ملک بھر میں76 واں یومِ آزادی ملی جوش و جذبے کے ساتھ منایا گیا۔ دن کا آغاز توپوں کی سلامی سے ہوا۔ ملکی ترقی‘ امن اور خوشحالی کے لیے خصوصی دعائیں مانگی گئیں۔ جشن آزادی کے موقع پر عوام نے رنگ برنگی روشنیوں‘ ہری بھری جھنڈیوں اور جھنڈوں سے پورا دیس سجا دیا۔ ہر سرکاری عمارت قومی پرچم کے رنگوں میں نہائی ہوئی تھی۔ ہر گھر پر قومی پرچم لہرا رہا تھا۔ یومِ آزادی کی تقاریب میں بچوں‘ نوجوانوں‘بزرگ اور خواتین نے بھرپور شرکت کی لیکن اس بھرپور گہما گہمی کے باوجود یومِ آزادی پر ایک ادھورا پن اپنے حصار میں لیے ہوئے تھا۔
قائداعظم ہوں یا تحریک آزادی کے دیگر رہنما‘ ہر کسی نے کشمیر اور پاکستان کو لازم و ملزوم قرار دیا۔ یہی موقف موجودہ سیاسی قیادت کا بھی ہے۔ کشمیر کے ساتھ قائداعظم کے قلبی تعلق کا آغاز تحریک پاکستان کی صورت گری سے قبل ہی ہو چکا تھا۔ جموں و کشمیر کی تاریخ پر اتھارٹی‘ جسٹس یوسف صراف لکھتے ہیں کہ 1932ء میں قائداعظم اگرچہ سرینگر سیر وسیاحت کی غرض سے آئے لیکن اس دورے میں مسلم کانفرنس کی دعوت پر قائداعظم نے سرینگر کی پتھر مسجد میں جلسۂ میلاد کی صدارت کی۔ چودھری غلام عباس ان دنوں مسلم کانفرنس کے صدر تھے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں قائداعظم کی شخصیت اور مسلمانوں کے لیے ان کی دلیرانہ جدوجہد کا تفصیل سے ذکر کیا۔ قائداعظم نے اپنے خطاب میں فرمایا: ''مجھے جموں و کشمیر کے عوام کی بیداری دیکھ کر خوشی ہورہی ہے۔ ایک آزادی پسند‘ جو اپنے عوام کی آزادی کے لیے چوبیس گھنٹے جدوجہد کرتا ہے‘ لازمی طور پر آپ کی کاوشوں کا خیر مقدم کرے گا۔ میں آپ کی تحریک کی مکمل حمایت کا یقین دلاتا ہوں‘‘۔ قائداعظم آخری مرتبہ 1944ء میں نیشنل کانفرنس اورمسلم کانفرنس کی مشترکہ دعوت پر جموں کے راستے سرینگر کے لیے روانہ ہوئے۔ سوچیت گڑھ سے جموں تک 18کلو میڑ کا فاصلہ انہوں نے کھلی کار میں طے کیا۔ چودھری غلام عباس ان کے ساتھ بیٹھے تھے۔ چودھری غلام عباس نے اپنی کتاب ''کشمکش‘‘ میں اس دن کو یاد کرتے ہوئے لکھا: جلوس کے راستوں کو اس آب وتاب‘ سج دھج اور اہتمام سے آراستہ کیا گیا تھا کہ ایسی تیاری مہا راجہ ہری سنگھ اور اس کے باپ داداؤں کی رسم تاج پوشی پر بھی نہ کی گئی ہوگی۔ استقبال سے قائداعظم بہت مسرور نظر آتے تھے۔ ان پر اس قدر گل پاشی کی گئی کہ قائداعظم بھی‘ جو عمومی طور پر اپنے جذبات دبا کررکھتے تھے‘ نے کہا: یہ سب جنت سے کم نہیں۔ اگلے روز ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا: ہندوستان کے دس کروڑ مسلمان جموں وکشمیر کے لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔وہ آپ کی خوشی اور غمی میں شریک ہیں۔
بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ ان کا مؤقف کشمیر کے حوالے سے بالکل واضح اور غیر مبہم تھا۔ قائداعظم مسئلہ کشمیر کا حل کشمیریوں کی منشا کے مطابق چاہتے تھے۔ اس میں کوئی دو آرا نہیں کہ کشمیریوں کے دل 1947ء سے پہلے اور بعد میں بھی پاکستان کے ساتھ دھڑکتے تھے اور آج بھی دھڑکتے ہیں۔ لیکن تقسیم کے وقت ڈوگرہ حکمرانوں‘ کا نگریسی رہنمائوں اور سب سے بڑھ کر برطانوی وائسرائے کی ملی بھگت کی وجہ سے جموں و کشمیر آج بھارتی افواج کے غاصبانہ قبضے میں ہے۔ اس کے باوجود کہ 1948ء میں بھارت کے اس وقت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو خود مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ میں لے کر گئے تھے جہاں کثرتِ رائے سے قرار داد منظور کی گئی تھی اور کشمیری عوام کو استصوابِ رائے سے اس مسئلے کو حل کرنے کا حق دیا گیا تھا۔ اسی طرح جواہر لال نہرو نے ریاستِ کشمیر میں کھڑے ہو کر کشمیری عوام سے حقِ رائے دہی دینے کا وعدہ کیا تھا جبکہ نہرو کابینہ کے وزیر تعلیم ابو الکلام آزاد نے1951ء میں ایران میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نہرو حکومت کی طرف سے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ ''ہر حال میں کشمیری عوام کی خواہشات کا احترام کیا جائے گا اور یہ فیصلہ کشمیر کے عوام ہی کریں گے کہ وہ بھارت یا پاکستان‘ کس کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں‘‘ مگر بھارت آج بھی کہہ مکرنی کی روش پر قائم ہے۔
