اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کو جیل مینوئل کے مطابق سہولتوں کی فراہمی کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی جیل مینوئل کے مطابق جن سہولتوں کے حقدار ہیں‘ وہ تمام سہولتیں انہیں فراہم کی جائیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم کو توشہ خانہ کیس میں تین سال قید اور جرمانے کی سزا سنائے جانے کے بعد لاہور میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر کے صوبہ پنجاب کے سرحدی ضلع اٹک کی جیل میں منتقل کیا گیا تھا۔ عوامی سطح پر یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ توشہ خانہ کیس کے اسیر کیلئے اڈیالہ کو چھوڑ کر اٹک جیل کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا؟ ظاہری بات ہے کہ یہ فیصلہ جنہوں نے کیا وہی بتا سکتے ہیں کہ اس اقدام میں کیا اچھا ہے اور کیا برا؟ ابتدائی طور پر رخصت ہونے والی حکومت کے وزرا کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ سکیورٹی مسائل کی وجہ سے اڈیالہ جیل منتقل نہیں کیا گیا اور اٹک جیل کا انتخاب کیا گیا۔ حالانکہ یارانِ نکتہ ور بتاتے ہیں کہ اٹک جیل سہولتوں کے اعتبار سے پسماندہ ترین جیلوں میں سے ایک ہے اور اس کی پسماندگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس پوری جیل میں ایک بھی بیرک ایسی نہیں جسے اے کلاس کا درجہ دیا جا سکے‘ اے کلاس تو دور‘ یہاں بی کلاس بھی موجود نہیں ہے۔ پوری جیل میں اے سی کی سہولت نہیں ہے جبکہ بجلی کی گھنٹوں کی بندش بھی روز کا معمول ہے۔ سب سے بڑھ کر جیل کا کھانا‘ جس کے حوالے سے درخواست زیرِ سماعت ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین کو گھر کے کھانے کی سہولت فراہم کی جائے۔
پنجاب کی جیلوں میں قیدیوں کو تین کیٹیگریز میں رکھا جاتا ہے۔سب سے نچلی ہے سی کلاس‘ جسے کامن کیٹیگری بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں ان خطرناک قیدیوں کو رکھا جاتا ہے جو قتل، ڈکیتی، چوری، لڑائی جھگڑے جیسے سنگین یا دیگر معمولی نوعیت کے مقدمات میں سزا یافتہ ہوں۔ بی یعنی بیٹر (بہتر) کیٹیگری میں اُن قیدیوں کو رکھا جاتا ہے جو قتل اور لڑائی جھگڑے کے مقدمات میں تو ملوث ہوں؛ تاہم عمومی طور پر وہ اچھی شہرت کے حامل ہوں اور تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھتے ہوں۔ اس کے علاوہ گریجوایشن پاس ہر قیدی بی کلاس لینے کا اہل سمجھا جاتا ہے۔ جیل حکام کے مطابق اے کلاس کیٹیگری اعلیٰ سرکاری افسران کے علاوہ، سیاستدانوں، سابق وزرا اور اُن قیدیوں کو دی جاتی ہے جو زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہوں۔ جیل کے مروجہ قوانین کے مطابق چیئرمین تحریک انصاف سابق وزیراعظم ہونے کی بنا پر ہر لحاظ سے اے کلاس کیٹیگری کے حامل ہیں لیکن اٹک جیل کے وارڈن کے مطابق اس پوری جیل میں اے تو دور‘ بی کلاس کیٹیگری کی سہولت بھی دستیاب نہیں ہے۔ یہاں ان (سابق) وزرا کے دعووں کی قلعی کھل جاتی ہے جو کہتے تھے کہ سابق وزیراعظم کو جیل میں بی کلاس کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ جس جیل میں بی کلاس سرے سے موجود ہی نہیں‘ وہاں بی کلاس کی سہولت فراہم کرنے کا دعویٰ؟