نریندر مودی کے حالیہ دورۂ امریکہ کے دوران مودی‘ بائیڈن ملاقات کے مشترکہ اعلامیہ میں جس طرح پاکستان کو نشانے پر رکھا گیا ہے‘ اسے جرمِ ضعیفی کے سبب لگنے والا وہ زخم سمجھ لیں جو ہمیشہ سے معاشی طور پر دست نگر قوموں اور ملکوں کا مقدر چلا آ رہا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کو مودی سرکار کی دہشت گردی اس حقیقت کے با وجود دکھائی نہیں دی کہ اس کے اپنے صحافیوں‘ امریکی ہیومن رائٹس تنظیموں اور ارکانِ کانگریس کے علاوہ یورپی یونین کی جاری کردہ رپورٹس میں بھارتی فوج اور پولیس کی دہشت گردی کو عیاں کر کے رکھا جا چکا ہے۔ دوسروں کی کیا بات کرنی‘ خود بھارت کے کئی صحافی مودی کی خون آشام سیاست کو پوری طرح واضح کر چکے ہیں۔
اجے شکلا بھارت کے ایک معروف صحافی ہیں جو بھارتی فوج میں بھی گہرا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ اپنے ایک مضمون بعنوان: As Modi plays politics with Indian army, soldiers pay with their lives میں مختلف مواقع پر بھارتی فوج کے افسران سے ہونے والی اپنی گفتگو کے حوالے سے چونکا دینے والے انکشافات کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ بھارتی آرمی بھی اب سمجھ چکی ہے کہ مودی سرکار اور بی جے پی اپنی کامیابی کیلئے کبھی پاکستان تو کبھی چین کے ساتھ سرحدی جھڑپوں تو کبھی سرجیکل سٹرائیک کے ڈراموں سے اپنی ہی آرمی کے افسروں اور جوانوں کی بَلی دے کر بھارتی عوام کی ہمدردی سمیٹنے کیلئے چین اور پاکستان دشمنی کا تاثر ابھار کر انتقامی اور جذباتی نعروں سے ووٹ اکٹھے کرنے کو اپنا دھرم بنا چکی ہے۔ جیسے ہی مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے ان کی مقبولیت کم ہونے لگتی ہے‘ وہ پاکستان اور چین کی سرحدوں پر چھیڑ خانیاں شروع کرا دیتے ہیں جس سے بھارتی فوج کے تابوتوں کی لمبی قطاروں کو میڈیا پر دکھاتے ہوئے پاکستان کے خلاف نفرت انگیز تقریروں کے ذریعے عام ووٹروں کو بدلے کی آگ میں جھونکتے ہوئے پھر سے اپنے گرد جمع کر لیا جاتا ہے۔ اگر مرکزی سطح پر نو سالہ مودی حکومت کا عمیق جائزہ لیا جائے تو عجب اتفاق نظر آتا ہے کہ جب بھی مودی سرکار مشکل میں پڑی‘ بھارتی سرحدوں پر کشیدگی شروع ہو گئی۔ 2019ء کے الیکشن سے قبل پلوامہ کا واقعہ پیش آ گیا۔ حالانکہ اس واقعے سے قبل ہی اس وقت کے وزیراعظم پاکستان نے متعدد عالمی فورمز پر یہ باور کرا دیا تھا کہ یہ بی جے پی کا پرانا حربہ ہے کہ جب بھی وہ کسی مشکل کا شکار ہوتی ہے تو پاکستان دشمنی کا راگ الاپنے لگتی ہے۔
آج کل نریندر مودی اپنی ہر تقریر میں پاکستانی معیشت اور سیاست کی زبوں حالی کے حوالے سے طنز کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بھارتی حکومت اب پاکستان پر اپنا سرمایہ اور وقت برباد کرنے کے بجائے تمام قوت بھارت کو مضبوط کرنے کی طرف لگا رہی ہے۔ سابق دور حکومت میں 27 فروری 2019ء کا جو واقعہ پیش آیا اور پاکستان کی ایئر فورس نے بھارتی ایئر فورس پر شاندار فتح حاصل کی تو اس واقعے کے حواے سے اجے شکلا نے انڈین ایئر فورس کے ایک سینئر اہلکار کے حوالے سے لکھا کہ اگر فرانس سے رافیل طیاروں کی ڈیل میں مودی اور متل کی یاری نے اربوں روپے کی کرپشن نہ کی ہوتی تو 26 فروری 2019ء کو سرجیکل سٹرائیک اور اس کے بعد 27 فروری کی فضائی جھڑپ میں انڈین ایئر فورس کے پاس مِگ طیاروں کی جگہ رافیل ہوتے، اگر ایسا ہوتا تو ممکن ہے کہ نتائج مختلف ہوتے لیکن مودی اور اس کے کھرب پتی سوداگر دوستوں کی باہمی کرپشن کی وجہ سے بھارت کو دنیا بھر میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اجے شکلا کہتے ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو اپنی طاقت بڑھانے کیلئے ہر وقت خون کی ضرورت رہتی ہے‘ چاہے یہ پلوامہ میں ہو یا راجوڑی میں‘ اننت ناگ میں ہو یا ممبئی اور نئی دہلی میں‘ یا سرینگر اور کپواڑہ میں‘ یہ انڈین آرمی کا خون ہو یا بھارتیہ جنتا کا‘ بی جے پی کو صرف لہو چاہیے۔ اجے شکلا کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارتی فوج سمیت بھارت کے سبھی اداروں میں مسلمان کام کر رہے ہیں جن کی اہلیت اور استعداد پر کبھی انگلی نہیں اٹھائی گئی لیکن جیسے ہی کسی ریاست یا پورے بھارت میں انتخابات کا بگل بجتا ہے تو ہندوتوا کا انتہا پسند ماحول پیدا کرنے کیلئے مسلم دشمنی کی آگ بھڑکا کر انتہا پسند ہندو اکثریت کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔
