پوٹیٹو ہیگ کا انڈا سات دنوں میں‘ چڑیا کا انڈہ 14دنوں میں‘ ہر قسم کی مرغی کا انڈا 21دنوں میں‘ بطخ اور قاز کا انڈا 28دنوں میں‘ جنگلی بطخ کا انڈا 35دنوں میں اور طوطے اور شتر مرغ کا انڈا 42دنوں میں سینچا جاتا ہے۔ غور کریں تو سات سے لے کر 42تک یہ سب اعداد ایک ہفتے کے سات دنوں پر تقسیم ہوتے ہیں۔ اللہ کی حکمت اور تخلیق عقلِ انسانی کو حیران کر دیتی ہے۔ اگر آپ ہاتھی کی ہیئت ترکیبی دیکھیں تو آپ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کاری پر اش اش کر اٹھیں گے کہ اس کو چار ٹانگیں دی گئی ہیں اور حیران کن طور پر اس کی چاروں ٹانگیں آگے کی طرف ایک ہی سمت میں جھکتی ہیں نہ کہ دائیں یا بائیں۔ آپ چار ٹانگوں والے دیگر جانوروں یا چوپایوں کو دیکھیں گے تو ان میں یہ خاصیت نہیں ہو گی۔ قابلِ غور ہے کہ ہاتھی کے ساتھ ہی ایسا کیوں کیا گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تو جانتا تھا کہ بہت بڑے جثے والے اس جانور کیلئے ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ صرف اگلی یا پچھلی دو ٹانگوں پر اپنے اس قدر بھاری بھر کم جثے کے ساتھ حرکت کر سکے یا زمین سے اٹھ سکے اس لیے اسے چار ٹانگیں عنایت کیں تاکہ یہ آسانی سے زمین سے اٹھ سکے۔ اسی طرح گھوڑے کی مثال لے لیں‘ وہ اپنی سامنے والی دونوں ٹانگوں کے سہارے اٹھتا ہے۔ گائے اپنی پچھلی دو ٹانگوں کے سہارے اٹھتی ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی حکمتیں ظاہر کرتی ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی سوچ اور عقل کا مقابلہ کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ اس پاک‘ با برکت اور عظیم الشان مصور نے اپنے ایک ایک شاہکار کو دنیا کیلئے عجوبہ بنا کر پیش کیا ہے۔ ڈی این اے کی معلومات تک پہنچنا سائنس کا ایک اہم ترین سنگ میل ہے۔ انجام کار وہ سائنس جو خدا کی منکر ہو گئی تھی اب خدا کا اقرار کر رہی ہے۔ ہر انسان کے ڈی این اے میں حروف G,T,A اور C کا سلسلہ (Sequence) مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روئے زمین پر جتنے انسان پیدا ہو چکے ہیں اور قیامت تک پیدا ہوتے رہیں گے وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوں گے۔ انسان کے جسم میں موجود اعضا دل‘ آنکھ‘ کان‘ ناک اور گردہ وغیرہ ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ہر شخص کچھ ایسی انفرادیت رکھتا ہے کہ سب کے سب ایک خلیے کے تقسیم در تقسیم ہونے کے عمل سے پروان چڑھنے کے باوجود اور ایک ہی بنیادی بناوٹ رکھتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
کائنات کے سر بستہ رازوں کی جستجو سے متعلق تمام علوم ''سائنس‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔ قرآن پاک کے نزول سے قبل لوگوں کا نظریۂ کائنات مختلف تھا مثلاً سقراط کا زاویۂ نگاہ کہ مشاہدہ ''انسان‘‘ ہے نہ کہ کائنات۔ افلاطون نے یہ کہہ دیا کہ کائنات محض فریبِ نگاہ ہے‘ انسان اس قابل نہیں اور نہ ہی انسان کے حواسِ خمسہ اس قابل ہیں کہ کائنات کی تحقیق کر سکیں۔ ہندو کہتے ہیں کہ مادی کائنات سراب ہے لیکن قرآن نے ان باطل نظریات کو غلط ثابت کرتے ہوئے کہا ''ہم نے کائنات کی بلندیوں اور پستیوں میں جو کچھ پیدا کیا ہے وہ باطل نہیں یہ ان کا ظن ہے جو حقیقت سے انکار کرتے ہیں یہ ان کی قیا س آرائیاں ہیں‘‘۔ ( سورۃ الرعد)۔سورۃ الزمر کی آیت نمبر چھ میں بتایا گیا ہے کہ ''اُس نے تم سب کو ایک جان سے پیدا فرمایا پھر اس سے اسی جیسا جوڑ بنایا پھر اُس نے تمہارے لیے جانوروں میں سے آٹھ (نر اور مادہ) جوڑے مہیا کیے‘ وہ تمہاری ماؤں کے رحِموں میں ایک کے بعد ایک تخلیقی مرحلہ میں ترتیب کے ساتھ تمہاری تشکیل کرتا ہے (اِس عمل کو) تین قِسم کے تاریک پردوں میں (مکمل فرماتا ہے)‘‘۔ اللہ کی کرامات اور ہمیں نظر آنے والی اس کی ہر تخلیق چاہے وہ انسان ہو یا جانور‘ چرند ہو یا پرند‘ نباتات ہوں یا حشرات‘ اناج ہو یا پھل اس کے قادرِ مطلق اور زبردست حکمت والا ہونے کی منہ بولتی تصویر بن کر سامنے آ جاتی ہے۔ غرض اس دنیا میں نظر آنے والی کسی چیز کی طرف بھی دیکھ لیں انسان اش اش کر اٹھتا ہے۔ اس کی تخلیق کے ایک ایک حصے اور ٹکڑے کی بناوٹ نا قابلِ یقین ہو جاتی ہے۔
