دریاؤں اور سمندروں کے ٹھاٹھیں مارتے پانی میں تیرنے والی کشتیاں اُسی وقت تک ہی تیر سکتی ہیں جب تک کہ یہ پانی اُن میں داخل نہ ہو جائے۔ ادھر پانی کشتی میں داخل ہوا اور اُدھر وہ ڈوب گئی۔ کشتی کے ڈوبنے کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں مثلاً اس میں پہلے سے کوئی سوراخ تھا جسے دیکھنے سے قبل ہی کشتی پانی میں اُتار لی گئی۔ اُس سوراخ سے آہستہ آہستہ پانی کشتی میں داخل ہوتا رہا اور بالآخر کشتی ڈوب گئی۔ یا پھر دورانِ سفر کسی حادثے کی وجہ سے کشتی میں کوئی سوراخ ہوا جسے یہ کہہ کر نظر انداز کر دیا گیا کہ یہ تو چھوٹا سا سوراخ ہے‘ اس سے کشتی کہاں ڈوب سکتی ہے لیکن وہ چھوٹا سا سوراخ بھی بڑے نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کشتی اچھی بھلی اپنی منزل کی جانب گامزن ہے‘ دور دور تک کوئی طوفان بھی دکھائی نہیں دے رہا لیکن اس پر سوار لوگ جان بوجھ کر اُچھل کود کر رہے ہیں‘ کبھی اُس کا رُخ گہرے پانیوں کی طرف موڑ رہے ہیں‘ کبھی اُسے پانی میں موجود اُن چٹانوں سے ٹکرا رہے ہیں جن سے بچ کر بھی کشتی وہاں سے گزر سکتی ہے تو ایسے میں طے ہے کہ یہ کشتی ڈوب جائے گی۔ یہی مثال ایک گھر کی ہے۔ کوئی گھر کتنا ہی مضبوط اور محفوظ کیوں نہ ہو جب اس کے مکین اندر سے ہی اس کی بنیادی کھوکھلی کرنے لگیں تو یہ بیرونی آفتوں کا سامنا کیسے کر سکتا ہے۔ گھر کے مکین جب خود ہی اس کے دروازے‘ کھڑکیاں اور شیشے توڑنا شروع کر دیں گے تو ان ٹوٹے دروازوں اور کھڑکیوں سے چور آسانی سے گھر میں داخل ہو جائیں گے۔ پاکستان ہمارا گھر ہے لیکن ہم اپنے رویوں‘ اپنی کم عقلی کی وجہ سے اورذاتی مفادات کی جنگ کی مصروف ہوکر خودی اس کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کے باوجود ان کا مستقل حل سوچنے کے بجائے سیاستدان آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ ایک جماعت‘ جب حکومت میں ہوتی ہے تو اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بناتی ہے اور جب انہی مخالف جماعتوں میں سے کوئی مسندِ اقتدار پر براجمان ہوتی ہے تو اپنے سے پہلے حکومت میں رہنے والی جماعت کے لیے زمین تنگ کر دیتی ہے۔ یہ روش کب تک چلے گی۔ کب تک ہم ذاتی مفادات کی جنگ میں ملکی مفادات کو نقصان پہنچاتے رہیں گے۔ کب تک ہماری نا اتفاقی کی وجہ سے بیرونی عناصر فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔ ذاتی مفادات کی اسی جنگ نے ملکی معیشت کو بھی پاتال سے لگا دیا ہے۔ قرضوں کے انبار لگتے جا رہے ہیں۔توانائی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے بعد صنعتی پہیہ جمود کا شکار ہوتا نظرآ رہا ہے۔عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا محال ہو چکا ہے لیکن پھر بھی یہاں کسے کوئی پروا ہے۔بھارت بہت جلد ستائیس سمارٹ سٹیز اور دو نئی پورٹس تعمیر کرنے جا رہا ہے لیکن ہم اپنے شہریوں کو ابھی تک بنیادی سہولتیں فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ یہاں سبھی جماعتیں اقتدار کا مزہ لوٹ چکی ہیں‘ ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ملکی معیشت تباہ کرنے کے بعد بھی جب ان کی تسلی نہیں ہوتی تو ذاتی مفادات کی ایسی جنگ چھیڑ دی جاتی ہے کہ خدا کی پناہ۔ جس طرح کشتی میں سوراخ کرنے والے شاید یہ نہیں جانتے کہ اگر کشتی ڈوبے گی تو وہ بھی ساتھ ہی ڈوب جائیں گے‘ اور جس طرح گھر کی بنیادیں کھوکھلی کرنے والے‘ اس کی کھڑکیاں دروازے توڑنے والے یہ نہیں جانتے کے گھر کا ملبہ بنتے ہی وہ بھی کھلے آسمان تلے ہوں گے ‘ اسی طرح شاید ہمارے سیاستدان بھی بھول چکے ہیں کہ اُن کا وجود‘ اُن کی عیاشیاں‘ اُن کا تام جھام سب کچھ پاکستان کے دم سے ہے۔ جوشِ انتقام میں سیاستدان دشمن کے ایجنڈے اور منظم پراپیگنڈے کو غیر محسوس طریقوں سے آگے بڑھانے میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ وہ شاید اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ ان کے خاندان امریکہ اور یورپ میں مستقل سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں‘ وہ بھی وہیں جا بسیں گے لیکن انہیں کون بتائے کہ اصلی گھر وہی ہوتا ہے جو اپنا ہوتا ہے‘ نقل مکانی اور ترکِ سکونت کسی وقت گلے تک آ سکتی ہے اور اس کا نظارہ امریکہ اور یورپی ممالک میں نظر آنا شروع ہو چکا ہے اسے ابتدا سمجھ لیجئے۔
