ہر گزرتے دن کے ساتھ انسانی اعضا کی خرید و فروخت کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ اب تو صورتحال یہ ہے کہ انسانی اعضا کی خرید و فروخت اور پیوند کاری‘ انسانی سمگلنگ کی طرح ایک باقاعدہ دھندہ اور نفع بخش کاروبار بن چکی ہے۔ بدقسمتی سے بے شمار ڈاکٹرز اور نجی ہسپتالوں کے نام اس کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ بڑے شہروں کے نسبت یہ دھندہ چھوٹے شہروں میں زیادہ فروغ پذیر ہے۔ پنجاب میں گوجرہ سے راولپنڈی تک پولیس سٹیشنوں کا ریکارڈ چیک کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اب تک سینکڑوں گروہ محض انہی علاقوں میں گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ اس سلسلے میں گزشتہ چند برس سے حکومتوں کی جانب سے مفادِ عامہ کے تحت عوام کو خبردار بھی کیا جا رہا ہے بلکہ کچھ برس پہلے پنجاب حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایک اشتہار انتہائی اہمیت کا حامل ہے‘ جس میں ''انسانی اعضا کی خرید و فروخت‘‘ کے حوالے سے بتایا گیا تھاکہ ''مخصوص عناصر لوگوں کی غربت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے چند پیسوں کے عوض انہیں اپنے اعضا فروخت کرنے پر مجبور کرتے ہیں‘ اس لیے انسانی اعضا کے غیر قانونی کاروبار کو روکنے کیلئے قانون سازی کی گئی ہے اور نئے قانون کے تحت اس جرم میں ملوث مجرم کو دس سال قید اور دس لاکھ جرمانہ کی سزا دی جائے گی‘‘۔ اس اشتہار میں شہریوں سے یہ اپیل بھی کی گئی تھی کہ انسانی اعضا کے غیر قانونی کاروبار کی اطلاع فوری طو رپر اپنے قریبی تھانہ یا ضلعی انتظامیہ کو دی جائے۔
انسانی اعضا کی سمگلنگ کا دھندہ پوری دنیا میں پایا جاتا ہے۔ زندہ انسانوں کے ساتھ ساتھ مردہ انسانوں کے اعضا کی خرید و فروخت بھی ہوتی ہے۔ گزشتہ ماہ امریکہ کے مشہور ہاوروڈ میڈیکل کالج کے مردہ خانے کے منیجر کو انسانی اعضا کی غیر قانونی خریدو فروخت کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔مردہ خانے کا منیجر ایک پورا نیٹ ورک چلا رہا تھا جو امریکہ اور امریکہ سے باہر مردہ انسانی اعضا فروخت کرتے تھے۔ وہ غیر متعلقہ افراد کو ہارورڈ کالج کے مردہ خانے میں لے کر جاتا، جہاں سائنسی تجربات کے لیے عطیہ کردہ لاشیں ہوتی ہیں‘ وہاں وہ لوگ اپنی مرضی کے اعضا منتخب کرتے جس پر وہیں سودا ہوتا، بعد ازاں یہ اعضا نکال کر منیجر اپنے گھر لے جاتا جہاں اس کی بیوی یہ اعضا امتعلقہ افراد کو فروخت کر کے ان سے رقم وصول کرتی۔ اس کے علاوہ منیجر نے ایک مردہ شخص کی کھال بھی اپنے نیٹ ورک کے ایک شخص کو دی تھی تاکہ اس سے چمڑا بنایا جا سکے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ زندہ انسانی اعضا پیوند کاری جبکہ مردہ انسانی اعضا جادو ٹونے جیسے کاموں میں استعمال ہوتے ہیں۔
اپنے جسمانی اعضا کو ضرورتاً فروخت کرنا ترقی پذیر دنیا میں ایک باقاعدہ کاروبار بن چکا ہے۔ بھارت اس حوالے سے دنیا بھر میں ایک علیحدہ مقام رکھتا ہے جہاں انسانی اعضا مثلاً جگر، گردہ وغیرہ کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ پہلے وقتوں میں شاعر اپنے فرضی محبوب کے سامنے اپنا سر رکھ دیتے تھے، دل اور کلیجہ سامنے دھر دیتے تھے، وہ دل ہارتے بھی تھے اور سر بیچتے بھی تھے لیکن دل ہارنے کو وہ محبت کہتے تھے اور سر بیچنے کو قربانی، گویا جسم کے ان اعضا کا لین دین اعلیٰ جذبے کے تحت ہوتا تھا جبکہ یہ سب ہوتا زبانی کلامی ہی تھا۔ وہ دور گزر ا تو آج کا دور آ گیا جسے معیشت یعنی مادہ پرستی کا اور کاروباری دور کہا جاتا ہے۔ جہاں اب اس ہاتھ لے‘ اس ہاتھ دے کے تحت سودے کیے جاتے ہیں۔ اب ہر چیز کی قیمت لگائی جاتی ہے، ہر چیز کو برائے فروخت سمجھا جاتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو انسان کا ضمیر بھی اسکے جسم ہی کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ اس کی مدد ہی سے وہ اچھے‘ برے کی تمیز کرتا ہے، فیصلے کرتا ہے کہ اسے کیا کام کرنا چاہئے یا کیا نہیں۔ وہ اگر کوئی گناہ‘ کسی غیر قانونی کام کا ارتکاب کرنے لگتا ہے تو سب سے پہلے اس کا مقابلہ اسی ضمیر سے ہوتا ہے جو اسے خبردار کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ وہ غلط کرنے جا رہا ہے۔ انسانی اعضا کی خرید و فروخت کے ساتھ ساتھ ضمیروں کی خرید و فروخت کا دھندہ بھی جاری و ساری ہے اور مزے کی بات ہے کہ مرے ہوئے ہاتھی کی طرح زندہ کے بجائے مردہ ضمیر کی قیمت کہیں زیادہ ہے۔اس کی خرید و فروخت کا سب سے زیادہ دھندہ عالمی اور مقامی سیاست کی منڈیوں میں ہوتا ہے۔ پہلے تو اپنے ضمیر کی فروخت چھپ کر‘ خاموشی سے کی جاتی تھی لیکن اب تو باقاعدہ کیمروں کے سامنے‘ بڑے فخر سے کی جا تی ہے۔ اب تو یہ مارکیٹ اس قدر وسعت اختیار کر چکی ہے کہ کوئی حساب ہی نہیں۔ اسی لیے کسی شاعر نے کہا تھا:
ذرا سی مشق کرے‘ بے ضمیر بن جائے
تو کیا عجب ہے کہ آدمی وزیر بن جائے
اگر کسی کے پاس کوئی عہدہ نہیں یا اس کے پاس کوئی منصب نہیں تو کیا ہوا؟ اب تو یہ سلسلے اتنے وسیع ہو گئے ہیں کہ کچھ بھی بیچا‘ خریدا جا سکتا ہے۔ اور کچھ نہیں تو کسی سے اس کا ہاتھ تو کسی سے اس کی زبان خرید لی جاتی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ انہیں پرانے بادشاہوں کی طرح جسم سے کاٹ کر علیحدہ نہیں کیا جاتا بلکہ یہ اعضا فروخت کنندہ کے پاس ہی رہتے ہیں۔ یعنی یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہیں کرائے پر لیا جاتا ہے یا عارضی طور پر خرید لیا جاتا ہے۔ وہ دن گئے جب حکومتیں لوگوں کی زبانیں زبردستی بند کرایا کرتی تھیں۔ اب زبانیں بند کرانے کے بجائے خوشی خوشی انہیں خریدنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اسی لیے یہ قابلِ فروخت زبانیں جب بولتی ہیں تو وہی کچھ بولتی ہیں جو ان کے خریداروں کی منشا و مرضی ہوتی ہے۔ ہوش جونپوری نے کہا تھا:
جو اس ضمیر فروشی کے ماہرین میں ہے
وہ آدمی بھی سنا ہے مورخین میں ہے
اس سے قبل غالبؔ نے بات تو شاعرانہ انداز میں کی تھی مگر شاید آج کے وقت کے لیے کہا تھا:
نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زبان کیوں ہو
اب ہر کوئی یہی کہہ رہا ہے کہ یہ دور معاشیات کا ہے، انسانی اقدار اور ضمیر کی پاسداری کا نہیں۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ جس نے اپنا قلم بیچ دیا اس نے اپنا ایمان بیچ دیا لیکن اب نظریات پر جمے رہنے کو خسارے کا سودا سمجھا جاتا ہے۔ اب وہی کامیاب ہے جو بدلتی ہوائوں کے ساتھ ہی اپنا رخ تبدیل کر لے۔ کسی سفارت کیلئے، کسی ادارے کی سربراہی کیلئے، ہر ماہ ایک پُرتعیش غیر ملکی دورے کیلئے، اونچے اونچے ایوانوں میں کرسی نشینوں کے پہلو میں بیٹھنے کیلئے حتیٰ کہ کسی اعزاز، ایوارڈ کے لیے اندر ابھرنے والی آوازوں کو دبا دے اور سب کچھ تیاگ کر ''بینڈ ویگن‘‘ پر سوار ہو جائے۔
ہائے ضمیر مر گیا مرا نہ آدمی
آدمیوں کی بھیڑ میں ایک بھی تھا نہ آدمی
آج کل چھوٹے بڑے‘ سرکاری‘ نیم سرکاری اورنجی اداروں میں بیٹھے افراد من پسند اور منافع بخش تعیناتیوں کیلئے اپنا آپ بیچتے نظر آتے ہیں۔ لالچ میں یہ اس قدر مدہوش ہو جاتے ہیں کہ انہیں نہ تو اپنا ملک عزیز رہتا ہے اور نہ ہی اپنے ملک کا مستقبل۔ اس ملک میں رہنے والے کروڑوں لوگوں کی بھی انہیں کوئی پروا نہیں رہتی بلکہ وہ اپنے قلیل سے مفادات ہی کو کل کائنات سمجھتے ہیں۔ کون کہتا ہے کہ قدیم عرب اور امریکہ و یورپ کی غلاموں کی منڈیوں کا دور ختم ہو گیا ہے۔ نظر اٹھا کر دیکھیں‘ میدانِ سیاست سے ایوانِ اقتدار تک اور تجارت کے ایوانوں سے بڑی بڑی مسندوں تک لوگ آج بھی یہی کاروبار کرتے نظر آئیں گے۔ ان کے نزدیک آج کا دور سچ بولنے کا نہیں بلکہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنے کا ہے۔ یہ دور اقدار کا نہیں بلکہ اقتدار اور کاروبار کا ہے۔