ایک ایسی جیل جہاں پہلے ہی گنجائش سے کہیں زیادہ قیدی موجود ہیں‘ وہاں سابق وزیراعظم کو منتقل کرنا کسی خاص مقصد کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ پنجاب کے محکمۂ جیل خانہ جات کی ویب سائٹ کے مطابق اٹک جیل میں 539 قیدی رکھنے کی گنجائش ہے جبکہ اس وقت وہاں 800 سے زائد افراد قید ہیں۔ جب سے چیئرمین پی ٹی آئی اٹک جیل میں گئے ہیں‘ ہر روز درجنوں قیدیوں کو یہاں سے منتقل کرنے کی خبریں آ رہی ہیں، ہفتہ 12 اگست کو بھی 85 قیدیوں کو اڈیالہ منتقل کیا گیا‘ جس کی وجہ گنجائش سے زیادہ قیدی بتائی گئی ہے؛ تاہم کچھ حلقے اس کے اسباب کچھ اور بتاتے ہیں۔بہرکیف صوبہ پنجاب میں کل 42 جیلیں ہیں جن میں صرف دو جیلیں ایسی ہیں جہاں پر قیدیوں کے لیے اے کلاس کی سہولتیں مہیا کی گئی ہیں‘ ان میں بہاولپور جیل اور راولپنڈی کی اڈیالہ جیل شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر سیاسی قیدیوں کو اڈیالہ جیل منتقل کیا جاتا ہے۔
خان صاحب کو اٹک جیل بھیجا جانا تھا کہ کتنی ہی پرانی کتابیں بھی کھلنا شروع ہو گئیں۔ کوئی اٹک جیل کی مناسبت سے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا حوالہ دے رہا ہے کہ وہ بھی یہاں قید کاٹ چکے ہیں (میاں صاحب اٹک جیل نہیں‘ اٹک قلعہ میں قید رہے)۔ اسی اٹک جیل میں قید رہنے والے والے زرداری صاحب کو مردِ حر اور سب پر بھاری کا خطاب دیا گیا تھا۔ اپنی زندگی کے نجانے کتنے ایام وہ یہاں گزار چکے ہیں۔ پھر وہ لانڈھی جیل کے مکین بھی رہے۔ سیاست دانوں اور جیل کے تعلق کی مناسبت سے کہا جاتا ہے کہ جب اوکھلی میں دیا سر تو پھر دَھمکوں سے کیا ڈرنا! یعنی اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے‘ وزیر باتدبیر کی کرسی پر بیٹھنا ہے‘ اگر گاڑی پر سبز ہلالی پرچم لہرانا ہے‘ اگر شاہی تاج پہننا ہے تو پھر یہاں کے دیگر رِیت رواجوں کیلئے بھی تیار رہنا چاہئے۔ گزشتہ کئی دہائیوں کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ آپ وزیراعظم بھی بنیں اور جیلوں میں نہ جائیں‘ یہ ناممکنات میں سے ہے۔
1990ء کی دہائی سے ملک میں ایسا کون سا وزیراعظم آیا ہے جسے جیل میں رات نہ گزارنا پڑی ہو۔ (شوکت عزیز ایک استثنائی کیس ہے، وہ وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھانے ملک میں آئے اور اقتدار کے ختم ہوتے ہی ملک سے روانہ ہو گئے اور کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا)۔ شاید سیاستدان اقتدار کی ایک ریس میں ملک کے پہلے وزیراعظم سے آج تک کی تاریخ سے کچھ سبق سیکھ لیتے لیکن کہتے ہیں نا کہ ''چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافرلگی ہوئی‘‘۔ اقتدار میں بھی شاید کچھ ایسی ہی کشش ہے کہ اس کے بغیر رہا بھی نہیں جاتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں شاید سیاست دانوں کا اتنا قصور نہیں ہے۔ اپنی میڈیا سے وابستہ زندگی کے تین‘ چار عشروں میں جب کبھی ایوانِ صدر، وزیراعظم ہائوس یا دیگر حکومتی ایوانوں میں جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں چند گھنٹے گزارنے اور وہاں ملنے والا پروٹوکول دیکھنے کے بعد کئی کئی دن تک ہم بھی خود کو ہوائوں میں اڑتا محسوس کرتے رہے۔ اب سوچئے کہ وہاں کے میکنوں کی کیفیت کیا ہوتی ہو گی۔
