"MABC" (space) message & send to 7575

نشانہ پاکستان ہے

شنید ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف 3 اگست کو لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں عوام کے ایک جم غفیر سے خطاب کرنے جا رہے ہیں۔ اس سے پہلے تیس جولائی کو وہ پنجاب میں دو جلسے کر یں گے جن میں سے ایک کھڈیاں خاص‘ ضلع قصور کے ریلوے سٹیشن کی گرائونڈ میں ہو گا جہاں لاہور تا بہاولنگر موٹروے کا سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب بھی متوقع ہے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی لاہور‘ قصور تا بہاولنگر موٹر وے کی با قاعدہ منظوری پنجاب کابینہ سے پہلے ہی لے چکے تھے اور اس کے لیے تمام ضابطے کی کارروائیاں بھی مکمل کی جا چکی تھیں۔ ا عتراض یہ نہیں کہ اس منصوبے کا افتتاح موجودہ حکومت کیوں کرنے جا رہی ہے۔ کسی حکومت کے اچانک رخصت ہو جانے کے بعد جو بھی دوسری حکومت اقتدار سنبھالتی ہے‘ وہ پہلے سے منظور کیے جانے والے یا جاری کیے گئے پروجیکٹس کو ادھورا نہیں چھوڑا کرتی۔ البتہ یہاں پر وزیر آباد کا کارڈیالوجی ہسپتال ایک استثنائی کیس کا درجہ رکھتا ہے کہ پرویز الٰہی کے پچھلے دور میں شروع ہونے والا یہ منصوبہ بعد میں مسلم لیگ نواز کے دو متواتر ادوار میں یکسر نظر انداز کیا گیا۔ اب لاہور‘ قصور تا بہاولنگر موٹروے پر جو بھی بجٹ خرچ ہو گا‘ وہ دال روٹی کی خریداری، سگریٹ کی ڈبی‘ پانی اور مشروبات کی بوتلوں اور پانی‘ بجلی و گیس کے بلوں سمیت موبائل فون ری چارج کرانے پر ادا کیے گئے بھاری ٹیکسوں سے حکومت اکٹھا کرتی ہے۔ عوام کا یہ پیسہ عوامی فلاح کے منصوبوں پر ہی خرچ ہونا چاہیے۔ خدا کرے کہ عوامی اہمیت کا یہ منصوبہ‘ جس کا اگلے چند دنوں میں افتتاح ہو گا‘ جلد از جلد پایۂ تکمیل کو پہنچ جائے۔
کھڈیاں خاص ریلوے سٹیشن کے سامنے جلسہ گاہ کے طو ر پر تیار کی جانے والی گرائونڈ میں ایک محنت کش کسان کی سال بھر کی کمائی کو جس طرح تہس نہس کیا گیا‘ وہ حکومت کی زرعی پالیسی پر ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ حکمران جماعت کی جانب سے اس کیلئے ضلعی اور ڈویژن انتظامیہ کو قصوروار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ ایک طرف درماندہ کسانوں سے متعلق آئے روز پریس کانفرنسز منعقد کی جا رہی ہیں کہ ملک میں ایوب خان طرز پر ایک نیا سبز انقلاب برپا کیا جائے گا‘ لیکن دوسری طرف محض ایک جلسے کے لیے کھڑی فصلیں تباہ کر دی گئیں۔ یہ کیسا سبز انقلاب ہے کہ ایک غریب کسان کی چند ایکڑ پر مکئی کی کھڑی فصل کو کاٹ کر پھینک دیا گیا؟ لاہور کے قذافی سٹیڈیم اور کھڈیاں خاص کے جلسۂ عام کیلئے سرکاری سطح پر لاہور و قصور سمیت اوکاڑہ‘ ساہیوال‘ شیخوپورہ اور ننکانہ کے علاوہ چند دیگر اضلاع میں بھی بھرپور تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ نگران انتظامیہ ان جلسوں کی کامیابی یقینی بنانے کیلئے دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔ عوام کے پاس جانا ہر کسی کا آئینی حق ہے اور یہی وہ طرزِ عمل ہے جو کسی جمہوری حکومت اور ملک کی شان میں اضافہ کرتا ہے اور جسے دیکھ کر عالمی رائے عامہ اس ملک کے بارے میں اپنی رائے مرتب کرتی اور پالیسیاں ترتیب دیتی ہے، مگر یہ حق سب سیاسی جماعتوں کو یکساں ملنا چاہیے۔ کسی ایک کو دیوار کے ساتھ لگا کر‘ گلیوں کو سنجیاں کر کے مرزا یار کو پھرانا لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ہے۔
