ہو سکتا ہے کہ یہ بات کسی کے دل میں نہ اُترے لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ جیسے ہی کسی نئی یا خوبصورت بس یا ٹرین کو دیکھتے ہیں تو جھٹ سے اُس پر سوار ہو جاتے ہیں اور کچھ دور جانے کے بعد یا آخری اسٹیشن آنے سے پہلے ہی چھلانگ لگا کر باہر کود جاتے ہیں۔ یہ ان کی بیوقوفی یا پاگل پن نہیں ہوتا بلکہ وہ اس کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں۔ اکثر لوگ کسی بس یا گاڑی پر بغیر پوچھے بھی سوار ہو جاتے ہیں اور بہت سوں کو ٹرین میں ٹکٹ خرید کر سفر کرنا ناگوار گزرتا ہے بلکہ یہ کہہ لیجیے کہ وہ ٹکٹ لے کر سفر کرنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں اور بغیر ٹکٹ ہی ٹرین کی انتظامیہ سے ملی بھگت کے سبب اپنی منزل تک پہنچنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اسی طرح کی ایک ٹرین مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوئی‘ فراٹے بھرتی ہوئی اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی کہ اچانک ٹکٹ چیکر مسافروں کے ٹکٹ چیک کرنے کیلئے ایک بوگی میں آ پہنچا۔ بہت سے مسافروں کے پاس ٹکٹ نہیں تھے اور کئی مسافر ایسے تھے جن کی منزل کئی سٹیشن پیچھے گزر چکی تھی۔ کچھ ایسے تھے جن کو حکومت کے طاقتور لوگوں نے بغیر ٹکٹ کے ائر کنڈیشنڈبوگیوں میں بٹھایا ہوا تھا اور کچھ ایسے بھی تھے جن کے پاس باقاعدہ اپنی منزل کے اصلی ٹکٹ موجود تھے لیکن ان کی نشستوں پر منظورِ نظر لوگ حکامِ بالا کی ملی بھگت سے اس طرح قبضہ جمائے بیٹھے تھے کہ ٹکٹ رکھنے والے نہ تو بیٹھ سکتے تھے اور نہ ہی اچھی طرح کھڑے ہو سکتے تھے ۔ ٹکٹ چیکر نے ایک اچٹتی ہوئی نظر اس بوگی پر ڈالی اور بغیر کوئی کارروائی کیے خاموشی سے اگلی بوگی کی جانب بڑھ گیا۔ اُس بوگی میں بھی بغیر ٹکٹ اور جعلی ٹکٹ والوں کے ہاتھوں اصلی ٹکٹ والے مسافر وں کی درگت بن رہی تھی کیونکہ ٹکٹ والے بے چارے بڑی مشکل سے دروازوں سے لٹکے ہوئے ہاتھ پائوں مارتے نظر آ رہے تھے۔ اصلی ٹکٹ والے مسافروں نے بوگی میں جعلی اور بغیر ٹکٹ مسافروں کو لیکچر دینا شروع کر دیا کہ آپ کو اس طرح سفر کرنے کا کوئی حق نہیں ہے‘ کس قدر افسوس کی بات ہے‘ سوائے ہم چند لوگوں کے باقی سب ہی ناجائز طریقے سے اس بوگی پر قابض ہیں اور وہ بھی اس طرح کہ بجائے صرف بیٹھنے کے‘ پائوں پسارے ہماری ہی نشستوں پر قبضہ کیے ہوئے ہیں۔ اس ابتدائی بحث سے معاملہ جب طول پکڑنے لگا اور بات لڑائی جھگڑے اور تُوتکار تک پہنچ گئی تو اصلی ٹکٹ رکھنے والے اس بوگی سے دوسری بوگی کی جانب چلے گئے لیکن وہاں بھی یہی صورت حال تھی کیونکہ ہر بوگی اسی طرح کے مسافروں سے کھچا کھچ بھری تھی۔
بالآخر گاڑی جب ایک بڑے اسٹیشن پررُکی تو تمام بوگیوں سے اصلی ٹکٹوں والے مسافر پلیٹ فارم اور پٹڑی پر یہ کہتے ہوئے دھرنا دے کر بیٹھ گئے کہ یہ کون سا قانون ہے کہ جن کے پاس با قاعدہ ٹکٹ ہیں وہ یا تو کھڑے ہوئے یا دروازوں سے لٹکے سفر کر رہے ہیں اور وہ جو جعلی اور بغیر ٹکٹوں وا لے ہیں‘ ہر بوگی پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ معاملہ طول پکڑ گیا تو ان سے مذاکرات شروع کیے گئے کہ اپنا سفر مکمل کرنے کے لیے آپ ٹرین میں تو آئیں لیکن کوئی بھی نہ مانا جس پراعلیٰ حکام نے پٹڑی پر دھرنا دینے والوں کو وارننگ دی کہ اگر پٹڑی خالی نہ کی تو ریلوے انجن تمہارے اوپر سے گزار دیا جائے گا لیکن وہ مسافر جو حق پر تھے‘ جن کے پاس ٹکٹ تھے اور انہوں نے کئی روز پہلے سے ہی بکنک کروالی تھی‘ ان کی اس دھمکی پر خوف زدہ ہونے کے بجائے ان کے سامنے ڈٹ گئے۔ اب حکام نے انجن ڈرائیور کو حکم دیا کہ انجن ان کے اوپر سے گزار دو لیکن انجن ڈرائیور اور اس کے معاون نے ایسا کرنے سے انکار کر تے ہوئے کہا کہ اس طرح ہم انسانی جانوں کے قتل کے گناہ میں شریک نہیں ہونا چاہتے۔ اس پر ایک کانٹے والے کو‘ جو سفارشی بھرتی ہوا تھا اور انجن کی تکنیک کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا‘ انجن کا ڈرائیور بنا دیاگیا۔ اس کانٹے والے نے اعلان کیا کہ ابھی میں ان ٹکٹ رکھنے والوں کی اکڑ فوں نکالتا ہوں ۔جب یہ خطرناک حالات دیکھے تو ایک عقل رکھنے والے نے‘ جسے شاید یہ انجن اور اس کے مسافر جی جان سے پیارے تھے‘ دھرنا دیے بیٹھے اصلی ٹکٹ والے مسافروں کو ان کی نشستوں پر بٹھا کر کسی بھی ممکنہ جھگڑے کو روکنے اور ٹرین کو اپنی منزل تک پہنچانے کیلئے سب کی منت سماجت کی‘ جب یہ مسافر دھرنا چھوڑ کر گاڑی میں بیٹھ گئے تو بوگیوں پر قابض لوگوں نے ان پر آوازے کسنا شروع کر دیے کہ جس بوگی کو تم لوگ شور مچا مچا کر بدنام کرتے تھے کہ یہ جعلی ٹکٹ والوں کی ہے‘ ہمیں ایسے لوگوں میں بیٹھتے ہوئے شرم آتی ہے‘ اگر اتنے ہی شرم والے ہو‘ اتنی ہی غیرت والے ہو‘ اتنے ہی با اصول ہو تو یہاں سے نکلو اور واپس جائو‘ اب یہاں اس بوگی میں کیا لینے آئے ہو؟جاؤ اپنے لیے کوئی نئی صاف ستھری بوگی انجن کے ساتھ لگو الو۔وہ لوگ جب للکار للکار کر اس قسم کے آوازے کس رہے تھے تو ان کے منہ سے آنے والی بو سے ساری بوگی اس طرح بدبودار ہو رہی تھی کہ وہاں بیٹھنا محال ہو رہا تھا۔ لگتا تھا کہ کئی دنوں سے انہوں نے اپنے دانت صاف نہیں کیے تھے یا ان کے معدے خراب تھے‘یا وہ کسی ایسی جگہ سے گزر کر آئے تھے جہاں کا گند ان کے جوتوں اور بدن سے چمٹا ہوا تھا۔
ٹرین میں سفارشی‘ جعلی اور بغیر ٹکٹ کے بجائے باقاعدہ ٹکٹ لے کر سفر کرنے والے شرفا نے ایک دوسرے کو سمجھانا شروع کر دیا کہ اگر کسی نے آئندہ بغیر ٹکٹ خریدے ٹرین میں بیٹھنے کی کوشش کی تو یہ ٹکٹ خرید کر سفر کرنے والوں کے ساتھ زیا دتی ہو گی‘ اگر انہیں ٹرین میں بٹھانا ہے تو ان کے ساتھ سفر کرنے والے ہر مسافر کے پاس ٹکٹ ہونا چاہیے لیکن دوسرا گروہ اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہنے لگا کہ وہ یہی کہیں گے کہ کوئی بھی ٹکٹ مت خریدے‘ بس اس کے پاس طاقت ہونی چاہیے۔ اس کے بڑے لوگوں سے تعلقات ہی اس کے سفر کی ضمانت ہو گی۔ شاید ٹکٹ ٹکٹ کی نصیحت کرنے والوں کو اندازہ ہی نہیں کہ ہر اچھی ٹرین کے عملے میں ایسے اہلکاربھی ہوتے ہیں جو بغیر ٹکٹ سفر کرنے والوں کو آگے بڑھ کر ایسی بوگیوں اور من پسند نشستوں پر بٹھا دیتے ہیں جن کے کے لیے ٹکٹ ہولڈر ترستے ہیں اور بغیر ٹکٹ سفر کرنے والوں کو ریل کی انتظامیہ ان کی منزل تک اس طرح پہنچاتی ہے جیسے یہ کوئی مہمانِ خصوصی ہیں جو خوش قسمتی سے ان کی ریل میں سفر کر رہے ہیں۔ بغیر ٹکٹ سفر کرنے کے عادی افراد اپنے کام میں اس قدر ماہر ہو چکے ہیں کہ انہوں نے ٹھان لی ہے کہ اگر انہوں نے دیکھا کہ ٹرین میں ٹکٹ والے افراد کی تعداد بہت زیا دہ ہے تو وہ یہ ٹرین چلنے ہی نہیں دیں گے اور اس میں ایسی ایسی فنی خرابیاں بیان کرتے جائیں گے کہ مسافر تنگ آ کر یا تو گھر بیٹھ جائیں گے یا پھر اگر کسی کے لیے یہ سفر بہت ہی ضروری ہوا تو وہ ریل انتظامیہ کی خدمات لینے کے لیے ان کی ہر شرط تسلیم کر لے گا۔