"MABC" (space) message & send to 7575

مثبت نتائج

چند باخبر افراد کی محفل کے بعد سے صدر ضیاء الحق مرحوم کے وہ الفاظ نجانے کیوں بار بار یاد آ رہے ہیں جو وہ صحافیوں کے بار بار ایک جیسے سوالات کے جواب میں بولا کرتے تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے نوے دن میں انتخابات کرانے کے وعدے پر اقتدار سنبھالا تھا مگر جب اس حوالے سے کوئی ہلچل نہ ہوئی تو صحافیوں نے بار بار ان سے سوالات کرنا شروع کر دیے کہ انتخابات کب ہوں گے اور ملک میں جمہوریت کب بحال ہو گی؟ اولاً تو وہ اس قسم کے سوالات کا جواب دینا پسند نہیں کرتے تھے مگر پھر انہوں نے بار بار کیے جانے والے ان سوالات کے جواب میں بغیر کسی لگی لپٹی کے کہنا شروع کر دیا کہ ''مثبت نتائج تک نہیں عام انتخابات نہیں کرائے جائیں گے‘‘۔ مثبت نتائج سے ان کی کیا مراد تھی‘ یہ مرحوم صدر ہی جانتے ہوں گے۔ آج کل مرحوم صدر سے ہر دو طرح نسبت رکھنے والے یہ الفاظ سب کے سامنے تو نہیں لیکن بند کمروں میں ضرور دہراتے سنے جا رہے ہیں۔
مرحوم ضیاء الحق نے مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے اپنی ابتدائی تقریر میں جب یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ 90 دنوں میں انتخابات کرا کے اقتدار اکثریتی جماعت کے حوالے کر دیں گے تو اس وقت بھی ان کے ذہن میں یہی چل رہا تھا کہ حالات سازگار ہونے تک ملک کو انتخابات جیسی وبا سے دور ہی رکھا جائے گا۔ آج بھی ملک میں کچھ ایسی ہی صورتِ حال نظر آ رہی ہے۔ اگرچہ وزیراعظم صاحب مدت مکمل ہونے سے قبل ہی اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کر چکے ہیں اور الیکشن کمیشن کی جانب سے اکتوبر کے وسط تک الیکشن کرانے کی نوید بھی سنائی جا چکی ہے مگر نہ صرف اندرونِ ملک بیشتر طبقات انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار ہیں بلکہ بیرونِ ملک سے بھی انتخابات کے انعقاد بارے تذبذب کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ وجہ اس کی صاف ہے کہ ہماری ملکی تاریخ گواہ ہے کہ الیکشن سے کم از کم ایک سال قبل ہی انتخابی مہم شروع ہو جاتی ہے‘ ہر حکومت اپنے آخری سال کو انتخابی سال سمجھ کر حکومت کرتی ہے‘ آخری بجٹ بھی انتخابات کو مدنظر رکھ کر بنایا جاتا ہے مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تین ماہ بعد الیکشن ہوں اور ابھی تک کسی ایک جماعت کی جانب سے بھی کوئی کمپین شروع نہ کی گئی ہو۔ دوسری جانب نہ صرف بجٹ میں حکومت نے اپنی چھری کافی تیز رکھی بلکہ جاتے جاتے عوام پر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر کے کئی نئے بم بھی پھوڑ دیے۔ کیا یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ بجلی کی قیمت میں بے تحاشا اضافہ کرنے کے فوری بعد پی ڈی ایم نامی حکومتی اتحاد عوام میں جا کر اپنی انتخابی مہم چلائے گا؟ ٹھیک ایک ماہ بعد جب عوام بجلی کے کمر توڑ بلوں کے ساتھ سڑکوں پر سراپا احتجاج ہوں گے تو کیا ان حالات میں الیکشن کمپین کی جا سکے گی؟دوسری طرف ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو انتخابات کے حوالے سے منظم انداز میں قیاس آرائیاں پھیلا رہے ہیں۔ اپنی نجلی محفلوں میں وہ برملا کہتے ہیں کہ ہماری جانب سے لکھ لیجئے کہ ملک بھر میں عام انتخابات مارچ 2024ء سے قبل نہیں ہوں گے۔ کچھ افراد کا کہنا ہے کہ ان تک جو اطلاعات آئی ہیں‘ ان کے مطابق اگر نومبر 24ء میں بھی ملک بھر میں عام انتخانات کرا دیے گئے تو اسے غنیمت سمجھئے گا۔ برسر اقتدار سیاسی جماعتوں میں سے ایک جماعت کے ایک رکن‘ جن کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے‘ اپنے حامیوں اور دھڑے سے تعلق رکھنے والے ڈیرے داروں کو یہ یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ پہلے پنجاب کے بلدیاتی الیکشن ہوں گے‘ اس کے بعد ہی کسی دوسرے الیکشن کا سوچا جائے گا۔ اسی طرح کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نگران حکومت کا قیام الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے بہت کچھ واضح کر دے گا۔ اگر نگران سیٹ اَپ میں معاشی ماہرین کو شامل کیا گیا تو پھر الیکشن کے التوا کے امکانات خاصے بڑھ جائیں گے۔