امریکی حکومت نے بیان دیا ہے کہ یہ تاثر درست نہیں کہ امریکہ پاکستان کو بھول گیا ہے‘ دونوں ملکوں کی تجارت کا حجم مسلسل بڑھ رہا ہے۔ امریکہ جیسے چند طاقتور ملکوں کے بارے کہا جاتا ہے کہ اگر کبھی معاملات ان کے حق میں نہ ہوں تو وہ انہیں اپنے حق میں موڑنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ سپر پاور سے متعلق کہا جاتا ہے وہ کسی بھی ملک میں چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر ہر شے کو تہس نہس کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ اب تو اس قسم کے بھی خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ پاکستان میں 9 مئی کو جو کچھ بھی ہوا‘ اس میں عالمی طاقتوں اور ان کی خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کہنے والے تو نائن الیون کو بھی ایک ''اِنسائیڈ جاب‘‘ قرار دیتے ہیں اور اس حوالے سے خود امریکہ میں درجنوں کتابیں شائع ہو چکی ہیں بلکہ مسلسل شائع ہو رہی ہیں۔ دو دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی نائن الیون کے حوالے سے لوگوں کے تحفظات دور نہیں ہو سکے ہیں۔ وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ امریکہ کے خلاف اتنی بڑی سازش رچی جائے، اس کے جہازوں کو ہائی جیک کر لیا جائے اور امریکی انتظامیہ‘ سی آئی اے اور ایف بی آئی جیسے ادارے اس سے بے خبر رہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس حوالے سے مفادات بہت پہلے طے کیے جا چکے تھے، وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ بھوک اور ننگ کا شکار ایک ملک امریکہ جیسے ملک میں نائن الیون کاواقعہ کامیابی سے سرانجام دیدے؟
امریکہ کی ''ڈی کلاسیفائیڈ‘‘ دستاویزات کا بغور مطالعہ کیا جائے یا اپنی ملکی تاریخ پر ایک نظر ڈال لی جائے تو ان الزامات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات میں درجنوں ممالک میں حکومتیں گرانے اور بنانے سمیت پالولر لیڈروں کو راستے سے ہٹانے کا بھی اعتراف کر چکا ہے۔ اسی طرح ملکی تاریخ میں حکومت گرانے میں امریکی مداخلت کا الزام سب سے پہلے 23 مارچ کے تاریخی جلسے میں قراردادِ پاکستان پیش کرنے والے مسلم لیگی رہنما مولوی فضل الحق نے لگایا تھا۔ پاکستان کی تاریخ کا پہلا انتخابی اتحاد مشرقی پاکستان میں بننے والا اتحاد تھا جسے جگتو فرنٹ کا نام دیا گیا تھا۔ یہ مشرقی پاکستان کی کرشک سرامک پارٹی، عوامی لیگ اور نظام اسلام پارٹی نے مسلم لیگ کے خلاف تشکیل دیا تھا۔ ذاتی اور سیاسی نظریات میں تفاوت اور تمام تر انتظامی مخالفت کے باوجود یہ الیکشن میں 309 نشستوں میں سے 223 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کے مقابل مسلم لیگ صرف دس سیٹیں جیت سکی۔ مسلم لیگ کے پارلیمانی لیڈر اور سابق وزیراعلیٰ نور الامین ایک عام طالبعلم سے شکست کھا گئے تھے۔ مگر جگتو فرنٹ کی حکومت کو صرف تین ماہ بعد ہی غداری اور ملک کی سالمیت کے خلاف کام کرنے جیسے الزامات لگا کر رخصت کر دیا گیا اور مشرقی پاکستان میں گورنر راج لگا دیا گیا۔ ان الزامات کے لیے مولوی فضل الحق کے ایک انٹرویو کو بنیاد بنایا گیا جو ایک امریکی اخبار میں شائع ہوا تھا اور جس میں کہا گیا تھا کہ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے علیحدہ ہونا چاہتا ہے۔ مولوی فضل الحق نے فوری طور پر اس انٹرویو اور خود سے منسوب بیانات کی تردید کی مگر انہیں اقتدار سے دور رکھنے کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ گورنر راج کے خاتمے کے بعد جگتو فرنٹ کی اندرونی کشمکش کا سہارا لیا گیا اور عوامی لیگ نے مولوی فضل الحق کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی۔ 1958ء تک تینوں جماعتوں میں میوزیکل چیئر کا کھیل جاری رہا اور پھر ایوب خان آ گئے۔ ''فرینڈز ناٹ ماسٹر‘‘ لکھنے والے ایوب خان کو نکالنے کیلئے چار آنے چینی مہنگی ہونے پر ایک بڑی عوامی تحریک کا سہارا لیا گیا۔ 1977ء کی تحریک سے پہلے بھٹو سرعام کہا کرتے تھے کہ ''سفید ہاتھی‘‘ ان کی حکومت کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ تحریک نظام مصطفی بھٹو کی حکومت کو تو بہا کر لے گئی مگر ملک دوبارہ ایک تاریک سرنگ میں داخل ہو گیا۔ وہ بھٹو‘ جسے فخر ایشیا اور قائد عوام جیسے خطابات سے نوازا گیا تھا‘ قتل کے ایک مقدمے میں راولپنڈی جیل کے پھانسی گھاٹ تک جا پہنچا۔ بھٹو کے بعد ضیاء الحق کے فضائی حادثے کو بھی غیر ملکی ہاتھوں کی کارستانی قرار دیا جاتا ہے۔
نو مئی کوئی عام دن نہیں تھا۔ ہو ہی نہیں سکتا کہ کہیں بیٹھ کر اس حوالے سے بھرپور پلاننگ نہ کی گئی ہو۔ یہ بھی ممکن نظر نہیں آتا کہ اس سانحے میں غیر ملکی ہاتھ ملوث نہ ہوں۔ اب تک ہم آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں‘ جبکہ دشمن کی سازش یہی نظر آتی ہے کہ ہمیں تقسیم در تقسیم کیا جائے۔ بائیڈن حکومت کے آنے کے بعد پاکستان سے روا رکھا جانے والا سلوک اور تلخ بیان بازی اور امریکی میڈیا کا یکایک پاکستان مخالف رویہ بے وجہ نہیں۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار اسرائیل کی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت یہ سب واقعات یہ بتا رہے ہیں کہ ڈیفالٹ کا خطرہ‘ معاشی مشکلات میں اضافہ‘ قرض دینے میں تاخیر اور طرح طرح کے حربے‘ یہ سب بہانہ ہیں اور پاکستان نشانہ ہے۔ نائن الیون کی طرز پر اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے اس بار نائن فائیو (مئی) کا سہارا لیا گیا۔ اگر اب بھی ہم آپس میں ہی الجھے رہے اور ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراتے رہے تو دشمن کی سازشوں میں سہولت کاری کریں گے۔ ہمیں نہ صرف دشمن کی سازشوں کا ادراک کرنا ہے بلکہ چوکنا بھی رہنا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں