امریکی صدر نکسن نے امریکی انٹیلی جنس اداروں کو اسلام سے متعلق کچھ موضوعات پر تحقیق کرنے کا حکم دیا ، انٹیلی جنس اداروں نے جو تحقیقاتی رپورٹ پیش کی‘ وہ خاصی طویل تھی لہٰذا صدر نکسن نے اس تحقیق کا خلاصہ کرنے کا کام اپنے مشیر برائے امورِ خارجہ اور امریکی سلامتی کونسل کے ڈپٹی ڈائریکٹر رابرٹ ڈکسن کرین کے سپرد کر دیا۔ رابرٹ ڈکسن کا شمار امریکہ کے معروف سیاسی ماہرین اور ادیبوں میں ہوتا تھا، وہ چھ مختلف زبانوں پر عبور رکھتے تھے، بین الاقوامی قانون پبلک لا میں ڈاکٹریٹ ڈگری کے حامل تھے۔ رابرٹ کرین نے امریکی انٹیلی جنس تحقیق کو پڑھا تو انہیں کچھ امور سے متعلق مزید جاننے کی جستجو پیدا ہوئی لہٰذا انہوں نے اسلامی سیمینارز اور لیکچرز میں شرکت کرنا شروع کر دی۔ رابرٹ ڈکسن کے بقول‘ ہارورڈ یونیورسٹی میں تین سال کی تعلیم کے دوران قوانین میں ایک جگہ بھی لفظ ''انصاف‘‘ نہیں ملا مگر جب میں نے اسلام پر ریسرچ کی تو مجھے جسٹس یعنی انصاف کا لفظ کثرت سے ملا۔ ڈاکٹر رابرٹ کرین نے 1981ء میں باقاعدہ طور پر اسلام قبول کیا اور اپنا نام حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نسبت سے فاروق عبدالحق رکھا۔ 1981ء میں انہیں صدر ریگن نے متحدہ عرب امارات میں سفیر مقرر کیا اور یہ پہلے مسلم امریکی سفیر تھے۔ ڈاکٹر رابرٹ نے انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ جیسے اداروں کی بنیاد بھی رکھی۔ وہ اکثر یہ واقعہ سناتے کہ ایک مکالمے کے دوران یہودی قانون کے پروفیسر سے انہوں نے پوچھا کہ امریکی آئین میں وراثت کا قانون کتنا طویل ہے؟ یہودی پروفیسر نے کہا: آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر رابرٹ نے کہا: اگر میں محض دس سطروں پر مشتمل قانونِ وراثت دکھائوں تو؟ اس پر وہ پروفیسر بولا کہ یہ ناممکن ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر رابرٹ نے قرآن مجید کی آیاتِ وراثت اس یہودی پروفیسر کو دیں‘ کئی دنوں کی تحقیق کے بعد وہ ان کے پاس آیا اور بولا: اتنی جامعیت اور انصاف کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے وراثت کی تقسیم کا اس سے بہتر کوئی قانون نہیں ہو سکتا۔ یہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں، یقینا یہ خدا کا کلام ہے۔ وہ یہودی پروفیسر بھی مسلمان ہو گیا۔
دنیا کے ہر مذہب اور نظریے کے پیروکار کو اﷲ پاک چیلنج کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''تم قرآن پر غور کیوں نہیں کرتے؟‘‘۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ''کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے انہیں جدا جدا کر دیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں‘ پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے؟‘‘ (سورۃ الانبیا: 30)۔ قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ نے چودہ سو سال قبل ہی کھول کھول کر بتا دیا کہ یہ کائنات، زمین و آسمان اور سیارے کس طرح وجود میں آئے‘ Big Bang اور Great Explosion کی تھیوریز تو پچھلی صدی کی بات ہیں۔
