہ فرق ایسا باریک و مہین ہے کہ اہلِ نظر بھی اس کی تفہیم و تشریح سے قاصر ہیں؛ البتہ اس کے احساس سے سبھی سرشار ہیں اور اسی لیے ضمیروں کے جاگنے کے اس دور کے مزید طول پکڑنے کے لیے دعاگو ہیں۔ دعا ہے کہ اب یہ ضمیر کا جھاڑو چلا ہی ہے تو ملک و قوم میں کسی گندگی کو باقی نہ رہنے دے۔