12مئی 2023ء کو بجلی سپلائی کرنے والی ایک کمپنی نے اپنے ایک صارف کو ماہِ اپریل کے گھریلو کنکشن کا بل 8070روپے بھیجا۔ ویسے تو اس بل میں ایسی کوئی خاص بات نہیں کہ اس کا ذکر کیا جائے‘ سوائے ا س کے کہ اپریل 2022ء میں اس صارف کو 280یونٹ استعمال کرنے پر 2932بل آیا تھا لیکن حکومت بدلنے سے اسی صارف کو 247یونٹ بجلی استعمال کرنے پر بجلی کا بل 8070روپے بھیج دیا گیا ''کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟‘‘۔ اگر یہ کھلا تضاد نہیں ہے تو پھر اسے کیا نام دیا جائے؟ مارچ 2021ء میں پورے ملک میں یک دم شور مچ اٹھا کہ بجلی مہنگی کرنے کے لیے حکومت کسی نئے آرڈیننس کا نفاذ کرنے جا رہی ہے‘ جس سے عوام تو سہمے ہی تھے‘ نواز لیگ اور پی پی پی نے بھی وہ شور مچایا کہ لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی پہاڑ گرنے والا ہے۔ جب اس وقت کی حکومت سے میڈیا نے پوچھنا شروع کیا کہ غریب عوام پر یہ کیا قیامت ڈھانے جا رہے ہیں تو حکومت کے فوکل پرسنز نے کہا کہ بات صرف اتنی سی ہے کہ حکومت 2021ء سے2024ء تک کے تین برسوں کے دوران یک دم نہیں بلکہ وقفے وقفے سے صرف ساڑھے چار روپے فی یونٹ بجلی مہنگی کرنے کا پروگرام بنا رہی ہے یعنی ایک سال میں ڈیڑھ روپیہ۔ اب دیکھئے کہ کہاں تین برسوں میں ساڑھے چار روپے فی یونٹ اور کہاں آج ایک برس میں رجیم چینج کی مہربانی سے 12روپے سے 36روپے فی یونٹ تک بجلی کے نرخ بڑھا دیے گئے ہیں۔
کم عقلی دیکھئے کہ یہ قوم ابھی تک سمجھتی ہے کہ ہم پر برس ہا برس سے حکومتیں کرنے والی سیاسی جماعتیں اور شخصیات سستی بجلی فراہم کرنا تو چاہتی ہیں‘ یہ پانی سے بجلی پیدا کرنے والے سستے ڈیم بھی بنانا چاہتی ہیں لیکن یہ ان منصوبوں پر اربوں ڈالرز کی لاگت اور پانچ چھ سال کی مدتِ تکمیل کی وجہ سے مجبور ہیں کیونکہ اول تو اتنے ڈالر دستیاب نہیں ہیں اور دوسرا لوڈشیڈنگ کا مسئلہ کم مدت میں حل ہونے کا متقاضی ہے۔ اسی لیے قوم کا درد رکھنے والے حکمرانوں نے ہمیں لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے بچانے کیلئے فرنس آئل اور گیس سے چلنے والے مہنگے پاور ہائوسز لگائے تاکہ اپنے عوام کو روزانہ دس سے بارہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ سے محفوظ رکھ سکیں۔ کیا ملک کے ساتھ اس قسم کا سلوک کھلا تضاد نہیں کہ اپنی سیاست‘ اقتدار اور مقبولیت کیلئے اورنج ٹرین جیسے منصوبے پر اربوں روپے لٹا دیے جائیں لیکن عوام کو سستی بجلی اور لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے بچانے کیلئے بڑے بڑے ہائیڈل پاور سٹیشن اور ڈیم بنانے کا سوچا ہی نہ جائے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ماضی کے حکمرانوں کے پاس سستی بجلی پیدا کرنے کے مواقع نہیں تھے تو یہ سفید جھوٹ اور قوم سے دھوکہ ہے‘ یہ سب بہانے ہیں‘ اگر وہ چاہتے تو چھ ماہ میں سستی بجلی پیدا کرنے کیلئے ہر تحصیل میں پانی سے چلنے والے سستے ترین پاور ہائوس مکمل کر سکتے تھے۔ ہمارے ملک کا حکمران طبقہ‘ ان کی مددگار بیوروکریسی‘ سرمایہ دار اور استعماری طاقتیں نہیں چاہتیں کہ ملک میں سستی بجلی پیدا کرنے کے منصوبے لگائے جائیں‘ اگر وہ ایسا کر دیتے تو ملکی خزانے کو آئی پی پیز کی آڑ میں اربوں ڈالر کا چونا کیسے لگایا جاتا۔ ایوب خان کے بعد کسی حکمران نے بھی ہائیڈل پاور سٹیشن بنانے کا نہیں سوچا کیونکہ پھر دنیا بھر میں محلات کیسے خریدے جاتے۔ ایک سابق چیف جسٹس اور سابق وزیراعظم کی دلچسپی کی بدولت بھاشا اور مہمند ڈیم پر کام شروع کیا گیا۔ اگر ملک میں بجلی وافر اور سستی کر دی جائے تو پھر عالمی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک سمیت دنیا کے دوسرے مالیاتی اداروں سے بڑے بڑے قرض کیسے لیے جائیں گے؟ اگر قرض نہیں لیں گے تو یہ مالیاتی ادارے کہاں جائیں گے۔ قرضوں کیلئے امریکہ‘ برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک کی منتیں کون کرے گا۔ ان کی چودہراہٹ کیسے قائم ہو گی۔ ملک میں بجلی کے سستے منصوبے لگانے کی صورت میں مالیاتی اداروں اور مغربی ممالک سے لیا قرض انہی ممالک میں کک بیکس کی صورت میں کیسے منتقل ہو گا۔ مالیاتی ادارے اور ان کے کرتا دھرتا ہم سے یہ شرطیں منواتے ہیں کہ صرف تیل سے ہی بجلی پیدا کریں گے جبکہ اگر ہمت اور نیت کریں تو چھ ماہ میں سستی ترین بجلی کی ملک میں ریل پیل ہو سکتی ہے‘ اگر کسی کو شک ہے تو اس کیلئے درگئی‘ جبن‘ چیچو کی ملیاں اور نندی پور کے پاور ہائوسز دیکھ لے‘ ہمیں بس ان جیسے درجنوں نئے پاور ہائوس تعمیر کرنا ہوں گے۔
کیا ہم اتنے ہی عقل سے پیدل ہیں کہ ہمیں پتہ ہی نہیں کہ ملک میں ہزاروں کلو میٹر طویل نہروں سے سستی ترین بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ ملک میں سارا سال بہنے والی نہروں پر پاور ہائوس لگانے کیلئے نہ تو کسی نئی اور پیچیدہ ٹیکنالوجی کی محتاجی ہے اور نہ ہی اس کیلئے کسی ترقی یافتہ ملک کا محتاج ہونے کی ضرورت ہے اور نہ ہی بیرونی ملکوں میں کروڑوں روپے تنخواہیں اور مراعات لینے والے انجینئرز کی۔ملک میں نہروں پر ہر دس پندرہ کلو میٹر کے فاصلے پر دس سے بارہ فٹ کی ڈائون فالز ہیں جن سے آبشار کی صورت میں ہزاورں کیوسک پانی گرتا رہتاہے۔ ان نہروں کے علاوہ بیراجوں اور ڈیموں کے سپل ویز ہیں‘ وہاں سے بھی ہزاورں کیوسک پانی نہایت تیز رفتاری سے نیچے گرتا ہے۔ یہ ایسی زبردست قوت ہوتی ہے جسے اگر استعمال میں لایا جائے تو اس سے ہزاروں میگا واٹ بجلی حاصل کی جا سکتی ہے اور وہ بھی انتہائی سستی۔ فرض کیجئے کہ ایک نہر کے ہیڈ یا بیراج کے کئی دروازے ہیں اور ہر دروازہ پچاس فٹ چوڑا ہے اور اس سے2/3 فٹ موٹی پانی کی تیز لہر ڈائون سٹریم کی طرف گر رہی ہے جس کی ولاسٹی 100کیوسک فی سیکنڈ ہے‘ اس بہائو کے آگے اگر ڈیڑھ یا دو فٹ پر محیط Wing Wheelکسی شافٹ کے ذریعے فکس کر دیا جائے تو اس Wheelکو نیچے گرنے والا پانی گھماتا رہے گا اور اس سے بجلی پیدا ہوتی رہے گی۔ دیکھا جائے تو ہماری نہروں کے ہیڈ بیراج اور ڈیموں کے سپل ویز سے روزانہ لاکھوں کیوسک پانی نیچے گرتا ہے‘ اگر اسے استعمال میں لایا جائے تو اس طرح ہزاروں میگا واٹ بجلی حاصل کی جا سکتی ہے۔
گزشتہ حکومت کی طرف سے2021-24ء تک ساڑھے چار روپے فی یونٹ بجلی کے نرخ بڑھانے کی خبریں چلیں تو اپوزیشن نے مذمتی بیانات کے ڈھیر لگا دیے جبکہ اب نواز لیگ کے ایک وزیر بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ پر میڈیا کے سوالات پر یک دم غصے میں آتے ہوئے یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ جو بجلی بجلی کا شور مچا رہے ہیں‘ اگر انہیں بجلی چاہیے تو پھر بجلی کے بل دوگنا ادا کرنا شروع کر دیں‘ ہم انہیں بلا تعطل اور وافر بجلی مہیا کر دیں گے!!