ترکی کے وزیراعظم عدنان مندریس کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد جب ان کو گرفتار کیا گیا تو ان کے خلاف جہاں اور بہت سے الزامات تھے‘ وہیں ایک الزام یہ بھی تھا کہ انہوں نے افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ سے تحفے میں ملنے والا کتا اور دو بکرے توشہ خانہ سے غائب کر دیے ہیں۔ عدنان مندریس بار بار یہ کہتے رہے کہ یہ بکرے اور کتا کسی الماری، دفتر، شو کیس یا کسی تجوری میں تو رکھے نہیں جا سکتے تھے‘ بکرے مویشیوں کے اصطبل اور کتا وزیراعظم کی رہائش گاہ پہ رکھنا تھا۔ اور کیا یہ ممکن ہے کہ ان بکروں اور کتے کو اتنے برس تک سنبھال کر رکھا جاتا؟ کیا ان کی طبعی عمر کا خیال نہ کیا جاتا؟ عدنان مندریس نے دس سال تک ترکی پر حکومت کی تھی‘ ان سے برسوں پہلے توشہ خانہ کے بکروں اور کتے کا حساب لیا جا رہا تھا۔ انہوں نے اپنے تئیں عدالت کو مطمئن کرنے کی بہت کوشش کی مگر کینگرو کورٹ نے ان کی ایک نہ سنی۔ پراسیکیوشن کی جانب سے کہا گیا کہ بکروں کی صورت میں ملنے والا تحفہ عدنان مندریس اور ان کی کابینہ کے وزرا کے دستر خوان کی زینت بنا دیا گیا اور رہی بات ظاہر شاہ کی جانب سے دیے جانے والے کتے کی‘ تو اس کا تحقیقاتی کمیٹی کو کچھ پتا نہیں چل رہا کہ وہ کدھر گیا ہے۔ عدالت کی جانب سے عدنان مندریس سے بار بار یہی سوال پوچھا جاتا رہا کہ کتا کہاں ہے؟ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ شاید اتنے سالوں میں کتا مر گیا ہو‘ جس پر مطالبہ کیا گیا کہ اگر کتا مر چکا ہے تو اس کی موت کا سرٹیفکیٹ مہیا کیا جائے۔ یہ عجیب سا سوال سننے کے بعد عدنان مندریس حیرت سے سامنے بیٹھے ججز کی طرف دیکھنے لگے کہ اس کے سوا وہ اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ عدنان مندریس پر بنائے گئے بوگس مقدمات اور ترکی کے توشہ خانہ سے غائب ہونے والے دو بکروں اور ایک کتے کے کہانی کئی ماہ تک دنیا بھر کے میڈیا کی زینت بنی رہی۔ آج اس واقعے کو چھ دہائیاں گزر چکی ہیں اور ان چھ دہائیوں میں عدنان مندریس‘ ان کے وزیر خارجہ زورلو اور وزیر خزانہ حسن پولاتکان کی ہڈیاں بھی گل سڑ گئی ہوں گی جنہیں عدالت کی جانب سے سزائے موت سنائی گئی۔ سزائے موت مندریس دور کے ترک صدر جلال بایار کو بھی سنائی گئی تھی مگر ضعیف العمری کے سبب ان کی سزائے موت کو بعد ازاں عمر قید میں بدل دیا گیا اور پھر چھ سال بعد جمہوریت بحال ہونے پر ان کی سزا کو معاف کر دیا گیا مگر تب عدنان مندریس کی پھانسی کو پانچ سال ہو چکے تھے۔
جیسے ہی پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم کو توشہ خانہ کیس میں سزا سنا کر جیل بھیجا گیا تو عدنان مندریس اور ترک توشہ خانہ کے واقعات دوبارہ سامنے آ گئے۔ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا پاکستانی حکومت کو اب تک دنیا بھر کے سربراہان سے صرف ایک گھڑی اور چند زیوارات ہی ملے تھے؟ کیا اس سے قبل یا بعد میں کسی دوسرے حکمران کو گھڑی یا گاڑی یا دیگر ایسے ہی قیمتی تحائف نہیں دیے جاتے رہے؟ توشہ خانہ کے باقی تحائف کدھر ہیں اور کیا یہ تحائف لینے والوں نے انہیں اپنے اثاثوں میں ڈکلیئر کیا ہے؟
چیئرمین تحریک انصاف کو اٹک جیل میں بند ہوئے ابھی چوبیس گھنٹے نہیں گزرے تھے کہ وزیراعظم نے کھڈیاں خاص میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے آبدیدہ لہجے میں کہا کہ جب بھی خانہ کعبہ کے ماڈل والی گھڑی بیچنے کا منظر ان کی چشمِ تصور میں آتا ہے تو فرطِ جذبات سے ان کے آنسو ہی نہیں رکتے۔ اس جلسے میں تاریخی مہنگائی اور ہوشربا بجلی کے بلوں کا تو ذکر نہیں کیا گیا مگر توشہ خانہ کی گھڑی کا ذکر بار بار ہوتا رہا۔
عدنان مندریس پر توشہ خانہ کے بکروں کے علاوہ ایک الزام یہ بھی تھا کہ انہوں نے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ لوگوں کی زمینیں کم قیمت پر خریدی ہیں۔چودہ اکتوبر1960ء کو عدنان مندریس کے خلاف استنبول کے ایک جزیرے پر مقدمات کی سماعت شروع ہو ئی اور پندرہ ستمبر1961ء کو انہیں پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔عدنان مندریس کے علاوہ ان کے 14 ساتھیوں کو بھی سزائے موت سنائی گئی جبکہ 29 کو عمر قید اور 280 پارٹی عہدیداروں کو مختلف میعاد کی سزائیں سنا کر قید میں ڈال دیا گیا اور ان کی پارٹی پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔
ترکیہ کے قدیم شہر استنبول کے شمال میں ایک چھوٹے سے جزیرے پر سیاحوں کو ایک بڑا مقبرہ دیکھنے کو ملتا ہے‘ یہاں ان افراد کی قبریں ہیں جنہیں مارشل لا عدالت کے حکم پر پھانسیاں دی گئی تھیں۔ اس مقبرے کے درمیان میں ترکی کے سابق وزیر اعظم عدنان مندریس کی قبر ہے اور ان کے دائیں‘ بائیں ان کے وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ کی قبریں ہیں۔ عدنان مندریس کا قصورتوشہ خانہ سے دو بکرے لینا نہیں تھا، ان کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے مغربی دنیا کو آنکھیں دکھائی تھیں۔ وہ ترکی‘ جو کبھی خلافتِ عثمانیہ کا مرکز ہوا کرتا تھا‘ اس کو انہوں نے دوبارہ ایک اسلامی ملک بنانے کی سعی کی تھی۔ مصطفی کمال کے زمانے میں جہاں عربی رسم الخط ختم کر کے ترک زبان کو انگریزی رسم الخط میں لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا‘ وہیں اذان دینے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی جبکہ مساجد کے اندر بھی اذان اور جماعت سے قبل اقامت ترک زبان میں کہنے کی پابندی تھی۔ 1932ء میں یہ پابندی لگائی گئی اور 1941ء میں اسے ایک قابلِ سزا جرم قرار دیا گیا۔ اقتدار میں آنے کے بعد عدنان مندریس نے پہلا کام یہی کیا کہ عربی زبان میں اذان دینے پر عائد پابندی کو ختم کیا اور 17 جون 1950ء وہ تاریخی دن ہے جب 18سال بعد ترکی میں دوبارہ عربی زبان میں اذان کی گونج سنائی دی۔ اسی طرح ترکوں کے حج پر جانے پر عائد پابندیاں ختم کیں اور 25 سال کی پابندی کے بعد ترکوں نے پہلی بار 1950ء میں حج کیا۔ اسلام اور مسلمانوں پر عائد وہ تمام پابندیاں جو مصطفی کمال نے عائد کی تھیں‘ عدنان مندریس نے ایک ایک کر کے ختم کیں۔ اسلامی کتب کی اشاعت پر عائد پابندی ہٹائی، پرانی اور نئی دینی کتب کے تراجم کرائے، ایسے بہت سے اقدامات تھے جن کے سبب عدنان مندریس مغرب کی آنکھوں میں بری طرح کھٹک رہے تھے اور باوجود اس کے کہ ترکی 1952ء میں نیٹو اور 1955ء میں بغداد پیکٹ (سینٹو) جیسے مغربی اتحادوں کا حصہ بنا‘ امریکہ کو آنکھیں دکھانے پر عدنان مندریس کو 1960ء میں ایک فوجی بغاوت کے بعد گرفتار کیا گیا اور گیارہ ماہ کی قید کے بعد پھانسی دے دی گئی۔
ترکیہ کے موجودہ صدر طیب اردوان کہتے ہیں کہ وہ اس وقت کم عمر تھے جب انہیں عدنان مندریس کو پھانسی دیے جانے کی خبر ملی‘ یہ خبر سن کر اُس وقت وہ بہت روئے اور انہیں بہت دکھ پہنچا تھا۔ اقتدار سنبھالتے ہی اردوان نے استنبول کے اس جزیرے کو‘ جہاں عدنان مندریس کو قید رکھا گیا اور جہاں انہیں موت کی سزا دی گئی‘ اسے ''جمہوریت اور آزادی‘‘ کانام دیااور ترکی کیلئے بے مثال خدمات کے اعتراف میں عدنان مندریس کامقبرہ تعمیر کرایا۔ ترک عوام آج اس جزیرے کو اپنی آزادی کی علامت اور جمہوریت کی منزل کے نام سے پکارتے ہیں۔دنیا بھر سے سیاح عدنان مندریس کی قبر پر حاضری دیتے اور سلامِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔
2014ء میں جب طیب اردوان اپنی انتخابی مہم چلا رہے تھے تو عدنان مندریس سے متعلق ان کا کہنا تھا ''بھلے انہوں نے اپنے تئیں انہیں پھانسی دے دی مگر وہ آج بھی ہم میں موجود ہیں‘ وہ ہمارے دلوں میں زندہ ہیں‘‘۔ عدنان مندریس پر توشہ خانہ کے بکرے اور دیگر مقدمات کی سیریل کی صورت میں کیا جانے والاظلم تواپنی موت مر گیا لیکن دنیا بھر میں جمہوریت اور آزادی کے تحفظ کے باب میں ایک نئی مثال قائم کر گیا کہ تاریخ آج عدنان مندریس کے بارے میں کیا کہتی ہے‘ ترک عوام ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں جبکہ مندریس کو پھانسی کی سزا سنانے والے اور ان کو پھانسی دینے والوں کے نام بھی کوئی نہیں جانتا۔ آج بھی مندریس کی قبر پر عقیدت کے پھول چڑھتے ہیں اورپھانسی کی صورت میں دی جانے والی ان کی قربانی کی شمع روشنی بن کر اس جزیرے سمیت پورے ترکیہ کو منور کر تی رہتی ہے۔