کہا جاتا ہے کہ ضیاء الحق کی مارشل لا حکومت ابتدائی دور میں ''مثبت نتائج‘‘ کیلئے جو بھی سروے کراتی‘ اس کے پاس یہی رپورٹس آتیں کہ اگر اس وقت انتخابات کرائے گئے تو ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی واضح اکثریت سے جیت جائے گی۔ پھر نواب محمد احمد خان قصوری کے مقدمۂ قتل میں جب چار اپریل 1979ء کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی تو اس کے بعد مثبت نتائج کی توقع ہی فضول تھی اور سرکار نے اس بارے سوچنا بند کر دیا کیونکہ ان حالات میں کسی سے پوچھنے یا سروے کرانے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ بھٹو کی مقبولیت پہلے سے بھی کئی گنا بڑھ گئی تھی۔ کچھ عرصہ تک تو حالات کو کنٹرول کر لیا گیا مگر عوامی اضطراب جب آخری حدوں کو چھونے لگا تو فیصلہ یہ کیا گیا کہ عوام کو بلدیاتی انتخابات میں الجھایا جائے، اس کے بعد بھی الیکشن کراتے ہی بنی تو پھر ''غیر جماعتی‘‘ الیکشن کے ذریعے مثبت نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاریخ گواہ ہے کہ ملکی تاریخ کے اکلوتے غیر جماعتی انتخابات بھی مثبت نتائج کے حوالے سے اچھا تاثر نہیں دے رہے تھے‘ اب سب سے کارگر‘ وہ حربہ اپنایا گیا جس میں سوائے مثبت نتائج کے اور کچھ تھا ہی نہیں۔ ہوا یہ کہ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے اردگرد رہنے والے اپنے خصوصی کارندوں کے ذریعے پیپلز پارٹی سے غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کرایا گیا اور پھر ضلعی و تحصیل انتظامیہ کی مدد سے اپنے من پسند افراد کی اسمبلیاں وجود میں لا کر ملک کی پیشانی پر پارلیمانی جمہوریت کا ٹیکہ ثبت کر دیا گیا تاکہ دنیا میں پاکستان کی جمہوری ملک ہونے کی شناخت بحال ہو سکے۔ اپوزیشن لیڈر کے اس بیان کہ ''انتخابات دس سال بھی نہ ہوں تو کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘ یا (ن) لیگی سینیٹر کے ایک ٹی وی پروگرام میں یہ اشارے کہ ''سیلاب کے باعث الیکشن ملتوی ہو سکتے ہیں‘‘ ان شکوک و شبہات کو تقویت دیتے ہیں کہ ''مثبت نتائج‘‘ کے حصول تک انتخابات کو التوا میں ڈالنے کا کوئی نہ کوئی پلان زیرِ غور ضرور ہے۔
نجی محفل میں حکمران جماعتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا کہنا تھا کہ جیسے ہی الیکشن کا اعلان ہو گا تو حسبِ روایت امیدواروں کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ٹکٹ تقسیم کیے جائیں گے مگر اصل کھیل یہیں سے شروع ہو گا۔ روپوش رہنمائوں کے کاغذاتِ نامزدگی تو پہلے ہی مرحلے میں مسترد ہو جائیں گے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی امیدوار اپنے کاغذاتِ نامزدگی داخل کرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کا بندوبست بھی کیا جا چکا ہے۔ پنجاب کے ہر ضلع اور تحصیل کے علاوہ اسلام آباد میں بھی نو مئی اور جوڈیشل کمپلیکس حملہ ٹائپ کیسز کے درج مقدمات میں بیس سے تیس معلوم سیاسی کارکنان اور سو‘ دو سو نامعلوم افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔ لہٰذا جسے بھی ٹکٹ ملے گا اس کے تائید کنندہ‘ تصدیق کنندہ اور چند قریبی رشتہ داروں کو نامعلوم نامزد افراد کی فہرست میں شامل کر کے گرفتار کر لیا جائے گا ۔ ایک نوزائیدہ سیاسی جماعت کے ایک سرکردہ لیڈر کا کہنا تھا کہ ہر انتخابی حلقے کے امیدوار کو پولنگ ایجنٹس کی ضرورت ہو تی ہے‘ لہٰذا جسے بھی اپنا پولنگ ایجنٹ بنایا جائے گا‘ یا جو اُن کی کمپین میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے گا وہ نامعلوم مقدمات کی فہرست کا شکار ہو جائے گا۔ ایک تجزیہ کار نے سوال کیا کہ ان انتخابات کی کیا ساکھ باقی رہ جائے گی اور کیا اس طرح مثبت نتائج مل سکتے ہیں؟ جس پر بتایا گیا کہ امریکہ ہمارے ساتھ ہے‘ لیکن اگر اس کی جانب یا سول سوسائٹی اور عالمی تنظیموں کی جانب سے اعتراضات کیے بھی گئے تو دنیا بھر کو بتایا جائے گا کہ جن لوگوں کو گرفتار کیا ہے‘ یہ سب دہشت گردی کے مقدمات کے ملزم ہیں اور ان کو اشتہاری قرار دیا چکا تھا۔ اس حوالے سے ''ڈوزیئر‘‘ تیار ہے‘ عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے لہٰذا ''سیاں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا‘‘۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پنجاب میں ٹیکنیکل طریقے سے ناک آئوٹ کرنے کا مشن فائنل ہو چکا ہے‘ البتہ کے پی سے وہ کامیابی نہیں مل رہی جس کی ضرورت ہے۔ نیز یہ کہ کامیابی کے ساتھ یہ پلان سندھ کے بلدیاتی انتخابات اور میئر کراچی کے انتخاب میں آزمایا بھی جا چکا ہے اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں