گزشتہ ماہ جب بجلی کا ستاون ہزار روپے کا بل موصول ہوا تھا تو آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا تھا‘ سمجھ نہیں آتی تھی کہ بل کس طرح ادا کیا جائے گا۔ خیر جیسے تیسے بل ادا کیا تو سب سے پہلا کام بجلی کی بچت کے حوالے سے کیا۔ کوشش کی جانے لگی کہ جتنی ہو سکے‘ بجلی بچائی جائے، ایئر کنڈیشنر کے استعمال کی نوبت نہ ہی آئے مگر اس کے بغیر بھی گزارہ مشکل ہوتا تھا۔ خوب بچت کے بعد دو سو یونٹ کے قریب کمی لانے میں کامیاب بھی ہو گئے اور کچھ دعائیں حکومت اور اربابِ اختیار کے لیے نکلیں جنہوں نے طویل لوڈ شیڈنگ سے ہمارا کام قدرے آسان بنا دیا مگر جب بل آیا تو اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ اس ماہ کے بل اونٹ پر آخری تنکے کے مانند ثابت ہوئے ہیں۔ مہنگائی سے بلبلانے والے عوام کا غصہ اب پھٹ پڑا ہے اور درجہ حرارت ہر روز بڑھتا جا رہا ہے۔ دوسری جانب نگران حکومت نے عوام کو کوئی بھی ریلیف دینے سے متعلق ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں۔ تین دن کے مسلسل اجلاس کے بعد یہ مژدہ سنایا گیا کہ اس معاملے میں آئی ایم ایف سے رجوع کیا جائے گا۔ وزارتِ توانائی نے صاف کہہ دیا ہے کہ بجلی کے بلوں میں عوام کو ریلیف آئی ایم ایف کی منظوری کے بعد ہی دیا جا سکتا ہے جبکہ نگران وزیرِ خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کا کہنا ہے کہ معاشی صورتحال اندازے سے زیادہ خراب ہے، عوام کو کوئی ریلیف نہیں دے سکتے۔ یعنی حکومت ''جاگدے رہنا‘ ساڈے تے نہ رہنا‘‘ کی پالیسی پر گامزن ہے۔
باخبر ذرائع پہلے ہی خبردار کر چکے تھے کہ سرکلر ڈیٹ ختم کرنے کے لیے سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ اور دیگر ٹیکسوں کے حوالے سے آئی ایم ایف سے جو معاہدہ طے پایا ہے‘ اس کے تحت بجلی کے بلوں میں کسی قسم کا ریلیف نہیں دیا جاسکتا۔ابھی جو کچھ سڑکوں پر نظر آ رہا ہے‘ اس کو احتجاج کی ابتدا سمجھیے کیونکہ ایک طرف پٹرول پندرہ روپے مزید مہنگا کرنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے تو دوسری جانب دسمبر تک سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 4.37 روپے بجلی فی یونٹ مزید مہنگی ہونے کی خبر سنائی جا رہی ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ بجلی کی قیمت بڑھ کر 57 روپے فی یونٹ تک پہنچ جائے گی مگر وازرتِ توانائی نے بجلی قیمتوں میں اضافے سے متعلق جو اعداد و شمار پیش کیے ہیں‘ ان کے مطابق اگست میں 89 اعشاریہ 33 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی کا بل آئے گا۔ یعنی 200 یونٹ والے دو‘ تین لائٹوں اور ایک‘ دو پنکھے والے گھر کا بل بھی 15 سے 18 ہزار روپے تک پہنچ جائے گا۔ ملک کی اکثریت جو 400سے 700 یونٹس تک بجلی استعمال کرتی ہے‘ اس کا کیا حال ہو گا، یہ سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔ آئندہ سال دو ہزار ارب روپے صرف کپیسٹی پیمنٹس کی مد میں ادائیگیاں کرنی ہیں اور یہ سارا بوجھ غریب عوام پر ڈالا جائے گا۔ جب اگلے ماہ 90 روپے فی یونٹ کے حساب سے بل آئے گا تو آگے کے حالات سے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں۔
متعدد بار لکھ چکا ہوں کہ اپریل 1991ء کی ایک منحوس گھڑی تھی جب بجلی کی قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ ہوا اور یکایک 12 فیصد تک اضافہ کر دیا گیا، چند ماہ بعد جنوری 1992ء میں دوبارہ 50۔2 فیصد اضافہ کیا گیا، پھر فروری، اپریل اور ستمبر میں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہوا۔ مارچ 93ء میں پھر 2.50 فیصد اضافہ ہوا اور یوں اپریل 92ء سے مارچ 93ء تک محض ایک سال کے عرصے میں بجلی کی قیمت میں پچاس فیصد سے زائد اضافہ ہو چکا تھا۔ بعد ازاں نومبر 94ء میں 24.3 فیصد اور جولائی 95ء میں 21.5 فیصد اضافہ کیا گیا۔ اِس بار بھی ''میثاقِ جمہوریت کے اتحادیوں‘‘ نے عوام کے ساتھ یہی کچھ کیا ہے۔ وہ بجلی جو مارچ 2022ء میں سولہ روپے فی یونٹ کے حساب سے مل رہی تھی اور 5 روپے فی یونٹ ہر صارف کو بلاتفریق سبسڈی بھی دی جا رہی تھی‘ اب وہی 90 روپے فی یونٹ ہونے جا رہی ہے یعنی پانچ گنا سے بھی زیادہ مہنگی۔ 1993-94ء میں جب بجلی کی بڑھتی قیمتوں پر شور مچنا شروع ہوا تو واپڈا نے ایک جامع رپورٹ تیار کی تھی جس کے مطابق اُس سال 42 ارب 4 کروڑ 50 لاکھ یونٹ بجلی پیدا کی گئی اور 32 ارب 13کروڑ 10 لاکھ یونٹس فروخت ہوئے۔ محض ایک سال میں 9 ارب91 کروڑ 40 لاکھ یونٹ بجلی چوری ہوئی۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس رپورٹ کو شائع ہونے سے روک دیا گیا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ زیادہ تر بجلی صنعتی شعبوں میں چوری ہو رہی تھی اور سبھی بڑے صنعتکار اسمبلیوں میں بیٹھے عوامی مسائل حل کرنے میں مشغول تھے۔ امسال فروری میں قائمہ کمیٹی برائے توانائی میں پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ایک سال میں جو بجلی چوری کی گئی‘ اس کی قیمت 380 ارب روپے ہے۔ 200 ارب کی بجلی کنڈوں اور 180 ارب کی میٹروں سے چوری ہوئی۔ یہاں یہ واضح رہے کہ 2.5 فیصد تک لائن لاسز کی سرکاری طور پر ویسے ہی رعایت ہے۔
اسی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ بڑھتے نرخوں کے سبب آئندہ سال 520 ارب سے زائد کی بجلی چوری کا خدشہ ہے مگر اب محض پانچ ماہ بعد سینیٹ کی کمیٹی برائے توانائی کے حالیہ اجلاس میں بتایا گیا کہ اس وقت ملک میں سالانہ 467 ارب کی بجلی چوری ہو رہی ہے ۔گزشتہ سال بجلی کے محکموں کے ایک لاکھ 89 ہزار ملازمین نے 8 ارب 19کروڑ روپے کی بجلی مفت استعمال کی جبکہ سرکاری ملازمین نے ایک سال میں 34 کروڑ 46 لاکھ یونٹس سے زائد بجلی مفت استعمال کی۔ پی ڈی ایم حکومت کے 15ماہ میں 500 ارب روپے سے زائد کی بجلی چوری ہوئی۔ سارا بوجھ عوام پر ڈالنے کا شاخسانہ یہ ہے کہ محکمے اپنی ذمہ داریوں سے مکمل غافل ہو چکے ہیں۔ بجلی چوری ہوتی ہے، لائن لاسز بڑھتے ہیں، سسٹم آئوٹ ڈیٹ ہو چکا ہے، انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ انہوں نے سارا بوجھ عوام پر ڈال دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کاخسارہ آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ پیسکو کا خسارہ 154 ارب 50 کروڑ روپے، میپکو کا خسارہ 75 ارب، لیسکو کا خسارہ 72 ارب اور آئیسکو کا خسارہ 21 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ سینیٹ کے اجلاس میں بتایا گیاکہ چوری، لائن لاسز اور ڈیفالٹرز کاسارا خمیازہ بل ادا کرنے والے صارفین بھگت رہے ہیں۔ 2013ء میں بجلی کے کپیسٹی چارجز 185 ارب تھے ،2019ء میں یہ بڑھ کر 642 ارب ہو گئے ، 2021 میں 796 ارب پر پہنچ گئے۔ 2022ء میں کپیسٹی چارجز 971 ارب تھے اوراس سال کپیسٹی چارجز 1.3 ٹریلین یعنی 1300 ارب پر پہنچ گئے ہیں اور اگلے سال کا تخمینہ 2010 ارب لگایا گیا ہے۔ اس وقت پاور سیکٹر کا گردشی قرض 2310 ارب ہے۔
اس اجلاس میں جو سب سے اہم بات سامنے آئی وہ یہ کہ 1994ء میں آئی پی پیز کے ساتھ جو معاہدے کیے گئے تھے وہ 2027ء میں ختم ہوں گے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جو معاہدے پچھلے دس‘ پندرہ سال میں ہوئے وہ کب ختم ہوں گے؟ یہ تیس‘ تیس سال کے لیے ہونے والے معاہدے ہیں کہ آج یہ پیدواری یونٹس بھلے بجلی پیدا کریں یا نہ کریں‘ انہیں ڈالروں میں ادائیگیاں ضرور کی جائیں گی۔ یہ معاہدے کیوں ہوتے ہیں اور اس میں کس کے مفاد کو فوقیت دی جاتی ہے‘ اس حوالے سے معروف امریکی مصنف گریگ پیلاسٹ (Greg Palast) کا ایک ریسرچ پیپر ہی کافی ہے۔ گریگ پیلاسٹ کے مطابق ''مغربی ملکوں کے بڑے بڑے سرمایہ دار اور سیاستدان اپنی نجی کمپنیوں کے ذریعے مختلف ملکوں کے ساتھ اپنی پسند کی شرائط پر بجلی کی فروخت کے معاہدے کرتے ہیں۔ بدلے میں کک بیکس کی شکل میں بھاری رقوم بیرونِ ملک فراہم کی جاتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے تیسری دنیا کے سیاستدان ہائیڈل پاور سٹیشن منصوبوں کو شجرِ ممنوعہ قرار دے دیتے ہیں اور آئی پی پیز کو مسیحا بنا کر پیش کرتے ہیں‘‘۔ آج تک کسی حکومت نے آئی پی پیز کے خلاف ایکشن نہیں لیا بلکہ سب نے ان کے مفادات کا تحفظ کیا۔ پی ٹی آئی حکومت نے کچھ پرانے معاہدوں کو ریویو کر کے نئے ایم او یوز سائن کیے تھے جبکہ پانچ آئی پی پیز سے 40 ارب واپس لینے کا فیصلہ بھی سنایا تھا مگر ایک روپیہ بھی واپس نہیں مل سکا۔