انڈین آرمی کا ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر ایک ٹی وی پروگرام میں سرحد پر ہونے والی جھڑپوں اور ان میں مرنے والے بھارتی فوجیوں کے سبب مودی سرکار پر برس رہا تھا کہ مودی سرکار کی وزیر دفاع نرملا سدھارمن نے انتہائی حماقت کا ثبوت دیتے ہوئے سر عام کہنا شروع کر دیا کہ ''بھارت کی فوج بھی مخالف فوجیوں کے گلے کاٹ کاٹ کر پھینکتی رہی ہے‘‘۔ اس طرح کی بڑھکیں مارتے ہوئے اس نے انتہا پسند ہندو ووٹ تو حاصل کر لیے لیکن پوری دنیا میں انڈین آرمی کا تاثر ایک قصاب کے طور پر اجاگر کیا۔ اس حوالے سے اجے شکلا نے لکھا کہ وہ تو اچھا ہوا کہ اس وقت پاکستان کی حکومت نے اس بیان کو زیادہ نہیں اچھالا ورنہ ہمیں دنیا بھر میں لینے کے دینے پڑ جاتے۔ اجے شکلا کے مطابق بھارتی وزیر دفاع نرملا سدھارمن نے جب یہ بیان دیا تو اس پر انڈین فوج نے وزیراعظم نریندر مودی سے احتجاج بھی کیا تھا لیکن پی ایم ہائوس نے اس اعتراض پر کوئی توجہ نہ دی۔
مذکورہ واقعے کا پس منظر یہ ہے کہ 2013ء میں‘ کانگریس کی حکومت میں ایک بڑا ایشو اٹھایا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ سرحد پر دہشت گردوں نے بھارتی فوجیوں کے گلے کاٹ دیے ہیں‘ اس پر سشما سوراج‘ جو اس وقت اپوزیشن لیڈر تھیں‘ نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر کہا کہ اگر بھارتی فوج اپنے مقابل فوجیوں کے گلے نہیں کاٹ سکتی تو سرحدوں پر بے کار کھڑا کرنے کے بجائے اپنی فوجوں کو واپس بلا لینا چاہئے۔ اجے شکلا نے کئی مثالوں سے واضح کر کے آخر میں لکھا کہ جیسے ہی بھارت کی کسی ریاستی اسمبلی کے انتخابات قریب آنے لگتے ہیں تو بھارتی فوج کی یونٹس میں یہ خوف پھیلنا شروع ہو جاتا ہے کہ مودی جی اب نجانے کون سی یونٹ یا پلٹن کا بلیدان دیں گے، فوجی بیرکوں میں ہونے والی 'لنگر گپ‘ میں یہی بات چلتی رہتی ہے کہ انتخابات سے قبل ضرور کوئی نیا ایشو شروع کرا کر فوج کے افسروں اور جوانوں کی لاشوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی چنائو جیتنے کی کوشش کرے گی۔
SAAG انڈین اسٹیبلشمنٹ کا ایک پروپیگنڈا ادارہ ہے جس کی ویب سائٹ پر انٹرنیشنل افیئرز کے ماہرین کی بہت بڑی ٹیم کام کرتی ہے‘ جس کا مقصد دن رات پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش اور خلیجی ممالک کے علاوہ امریکہ اور برطانیہ سمیت یورپی یونین میں اپنے مقاصد اور سٹریٹجک مفادات کے حصول کیلئے ایسا مواد شائع کرنا ہے جس سے وہ ان ممالک کے عوام اور فیصلہ سازوں کے ذہنوں کو متاثر کر سکے۔ ایک جانب ان ملکوں میں عوام کی ہمدردیاں اور رجحان بھارت کی طرف کرایا جا سکے تو ساتھ ہی وہ ممالک جن کے بھارت سے اختلافات شدید قسم کے ہیں‘ ان کے نقطہ نظر کو کمزور کیا جا سکے۔ جب پاناما سکینڈل کا دنیا بھر میں شور اٹھا تو اس وقت ''ساگ‘‘ نے بھارت کے چند نامور تجزیہ کاروں کے مضامین شائع کرانے شروع کر دیے۔ مشہور قلمکار ڈاکٹر سبھاش کپل کے مضمون کے ذریعے پاکستان کی سیا ست اور اس کے اندرونی معاملات میں نریندر مودی کے ایجنڈے کو بڑھاوا دینے کیلئے مختلف سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کے حوالے سے منظم کمپینز چلائی گئیں۔ اس وقت کے وزیراعظم کا موازنہ ذوالفقار علی بھٹو سے کرتے ہوئے کہا جانے لگا کہ پاکستانی سیاست ایک اور بھٹو تراشنے جا رہی ہے۔ ڈاکٹر سبھاش کپل کا یہ مضمون ایسے وقت میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں پھیلایا گیا جب اسلام آباد ہائیکورٹ میں ضمانت کی اپیل زیر سماعت تھی اور جب ای سی ایل سے نام نکالنے کی اپیل لاہور ہائیکورٹ میں داخل کی جا رہی تھی۔ ساتھ ہی چند پیراگراف میں تاثر دیا گیا کہ سیاستدانوں کی کرپشن کا ریکارڈ مقتدرہ سے کبھی بھی پوشیدہ نہیں رہا اور اس حوالے سے ثبوت بھی موجود ہوتے ہیں اور گواہان بھی۔ غالباً یہی وہ راز ہے جس کا چند پاکستانی تجزیہ کار حالیہ دنوں میں بار بار حوالہ دے چکے ہیں۔