تین جون 1947ء کے منصوبۂ آزادیٔ ہند کے مطابق یہ بات واضح تھی کہ جنت نظیر وادی کشمیر پاکستان کا حصہ بنے گی لیکن جب کشمیر یوں کو حقِ خود ارادیت کا مو قع نہ دیا گیا تو کشمیریوں نے قیام پا کستان سے قبل 19جو لا ئی 1947ء کو الحاقِ پاکستان کی قرار داد منظور کی، بعد میں 24اکتوبر 1947ء کو سردار محمد ابراہیم کی قیادت میں لاٹھیوں‘ کلہاڑیوں اور ڈنڈوں کے ذریعے ڈوگرہ فوج سے آزاد کردہ علاقے میں آزاد کشمیر حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ پاکستان کے ابتدائی مسائل و مشکلات میں مسئلہ کشمیر کی حساسیت‘ اہمیت اور سنگین صورتحال سے قائداعظم بخوبی آگاہ تھے انہوں نے مسئلہ کشمیر کو ایک سیاسی اور انسانی مسئلہ کے طور پر لے کر اس کے مستقل حل کے لیے مربوط پالیسی وضع کی۔ اکتوبر 1947ء میں قائداعظم نے مسئلہ کشمیر پر بات چیت کے لیے لارڈ مائونٹ بیٹن اور جواہر لال نہرو کولا ہور آنے کی دعوت دی‘ دونوں نے دعوت قبول کی مگر نہرو نے بعد میں بیماری کا بہانہ بنا کر آنے سے معذر ت کر لی۔ ماؤنٹ بیٹن سے ہوئی ملاقات‘ جو ساڑھے تین گھنٹے تک جاری رہی‘ میں قائداعظم نے باور کرایا کہ کشمیر پر بھارت کا قبضہ پاکستان کے لیے کسی صورت قابلِ قبول نہ ہوگا۔ مسئلہ کشمیر کا حل پاکستان اور بھارت کی مخلصانہ کوششوں ہی سے نکل سکتا ہے مگرنہرو قائداعظم کی تجویر پر غور کرنے کے بجائے2نومبر 1947ء کو مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں لے گیا اور اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر کو رائے شماری سے حل کرنے کی قرار داد منظورکی جس پر دونوں ممالک نے اتفاق کیا۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور مکار بھارتی قیادت کے وعدوں کے باوجود کشمیریوں کا حق خودارادیت آج تک سوالیہ نشان کی صورت میں اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے۔
اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں تسلیم کیا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جس پر بھارتی قانون لاگو نہیں ہوتا لیکن بھارت نے پانچ اگست 2019ء کو ہٹ دھرمی سے آرٹیکل 370اور 35اے منسوخ کرکے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی کی۔کشمیریوں پر عرصۂ حیات تنگ کیے رکھے۔ مہینوں تک وہاں کرفیو نافذ رہا اور یہ قطعہ ارضی دیگر دنیا سے کٹ کر رہ گیا۔ مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت میں بھارتی حکومت کی اس غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر منصفانہ مداخلت کو چار سال گزر چکے ہیں لیکن اور ہر گزرتے دن کے ساتھ بھارتی فوج کی جارحیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
اہلِ کشمیر سات دہائیوں سے بھی زائد عرصہ سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہیں اور اس دوران کشمیریوں کی ہر نسل پہلے سے بڑھ کر جذبۂ حریت اور قربانی سے سرشار نظر آتی ہے لیکن اب پاکستانی حکمرانوں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عالمی فورموں پر مسئلہ کشمیر اس انداز سے اٹھائیں کہ اقوام متحدہ اپنی قرار دادوں پر عملدرآمد کرانے پر مجبور ہو جائے۔ ہمارے حکمران کب اس حوالے سے سنجیدہ رویہ اختیار کریں گے‘ کب انہیں یہ احساس ہو گا کہ پاکستان کشمیر کے بغیر ادھورا ہے اور کشمیر پاکستان کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب تک کشمیر کا الحاق پاکستان سے نہیں ہو جاتا‘ برصغیر کی تقسیم کا ایجنڈا نامکمل اور ہماری آزادی ادھوری رہے گی۔