1977ء میں ٹورنٹو یونیورسٹی کے علمِ ریاضی اور منطق کے پروفیسر گیری ملر (Gary Miller) نے فیصلہ کیا کہ وہ عیسائیت کی تبلیغ کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیں گے اور کوئی ایسا کام کریں گے جس سے تبلیغ کے کام میں آسانی ہو۔ اسی دوران انہوں نے قرآن پاک کا یہ چیلنج سنا کہ ''بھلا یہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کا (کلام) ہوتا تو اس میں (بہت سا) اختلاف پاتے‘‘ (النساء: 82) گیری ملر نے سوچا کہ وہ جدید دنیا کی سائنسی تھیوریز اور علمِ ریاضی پر قرآن مجید کو پرکھیں گے تاکہ چودہ سو سال پرانی کتاب کی غلطیاں سامنے لائیں اور یہ تحقیق مسلمانوں کو عیسائیت کی طرف لانے میں بہت مددگار ہو گی۔ اس وقت گیری ملر کے ذہن میں قرآن سے متعلق یہ مفروضہ تھا کہ یہ باقی کتب کی طرح ایک مذہبی کتاب ہے جو چودہ سو سال قبل لکھی گئی۔ ظاہری بات ہے کہ چودہ سو سال میں سائنسی تحقیقات کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہیں‘ لہٰذا ضرور اس میں ایسی باتیں ہوں گی جو آج غلط ثابت ہو چکی ہیں، جیسے عیسائیت کی کچھ قدیمی کتب میں مرقوم ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی میں ڈائنوسارز بھی سوار تھے، حالانکہ آج یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ڈائنو سارز قریب چھ کروڑ سال قبل معدوم ہو گئے تھے جبکہ طوفانِ نوح لگ بھگ پانچ ہزار سال پرانا واقعہ ہے۔ بہرکیف پروفیسر گیری ملر نے ریسرچ شروع کی اور پھر اپنی تمام تر تحقیقات کو ''The Amazing Quran‘‘ نامی کتاب میں دنیا کے سامنے پیش اور تسلیم کیا کہ یہ قرآن کسی انسان کا نہیں بلکہ خدا کا کلام ہے۔ گیری ملر کے بقول ''کوئی مصنف ایسا نہیں ملے گا جو ایک کتاب لکھے اور پھر سب کو چیلنج کرے کہ یہ کتاب غلطیوں سے پاک ہے۔ قرآن کا معاملہ مگر دوسرا ہے۔ یہ اپنے پڑھنے والے کو کہتا ہے کہ اس میں غلطیاں نہیں ہیں، پھر یہ تمام لوگوں کو چیلنج کرتا ہے کہ اگر تم کہتے ہو کہ اس میں غلطیاں ہیں تو یہ غلطیاں تلاش کرکے دکھا دو۔ یا تم سمجھتے ہو کہ یہ خدا کے سوا کسی دوسرے کا کلام ہے تو اس جیسی ایک سورت ہی بنا کر دکھا دو‘‘۔ اپنی کتاب میں گیری ملر نے ''سورۂ لہب‘‘ کے حوالے سے ابولہب سے متعلق یہ دلچسپ ریسرچ پیش کی کہ یہ سورۂ مبارکہ ابولہب کی موت سے کم و بیش دس سال پہلے نازل ہوئی تھی، ابولہب نبی کریمﷺ کا چچا تھا مگر اس کی ساری جدوجہد اسلام کی مخالفت میں تھی۔ وہ اس سورۃ کے نازل ہونے کے بعد بھی ایمان نہیں لایا حالانکہ اگر وہ محض دکھاوے کے لیے ہی ایمان لے آتا تو صورتحال مختلف ہو سکتی تھی مگر ایسا نہیں ہوا۔ وہ کہتا ہے کہ قرآن میں ایسے کئی واقعات ہیں جن کو پرکھنے کے بعد یہ تسلیم کیے بنا کوئی چارہ نہیں کہ یہ اس ہستی کا کلام ہے جو عالم الغیب ہے‘ جس کے پاس ماضی، حال، مستقبل سمیت ہر چیز کے حوالے سے علم ہے۔ 1977ء میں پروفیسر ملر نے معروف مسلم سکالر احمد دیدات سے ایک مشہور مناظرہ کیا، اس میں اس کا مقصد واضح تھا، وہ کسی شک و شبہ کے بغیر اسلام کی حقانیت تک پہنچنا چاہتا تھا۔ اگلے سال‘ 1978ء میں پروفیسر گیری ملر نے اسلام قبول کر لیا اور اپنا نام عبدالاحد رکھا۔ پھر اس نے کچھ عرصہ سعودی عرب کی یورنیورسٹیز میں کام کیا اور اپنی زندگی کو لیکچرز اور دعوت کے لیے وقف کر دیا۔ پروفیسر ملر کے مطابق‘ آج چودہ سو سال بعد بھی قرآن کی یہ سچائی سب کے سامنے ہے کہ یہودی کرۂ ارض پر بسنے والے تمام مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں۔ دیکھ لیجئے چودہ سو سال میں ایک بھی موقع ایسا نہیں آیا کہ یہودیوں کی مسلمانوں سے مخاصمت میں کمی آئی ہو۔ ایسا آج تک نہیں ہوا اور نہ ہی یہ کبھی ہو گا کیونکہ یہ الفاظ کسی انسان کے نہیں بلکہ اُس خدا کے ہیں جو مالکِ کائنات ہے اور جو دلوں کے بھید سب سے زیادہ جانتا اور پہچانتا ہے۔
گزشتہ چند دہائیوں میں بے شمار افراد‘ عالمی سطح پر مشہور شخصیات بھی اسلام کی خوبصورتی کو دیکھ کر اپنے آبائی مذاہب کو خیرباد کر کے دامنِ اسلام میں داخل ہوئی ہیں۔ ان میں لیجنڈری باکسر محمد علی، ہیوی ویٹ چیمپئن مائیک ٹائسن، بھارت کے معروف موسیقار اے آر رحمان، بالی وُڈ کی معروف اداکارہ شرمیلا ٹیگور، امریکی کک باکسنگ چیمپئن اینڈریو ٹیٹ، برٹش سنگر کیٹ سٹیونز (یوسف اسلام)، دنیا کے معروف پوپ گلوکار مائیکل جیکسن کی بہن جینٹ جیکسن اور بھائی جرمین جیکسن بھی شامل ہیں۔ معروف جرمن سیاستدان ارونڈ وین ڈرون جو اسلام اور مسلمانوں کا سخت ناقد تھا اور جرمنی کی اسلام مخالف پارٹی کا رکن تھا اور جو 2008ء میں اسلام مخالف فلم ''فتنہ‘‘ کا ڈسٹری بیوٹر تھا، نہ صرف وہ خود بلکہ اس کا بیٹا بھی مسلمان ہو چکا ہے اور دونوں باپ بیٹا آج اسلام کے حقیقی تشخص کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی طرح ہالینڈ کے اسلام مخالف بدنامِ زمانہ سیاستدان گیرٹ وائلڈر کے دستِ راست سمجھے جانے والے جورم کلیرن جو 2010ء سے 2017ء تک نیدرلینڈز اسمبلی کے رکن رہے ہیں‘ بھی آج مسلمان ہو چکے ہیں۔ جورم کلیرن کے مطابق‘ انہوں نے اسلام مخالف کتابیں لکھنے کا فیصلہ کیا جس کیلئے بہت سی کتابیں اکٹھی کیں، ان کے پاس اسلام مخالف بہت سی کتابیں تھیں، بائبل اور نبی کریمﷺ کی سیرت سے متعلق کتابیں بھی تھیں۔ وہ چاہتے تھے کہ اسلام کے دلائل کا جواب دلائل سے دیں لیکن قرآنِ مجید کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر خدا کا کوئی کلام اس دنیا میں موجود ہے تو وہ یہی کتاب ہے۔سوال یہ ہے کہ ہم مسلمان خدا کے اس کلام میں غور کیوں نہیں کرتے؟