اب اگر آپ ایک نظر پھلوں کے جزوِ ترکیبی کی طرف ڈالیں تو آپ مزید دنگ رہ جائیں گے مثلاً آپ تربوز کو سامنے رکھیں گے تو ہر تربوز کے چھلکے پر بنی ہوئی دھاریوں کی تعداد ایک جیسی ہو گی نہ کم نہ زیادہ۔ سنگترہ یا مالٹا کو چھیل کر ان کی قاشیں گنیں تو آپ کو ہر سنگترے اور مالٹے کی قاشیں ایک ہی تعداد کی ملیں گی نہ ایک زیادہ اور نہ ایک کم۔ اسی طرح اگر آپ مکئی کے بھٹے (سٹے) کا جائزہ لیں تو آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ ہر بھٹے کی قطاریں ایک ہی تعداد میں ہیں۔ گندم کی فصل کے پاس سے کبھی گزرنا ہو تو اُس کے ہر ایک خوشے کے دانے کی گنتی کریں تو آپ کو ہر خوشے میں ایک ہی تعداد میں گندم کے دانے دیکھنے کو ملیں گے۔ اس دنیا میں اللہ نے جو بھی اور جس قسم کا بھی اناج اُگایا ہے‘ ان مختلف قسم کے اناجوں کے ہر ہر دانے میں ان کی تعداد کہیں تیس ہے اور کہیں ساٹھ اور کہیں سو لیکن ہر اناج کے سٹے کی تعداد بالکل ایک جیسی ہو گی۔ کیلے کے پودے کی طرف نظر ڈالیں تو اس کی اوپر نیچے تک کی ہر ڈال میں ایک ہی تعداد میں کیلے لگے ہوئے دکھائی دیں گے۔ پھولوں کی طرف دیکھیں تو اللہ نے دن میں ان کے پھلنے پھولنے اور کھلنے کے وقت مقرر کر رکھے ہیں۔ سورۃ حٰم السجدہ کی آیت نمبر 47میں ارشاد ہے کہ ''اور نہ پھل اپنے غلافوں سے نکلتے ہیں اور نہ کوئی مادہ حاملہ ہوتی ہے اور نہ وہ بچہ جنتی ہے مگر (یہ سب کچھ) اس کے علم میں ہوتا ہے‘‘۔
ساتویں صدی عیسوی میں بہت سے یہودی اپنے راہبوں اور عیسائی اپنے پادریوں کے ہمراہ مدینہ میں اس انتظار میں تھے کہ بہت جلد آخری نبی کا ظہور ہونے والا ہے لیکن وہ کہتے تھے کہ یہ آخری نبی حضرت اسحاقؑ کی اولاد میں سے ہوگا لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ آخری نبی کا ظہور حضرت اسماعیلؑ کی اولاد سے ہوا ہے تو وہ ان کے منکر ہو گئے۔ حضرت محمدﷺ کی طرف سے اپنی نبوت کے اعلان کے بعد جب قران پاک کا نزول شروع ہوا تو کافروں کے ساتھ ساتھ عیسائی پادریوں اور یہودی راہبوں نے نازل کی جانے والی ہر آیت مبارکہ پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے ان کی افادیت کو چیلنج کرنا شروع کر دیا اور جب قران پاک کی مویشیوں سے حاصل ہونے والے دودھ کے بارے میں سورۃ النحل کی آیت نمبر 66 نازل ہوئی ''اور تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجود ہے اُن کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں‘ یعنی خالص دودھ‘ جو پینے والوں کے لیے نہایت خو ش گوار ہے‘‘۔ جیسے ہی اس آیت مبارکہ کا نزول ہوا تو یہ نکتہ چین اکٹھے ہو گئے کہ ہمیں اس آیت میں مویشیوں کے فضلے اور خون سے دودھ کے نکلنے کے عمل کا ثبوت مہیا کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے فضلہ اور دودھ ایک دوسرے سے علیحدہ ہو کر صاف شفاف دودھ کی شکل اختیار کر لے۔
بارھویں صدی عیسوی میں مشہور محقق اور مسلم سکالر امام رازیؒ نے طبی سائنس کے ذریعے مویشیوں کی خوراک کے ہضم ہونے اور جسم کے مختلف حصوں میں شامل ہونے کے بعد خون کی صفائی کے عمل کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن پاک کی اس آیت مبارکہ کو اس طرح ثابت کیا جگر اور تھن کے درمیاں لاتعداد شریانیں ہیں اور مادہ گائے بھینس کا تھن اندر سے انتہائی سفید اور صاف شفاف اجلا ہوتا ہے اور تھن سے گزرنے والا یہ خون سفید حالت میں دودھ کی شکل میں باہر آتا ہے۔ قران پاک کی نا زل کردہ اس آیت مبارکہ کو جدید سائنس اس طرح ثابت کرتی ہے کہ خوراک ہضم ہونے کے بعد معدے سے انتڑیوں میں داخل ہوتی ہے جہاں مختلف کیمیائی عوامل و قوع پذیر ہوتے ہیں چند مادے انتڑیوں کے حصوں میں سے بشمول انتڑیوں کی دیوار کی شریانوں سے گزرتے ہیں اور وہاں سے وہ خون میں شامل ہو جاتے ہیں اور جگر اور پیچیدہ نظام کے ذریعے وہ خون میں شامل ہوکر جسم کے مختلف حصوں میں پہنچ جاتے ہیں اور پھر تھن میں موجود میمری غدود خون کو دودھ میں بدل دیتے ہیں۔