وہ شاید وقت گزر جانے سے یہ بھول گئے ہیں کہ ایک وقت میں بھارت نے پاکستان کی سرحدوں سے منسلک سکیورٹی کے لحاظ سے چار انتہائی اہم اور حساس مقامات پر لگائی گئی باڑوں کو کاٹناشروع کر دیا تھا‘ ان مقامات میں ہارون آباد‘ چونڈہ‘ سیالکوٹ اور لائن آف کنٹرول کے علاقے شامل تھے۔ اُس وقت اندازہ کیاجا رہا تھا کہ بھارتLOC کا دھوکا دے کر بہاولنگر کے فورٹ عباس‘ ہارون آباد یا رحیم یار خان سے حملہ کر سکتا ہے ۔ بین الاقوامی میڈیا اس وقت رپورٹ کر رہا تھا کہ بھارت نے اپنی سرحدی مقامات پر براہموس، سپائیک اورS300 میزائلوں کی تنصیب شروع کر رکھی ہے۔نیٹو فورسز اس میزائل کوS10-Grumbleکے نام سے پکارتی ہیں جنہیں زمین سے فضا میں مار کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اکنامک ٹائمز نے اپنی اکتوبر2018 کی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ اسرائیلی حکومت بھارتی نیوی کو بظاہر چین کی نیوی اور اس کی پھیلتی ہوئی سمندری حدود کا مقابلہ کرنے کیلئے اس کے جنگی جہازوں کیلئے 777 ملین ڈالر کے BARAK LR-8-SAM میزائل فراہم کرنے جا رہا ہے ۔ چین کا تو صرف نام ہی تھا‘ اصل ہدف اور نشانہ پاکستان تھا۔
یہ شک اب یقین میں بدل چکا ہے کہ نریندر مودی کی راشٹریہ سیوک سنگھ حکومت اپنے اگلے الیکشن میں کامیابی کے لیے بھارت میں ہندو مسلم فسادات کو ہوا دینے کے ساتھ ساتھ پاکستانی سرحدوں پر بھی کوئی ایڈوینچر کر سکتی ہے۔ یاد رہے کہ جب اسرائیلی وزیر اعظم نے بھارت کا دورہ کیا تو عالمی مارکیٹ میں خبریں گردش کرنا شروع ہو گئیں کہ بھارت اسرائیل سے اسلحہ کے کچھ خاص حصوں کی خریداری میں عجلت کا مظاہرہ کر رہا ہے‘ جس پر بھارت اور اسرائیل میں مقیم دنیا کے مختلف ممالک کے دفاعی اتاشی حیران تھے کہ بھارتی فوج کوآخر کیا ایمر جنسی آن پڑی ہے کہ وہ اسرائیل سے240 اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل خریدنے کیلئے بیتاب ہے۔یہ اسلحہ خریدنے کی بطورِ خاص منظوری 13 سے17 اپریل2019ء تک جاری رہنے والی انڈین آرمی کی ششماہی کور کمانڈرز کانفرنس میں دی گئی۔یہ وہ وقت تھا جب پلوامہ کے بدلے میں ستائیس فروری کو بھارت فضائی حملوں میں ناکامی کے صورت میں اپنے دو مگ تباہ کرانے اور ابھینندن کی ہزیمت اٹھانے کے بعد پاکستان کو سبق سکھانے کی تیاریاں کر رہا تھا۔
چانکیہ کی سب سے خطرناک چال دشمن پر حملہ کرنے سے پہلے اسے اندر سے کمزور کرنا ہے۔گزشتہ چند ماہ سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں جاری دہشت گردی کی لہر کے پیچھے بھارتی ہاتھ ہی ہو سکتا ہے۔بھارت بلوچستان کے علیحدگی پسندوں اور ان کے معاون دہشت گردوں کا گٹھ جوڑ بھی کسی خاص وقت کیلئے تیار کررہا ہے۔ اس لیے ہر ذی شعور کو سوچنا ہو گا کہ بھارت کی ممکنہ جارحیت سے پہلے ملکی سرحدوں پر مورچہ زن افواج پر سنگ باری آخر بے وجہ تو نہیں ہو سکتی؟ نریندر مودی کے اپنی جنتا کے سامنے دیے جانے والے بیانات کی طرف مت جائیے کہ پاکستان کا اب ہم سے کیا مقابلہ‘ وہ تو جن مسائل کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر لا چکا ہے اسی بوجھ تلے دبتا چلا جائے گا‘ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں جبکہ اندر سے وہ اِس گھر کی ایک ایک بنیاد میں‘ ایک ایک دیوار میں دیمک کے ڈھیر لگاتا جا رہا ہے۔ یاد رکھیے گا کہ چانکیہ اپنے دشمن پر حملے سے پہلے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اس میں سوراخ کرانے کی کوشش کرتا ہے ۔اگر سوراخ کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے تو پھر کشتی میں دھینگا مشتی کراتے ہوئے اس کا توازن خراب کرتا ہے‘ تاکہ کشتی کو غرق کیا جا سکے۔