اگر بی کلاس جیل کی بات کی جائے تو پاکستان پرزنز رول 1978ء میں بنائے گئے جیل مینوئل کے مطابق کسی بھی موجودہ یا سابق رکن اسمبلی، سکیل 17 یا اس سے زائد گریڈ کے افسر اور سالانہ چھ لاکھ روپے ٹیکس ادا کرنے والے اس سہولت کے حقدار ہوتے ہیں؛ البتہ نہایت سنگین جرائم میں سزا پانے والوں کا یہ حق ضبط کیا جا سکتا ہے۔ بی کلاس میں قیدیوں کو بیرک سے ملحق علیحدہ کمرہ دیا جاتا ہے، جس کے آگے ایک چھوٹا احاطہ بھی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کمرے میں ٹی وی، علیحدہ واش روم ،صابن، تولیا، بیڈ، میٹرس مع بیڈ شیٹ، ٹیبل، کرسی، ٹیبل لیمپ، اخبار اور ایک مشقتی دیا جاتا ہے۔ جیل سپرنٹنڈنٹ اپنی صوابدید پر مشتقیوں کی تعداد دو بھی کر سکتا ہے۔ بی کلاس میں قیدیوں کو ناشتہ، دوپہر اور رات کا کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ اسی طرح قیدیوں کو سپیشل کلاس سہولت بھی فراہم کی جا سکتی ہے جس میں کسی بھی جگہ کو سب جیل کا درجہ دے کر ملزم یا مجرم کو رکھا جاتا ہے؛ تاہم اس کی اجازت عدالت سے حاصل کرنا ضروری ہے۔
اگر اٹک جیل کے موازنے کے حوالے سے میاں نواز شریف کی بات کی جائے تو جیسا پہلے کہا گیا کہ وہ اٹک جیل کے بجائے اٹک کے اس قلعے میں رکھے گئے تھے‘ دریائے سندھ جس سے ٹکرا کر گزرتا ہے۔ مسلم لیگ نواز کی طرف سے بار بار یہ الزام کہا جاتا ہے کہ مشرف حکومت میں میاں صاحب کے ساتھ جیل میں بدسلوکی کی جاتی تھی‘ انہیں کھانے کو دال روٹی ملتی تھی۔ اٹک قلعہ میں ان کی سکیورٹی پر متعین ایس ایس جی کے ایک افسر‘ جو بعد میں کرنل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور آرمی ہائوس میں جنرل پرویز مشرف کے ساتھ تعینات رہے‘ ان سے جب راقم نے یہ سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ کہاں کی دال روٹی؟ ان کے بقول جب میاں صاحب اٹک قلعہ میں قید تھے تو ان کی خصوصی فرمائش پر وہاں سینڈوچ تیار کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اٹک قلعہ میں ہر روز ان کے کمرے میں موجود برف کا ایک بڑا ٹب بہترین پھلوں اور جوسز کے ڈبوں سے بھرا جاتا تھا جو اگلے دن صبح تک مکمل خالی ہو جاتا اور اگلی صبح اسے دوبارہ بھر دیا جاتا۔ مذکورہ افسر کے مطابق اٹک قلعے میں تمام کھانے میاں صاحب کی پسند اور ہدایات کے مطابق تیار کیے جاتے تھے۔
اسی طرح گزشتہ دورِ حکومت میں جیل میں میاں صاحب کو اے سی، مشقتی، اخبار، ٹی وی اور گھر کے کھانے کی سہولت میسر تھی۔ جولائی 2019ء میں دورۂ امریکہ کے دوران خان صاحب نے نواز شریف سے جیل میں اے سی کی سہولت واپس لینے کا اعلان کیا تو ساتھ ہی صدر مسلم لیگ نواز اور اس وقت کے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی جانب سے ایک خط سیکرٹری پنجاب کو ارسال کیا گیا جس میں میاں صاحب کی میڈیکل رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ''اگر نواز شریف کے جیل میں موجود کمرے سے اے سی اتارا گیا تو ان کے گردے فیل ہو سکتے ہیں‘‘۔ (ڈان، 27 جولائی 2019ء)