جیسے ہی یہ خبریں سامنے آئیں کہ 42 دن کی اسمبلی کے لیے آئندہ مالی سال کے بجٹ کا نصف یعنی چھ ماہ کا بجٹ جاری ہوا اور اسمبلی کی مدت مکمل ہونے سے محض 18 دن پہلے اراکینِ اسمبلی کی ترقیاتی سکیموں کے لیے مختص کردہ 90 ارب روپے میں سے 51 ارب روپے پی ڈی ایم کے اراکین اسمبلی کو جاری کر دیے گئے، علاوہ ازیں پنجاب کی افسر شاہی کی 'شاندار خدمات‘ کے اعتراف میں ڈیڑھ سے سات کروڑ تک مالیت کی دو سو سے زائد نئی گاڑیاں خریدنے کے لیے 3 ارب 20 کروڑ روپے کی منظوری کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے تو حاسدین اور مخالفین کی جانب سے تنقید کا ایک بازار گرم ہو گیا کہ تین ہفتوں سے بھی کم مدت والی حکومت نے اگلے مالی سال کے چھ ماہ کا بجٹ اپنے لیے کیوں رکھا اور اس میں سے 50 ارب سے بھی زائد ترقیاتی سکیموں کے لیے کیوں جاری کیے گئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس بات پر تنقید نہیں ہونی چاہیے کہ حکومت نے اپنے لوگوں کو ترقیاتی کام کرانے کیلئے50 ارب بطور ترقیاتی فنڈز کیوں جاری کیے۔ اس بات پر اعتراض صرف اسی صورت ہونا چاہئے تھا جب حکومت کے خزانے میں پیسے موجود نہ ہوتے۔ اگر حکومت کے پاس اتنی رقم تھی‘ تو ہی اس نے یہ پیسے تقسیم کیے ہیں۔ اگر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے برادر ملکوں اور آئی ایم ایف کے پاس ملکی خودمختاری گروی رکھنے کے بعد پانچ ارب ڈالر جیسی خطیر رقم خزانے میں آ ہی گئی ہے تو کیا اسے سینت سینت کر رکھا جانا چاہیے؟ کیا ضروری نہیں کہ ملکی و قومی مفاد میں ان پیسوں کو خرچ کیا جائے۔حکومت تو اس پر داد و تحسین کی حقدار ہے کہ اس نے دوست ملکوں اور عالمی مالیاتی ادارے سے ملنے والے قرض میں سے نوے ارب روپے ترقیاتی فنڈز کے نام پر مختص کیے اور اسی طرح سوا تین ارب نئی گاڑیوں کی خریداری کے لیے اس قوم کی بہتری اور خدمت پر قربان کر دیے۔ ناقدین یہ بھی اعتراض کر رہے ہیں کہ ابھی تو صرف ایک کھرب روپے ہی خرچ کے لیے نکالے گئے ہیں‘ جیسے ہی الیکشن کا اعلان ہو گا‘ پھر تو شاید پورا خزانہ ہی خالی ہو جائے گا، ایسے میں آئی ایم ایف کی اگلی قسطوں کا کیا بنے گا، اور کیا یہ نو ماہ کا پیکیج اختتام کو پہنچ سکے گا؟
بعض ناقدین پلاننگ کمیشن کے حوالے سے سامنے آنے والی اس رپورٹ کو بنیاد بنا کر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیے ہوئے ہیں جس کے مطابق ایم این ایز کے لیے ترقیاتی سکیموں کے تحت پنجاب کو 26 ارب 35 کروڑ روپے جاری کیے گئے ہیں جبکہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کو تقریباً ساڑھے 20 ارب روپے۔ یعنی محض پنجاب کو جاری کردہ فنڈز باقی تینوں صوبوں کے مجموعی فنڈز سے بھی زیادہ ہیں۔ پلاننگ کمیشن کے مطابق سندھ کے ایم این ایز کو ترقیاتی فنڈز کے تحت 9 ارب 23 کروڑ روپے جبکہ بلوچستان کے ایم این ایز کو 2 ارب 58 کروڑ روپے اور خیبر پختونخوا کے لیے 8 ارب 96 کروڑ روپے جاری ہوئے ہیں۔ پلاننگ کمیشن کے ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ صوبہ سندھ کو گزشتہ ماہ 15 ارب روپے سیلاب سے ریکوری و بحالی کے لیے بھی جاری کیے گئے تھے جبکہ پنجاب اور سندھ کے ایم این ایز کے لیے ابھی مزید فنڈز کا اجرا کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق 8 اگست سے پہلے ایم این ایز کو 61 ارب روپے سے زائد جاری کیے جائیں گے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق 959 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز سے 142 ارب 50 کروڑ روپے جاری کیے جا چکے ہیں۔ اراکینِ اسمبلی کی ترقیاتی سکیموں کے لیے 61 ارب 26 کروڑ روپے، مقامی ترقیاتی پروگرام کیلئے 131 ارب روپے جاری کیے گئے، بیرونی ترقیاتی معاونت کی مد میں 11 ارب 50 کروڑ روپے جاری کیے گئے جبکہ اگلے 3 ماہ میں (نگران حکومت کیلئے) مزید 69 ارب 74 کروڑ روپے دستیاب ہوں گے۔حکومت کا اس حوالے سے یہ بھی کہنا ہے کہ 20 ارب روپے تو پچھلے سال کے ترقیاتی فنڈز کے باقی تھے‘ جنہیں اس سال جاری کیا گیا‘ جبکہ 41 ارب روپے نئے سال کے ترقیاتی بجٹ سے جاری کیے گئے۔
الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پہ جیسے ہی ترقیاتی فنڈز کے نام پر نئے مالی سال کے بجٹ سے 90 ارب روپے مختص ہونے، اراکینِ اسمبلی کو حکومت کی مہربانی سے پچاس ارب روپے سے زائد فنڈز جاری ہونے اور دو سو نئی گاڑیوں کی خریداری کی خبریں سامنے آئیں‘ یہ سوالات بھی پوچھے جانے لگے ہیں کہ آخر یہ اربوں روپے کون سے ترقیاتی کاموں میں اور کہاں کہاں خرچ کیے جائیں گے؟ اس حوالے سے معترضین کو علم ہونا چاہیے کہ حکومت کا جہاں دل کرے گا‘ وہاں یہ فنڈز خرچ کرے گی‘ یہ اس کی صوابدید ہے کہ وہ کسے کتنے فنڈز جاری کرتی ہے اور کیسے وہ فنڈز استعمال میں لائے جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا کوتو دیکھ کر ایسے لگ رہا ہے جیسے یہ نوے ارب روپے کا ترقیاتی فنڈ ا ن کی جیبوں سے نکالا گیا ہے۔ یہ فنڈز کہاں خرچ ہو رہے ہیں‘ اس حوالے سے نہ صرف بہت سی خبریں بلکہ متعدد وڈیوز بھی سامنے آ چکی ہیں۔ آج کل لاہور میں جوہر ٹائون میں بڑ ی بڑی مشینیں سڑک کی اکھاڑ پچھاڑ میں لگی ہوئی ہیں۔ ایک اچھی بھلی اور بہت مصروف سڑک کو نہ جانے کیوں ادھیڑا جا رہا ہے۔ کئی بار جی میں آیا کہ وہاں کھڑے ''ترقیاتی کاموں‘‘ کی نگرانی کرنے والے افسران کی خدمت میں جا کر عرض کروں کہ جناب! جس سڑک کو ان مشینوں سے ادھیڑا جا رہا ہے‘ اس قسم کی سڑکیں تو لاہور سے باہر کے لوگ خوابوں میں دیکھتے ہیں۔ اگر آپ بھلوال، بھیرہ اور سالم سے سرگودھا جانے والوں سے پوچھیں تو وہ ہاتھ اٹھا ٹھا کر دعائیں مانگتے ہیں کہ کسی دن موٹر وے سے سرگودھا جانے والی یہ تین سڑکیں بھی اسی طرح بنا دے جس طرح لاہور میں جوہر ٹائون اور ماڈل ٹائون میں سڑکیں بنائی جا رہی ہیں یا جس طرح کھڈیاں‘ قصور کے جلسے سے قبل شرقپور کی سڑکیں پھر سے بنائی جا رہی ہیں۔
