ایک خبر کے مطابق بھوک‘ تنگدستی اور بجلی کے بے تحاشا بلوں کی وجہ سے گزشتہ سات دنوں میں ملک بھر میں بیس سے زائد افراد نے خود کشی کی ہے۔ مالی تنگدستی اور غربت کے باعث خودکشیوں کی اب ایک نئی لہر دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس وقت ملکِ عزیز میں ہر طبقہ پریشان ہے مگر بھاری یوٹیلیٹی بلوں اور آٹے‘ چینی کے بے لگام نرخوں کے باعث ایک غریب اور متوسط گھرانے پر خاصا بوجھ پڑا ہے اور اب بہت سے افراد خطِ غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس وقت کئی ایسی دلخراش وڈیوز وائرل ہیں جنہیں مکمل دیکھا بھی نہیں جا سکتا۔ ایک وڈیو میں ایک مسجد کے پیش امام قسم کھاکر بتاتے دکھائی دیے کہ انہوں نے دو ہزار روپے ادھار لے کر اپنے بچوں کیلئے تین کلو آٹا‘ گھی‘ سبزی اور دودھ خریدا ہے‘ ان کے بچے کئی دن سے فاقے سے تھے۔ امام صاحب نے اس وڈیو میں اور بھی بہت کچھ کہا لیکن میں یہ وڈیو دیکھ کر شرم سے زمین میں گڑ گیا کہ جس معاشرے میں مساجد کے امام اور اساتذہ بھوک سے فاقے کرنے لگ جائیں‘ کیا ایسا معاشرہ پنپ سکتا ہے؟
یہ وڈیو دیکھنے کے بعد ان امام مسجد سے کیسے رابطہ کیا گیا اور ان تک کیسے پہنچا‘ یہ ایک علیحدہ کہانی ہے مگر ان کے حالات اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد سے سوچ رہا ہوں کہ عبدالستار ایدھی کی طرح ایک بڑی سی چادر لے کر ہر مارکیٹ‘ ہر گھر‘ ہر سکول‘ کالج‘ یونیورسٹی اور ہر ریسٹورنٹ کے سامنے کھڑا ہو جائوں اور سب کو جھنجھوڑتے ہوئے فریاد کروں کہ خدارا اپنے آس پاس کے گھروں کی خبرگیری کریں۔ مساجد کے اماموں‘ خطیبوں اور استادوں کیلئے‘ یتیموں‘ بیوائوں اور مفلسوں کیلئے اور ایسے گھروں کے لیے جہاں اب چولھا بھی نہیں جلتا اگر آٹا‘ گھی اور دال سبزی مانگنا شروع کر دوں‘ کسی سے اچار اور کسی سے شیر خوار بچوں کیلئے دودھ کی بھیک مانگوں تو اس میں مجھے قطعاً کوئی عار‘ کوئی شرم نہیں ہو گی‘ کوئی جھجھک نہیں ہو گی اور نہ ہی کسی کی منفی سوچ کی پروا ہو گی کہ میرے بارے کون کیا کہے گا۔ اپنے کالموں کے ذریعے بھی میں اپنی آواز بلند کرتا رہا ہوں۔ کسی گھر‘ فیملی اور کسی یتیم یا بیوہ کو دیکھ کر‘ ان کی درد ناک داستان سننے کے بعد ان کی آواز بن کر اپنے رب کے آسرے پر جب ان کے پاس پہنچتا ہوں تو یقین کیجئے کہ خدا اسباب پہلے پیدا فرما دیتا ہے۔ نیت نیک ہو تو رب بھی ساتھ دیتا ہے۔ میں تجربے سے کہہ سکتا ہوں کہ اس مقصد میں 90 فیصد سے زائد کامیابی ملی ہے۔ وہ لوگ جن کے دلوں میں اللہ نے اپنی مخلوق کیلئے رحم ڈال رکھا ہے‘ جو رب کریم کو اس دنیا میں قرض دینے میں رتی بھر بھی پس و پیش نہیں کرتے‘ وہ جو یتیموں‘ بیوائوں‘ معذوروں اور مفلسوں کی مدد کر نے میں لمحے کی دیر نہیں کرتے‘ وہ ایسے مستحقین کی داستان سن کر تڑپ اٹھتے ہیں۔ ان میں کثیر تعداد اوور سیز پاکستانیوں کی ہوتی ہے‘ ان کی بھیجی گئی مدد خاموشی سے ضرورت مندوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ یقینا یہ ایک بہت بڑی اور بھاری ذمہ داری بھی ہے اور روزِ محشر اس خیرات و زکوٰۃ کی ایک ایک پائی کا حساب ہو گا۔ دعا ہے کہ خدا ہمیں اس امتحان میں سرخرو کرے۔
چند روز ہوئے‘ ایک خاتون سبزی کی دکان پر کھڑی اچانک درد زہ محسوس کرنے لگی اور پھر یہ درد بڑھتا ہی چلا گیا۔ جب وہ تکلیف سے بے حال ہو گئی تو اسے ایک قریبی نجی ہسپتال لے جایا گیا۔ اس خاتون کے پاس صرف چار ہزار روپے تھے۔ چونکہ مقررہ وقت سے پہلے کی صورتحال تھی‘ لہٰذا آپریشن ناگزیر تھا۔ اسے فوری طور پر دو لاکھ ستر ہزار روپے کا بندوبست کرنے کا کہا گیا۔ اس کا شوہر خود بھی دو ماہ سے غیر معمولی شوگر کی وجہ سے مختلف سرکاری ہسپتالوں کے چکر کاٹ رہا ہے۔ اگر زیادہ دیر کی جاتی تو ماں اور بچے‘ دونوں کی جان جا سکتی تھی۔ فوری طور پر دیارِ غیر میں بیٹھے چند خدا ترسوں سے گزارش کی‘ جنہوں نے لمحے بھر کا بھی توقف نہیں کیا۔ آپریشن کامیاب ہو گیا‘ بچہ اس وقت انکیوبیٹر میں ہے جبکہ ماں کی حالت تسلی بخش ہے۔ وہ جنہوں نے اس مشکل وقت میں اس خاندان کی مدد کی‘ یقینا ایسے ہی افراد ہیں‘ جن کے بارے میں کہا گیا کہ وہ اللہ کے منتخب بندے ہیں۔
کوئی ایسا لفظ‘ کوئی ایسی لغت‘ کوئی ایسا پیرایہ بتا دیا جائے جس میں ایسی تاثیر‘ کوئی ایسی خاصیت ہو جو حاکمانِ وقت اور اربابِ بست و کشاد کے دل و دماغ میں اتر جائے۔ جو ان میں یہ احساس اجاگر کرے کہ جس ملک نے انہیں بڑے بڑے مناصب عطا کیے ہیں‘ جس ملک نے انہیں اور ان کے خاندانوں کو زندگی کی ہر وہ نعمت اور آسائش دی ہے جس کا ایک دنیا خواب دیکھتی دیکھتی قبروں میں جا پہنچتی ہے‘ اسی دیس میں‘ ان کے راج میں انسان مہنگائی‘ غربت‘ بیروزگاری اور تنگ دستی کے ہاتھوں بری طرح کچلے اور مسلے جا رہے ہیں۔ حالات یہ ہیں کہ جس فیکٹری‘ کارخانے‘ دفتر یامارکیٹ میں کسی مجبور اور ضرورت مند کی نوکری کی درخواست لے کر جائیں تو جواب ملتا ہے کہ آپ کو انکار کبھی نہ کرتے لیکن اس وقت حالات ہی ایسے ہیں کہ مجبور ہیں۔ ابھی تک ایل سیز کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا‘ خام مال بہت مہنگا ہو چکا ہے‘ ڈالر اور پٹرول ہاتھ سے نکل چکے ہیں‘ ہم تو خود اپنا کارخانہ‘ اپنا یونٹ‘ اپنی فیکٹری بند کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ حساب کتاب فائنل کر رہے ہیں‘ چند روز بعد ہم شٹ ڈائون کر رہے ہیں کیونکہ اب نقصانات برادشت سے باہر ہو چکے ہیں۔ غربت‘ افلاس اور قرضوں کی دلدل میں دھنسے معاشرے میں سب سے بدترین معاشی قتل ہوتا ہے اور افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے لوگ نجانے کب سے اس معاشی قتل گاہ میں مر مر کر جی رہے ہیں۔ ہر روز ایک نئی ضرب لگ رہی ہے‘ روز ایک نیا عضو کٹ رہا ہے‘ روز ایک خواب چھن رہا ہے‘ روز ایک آس مٹ رہی ہے۔ بیروزگاری کی بھینٹ چڑھنے والوں کے معاشی قتل سے ایک پورا گھرانا تباہ ہو جاتا ہے اور نجانے یہ سلسلہ مزید کتنا دراز ہو گا۔ اگر یہی صورتحال رہی تو کہیں پورے ملک میں ہی شٹ ڈائون نہ ہو جائے۔ نہایت محتاط اندازے کے مطابق اب تک ڈھائی سو سے زائد بڑے صنعتی یونٹس بند ہو چکے ہیں جس وجہ سے ملک میں بیروزگاروں کا ایک نیا سیلاب ابھرا ہے۔ اگر اس پر فوری بند نہ باندھا گیا یہ سیلابِ بلا ہماری معاشی‘ معاشرتی اور امن و امان کی قدروں کو تباہ و برباد کرکے رکھ سکتا ہے۔
ایک بڑے قصبے میں‘ جہاں قریبی دیہات سے سینکڑوں لوگ محنت مزدوری کیلئے آیا کرتے ہیں‘ ایک ہوٹل نما تنور سے ایک معاہدہ کر رکھا تھا جس کے تحت وہ دو روٹیاں اور سبزی اور ہفتے میں ایک روز گوشت کی پلیٹ چند افراد کو مفت دیا کرتا تھا۔ کچھ مستحق افراد سے متعلق بھی یہ ہدایات کر رکھی تھی کہ یہ لوگ اپنے لیے کھانا مفت لے سکتے ہیں۔ کچھ عرصہ ہوا تنور کے مالک نے لکڑیوں کے مہنگا ہونے‘ آٹے کی نایابی‘ گھی اور مرچ مسالا جات کے بے تحاشا مہنگا ہونے کے سبب معذرت کر لی اور کہا کہ اب طے شدہ ماہانہ رقم میں وہ یہ اشیا فراہم نہیں کر سکتا کیونکہ چکن کی تو بات چھوڑیں‘ پیاز‘ ٹماٹر بھی اس قدر مہنگے ہو گئے ہیں کہ اب محض نقصان ہو رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ کہیں طے پا چکا ہے کہ لوگوں کی زندگیاں اس قدر کٹھن بنا دی جائیں کہ کوئی سسکی‘ کوئی چیخ‘ کوئی شکایت‘ کوئی آہ ان کے لبوں سے باہر نہ نکل پائے۔
نگران وزیراعظم صاحب فرماتے ہیں کہ مہنگائی اتنا بڑا مسئلہ ہے نہیں جتنا اسے بنایا جا رہا ہے۔ نجانے اہلِ حکومت کو احساس کیوں نہیں ہو رہا کہ لوگ اب دوائیوں سے نہیں‘ بھوک سے بھی مرنے لگے ہیں۔ عوام کی تکالیف اور اہلِ اختیار کی خاموشی اور لاتعلقی دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ اب یہ معاملہ آسمان کی عدالت کے سپرد ہو چکا ہے کیونکہ جب معاشرے کے بااختیار طبقات لاچاروں‘ بے بسوں کے معاملات سے لاتعلق ہو جائیں تو پھر آسمان پر آہوں‘ سسکیوں اور فریادوں کے فیصلے سنائے جانے لگتے ہیں۔ نجانے کیوں یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ معاشرے کے بے بس اور نچلے طبقات کی فریاد رسی بس ہوا ہی چاہتی ہے اور بہت جلد خاموشی اور لاتعلقی کی سزا ہم سب کا مقدر بننے والی ہے۔