سنا ہے کہ لاہور سے باہر بالخصوص وسطی و جنوبی پنجاب کے رہنے والے دعائیں مانگنے لگے ہیں کہ جلد ہی ان علاقوں میں حکومت کسی جلسے کا اعلان کرے یا کسی نہ ہونے والے منصوبے کا سنگِ بنیادرکھنے کا پروگرام ہی بن جائے تاکہ ان سڑکوں کی بھی سنی جائے اور وزیراعظم، وزیراعلیٰ کی آمد سے قبل ہی یہ سڑکیں بنا دی جائیں مگر ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی دعا مانگتے ہیں کہ کہیں ایسی سڑکیں نہ بنائی جائیں جیسی پچاس کروڑ روپے کی لاگت سے اکتوبر 2022ء میں کراچی میں جہانگیر روڈ بنائی گئی تھی جوجولائی میں ایک ہلکی سی بارش سے ہی ادھڑ کر بکھرنا شروع ہو گئی۔ اسی طرح وزیراعظم شہباز شریف نے تیس جولائی کو کھڈیاں میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا لیکن عین وقت پر شدید بارشوں نے آ لیا جس سے کھڈیاں کی جلسہ گاہ اور اس کے اردگرد پانی ہی پانی کھڑا ہو گیا لیکن قربان جائیے ہماری انتظامیہ اور انجینئرز کی مہارت پر کہ انہوں نے جلسہ گاہ میں آنے والی گاڑیوں کے گزرنے کیلئے دو دو فٹ پانی کے اوپر ہی جدید مشینوں سے کول تار کی سڑکیں بنانا شروع کر دیں۔ عین وقت پر حکومت نے یہ جلسہ ملتوی کر دیا‘ اب یہ 5 اگست کو ہو گا اور امید ہے کہ اس وقت تک جدید ٹیکنالوجی سے بنیں شہکار سڑکیں اپنا جلوہ دکھاتی رہیں گی۔ غصہ ان لوگوں پر ہے جو اب تک سوال کر رہے ہیں کہ نوے ا رب روپے کہاں سے آئیں گے اور کیسے خرچ ہوں گے۔ انہوں نے شاید سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وہ وِڈیو نہیں دیکھی جس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ یہ پیسے کیسے اکٹھے ہوں گے اور کیسے خرچ کیے جائیں گے۔ اس حوالے سے چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی نورعالم خان کا یہ بیان بھی قابلِ غور ہے کہ پاور ڈویژن میں 90 ارب روپے کی ریکوری ہوئی، 161 ارب روپے کی ریکوری باقی ہے، اب ذرا اس خبر کو بھی ساتھ ملا کر دیکھ لیجیے کہ گھریلو صارفین کیلئے بجلی مزید مہنگی کر دی گئی، قبل ازیں سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 1 روپیہ 25 پیسے فی یونٹ بجلی مہنگی کر کے صارفین پر 46 ارب 54 کروڑ کا اضافی بوجھ ڈالا گیا تھا، اب 7 روپے 50 پیسے بجلی مزید مہنگی کر دی گئی ہے جس سے اوسط یونٹ کی قیمت 42 روپے 72 پیسے ہو جائے گی جبکہ سیلز ٹیکس کے نفاذ سے فی یونٹ قیمت پچاس روپے سے بھی زائد ہو جائے گی۔ اس سمری کی منظوری کے بعد جولائی کے بقایا جات بھی عوام سے وصول کیے جائیں گے۔