پانچ ستمبر 1965ء کو شام چھ بجے کے قریب سیون پنجاب کے لیفٹیننٹ کرنل شیرازی براوو (Bravo) کمپنی کی ڈیپلائمنٹ دیکھنے کے لیے قصور سیکٹر پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ روہی نالے پر واقع رینجرز کی چیک پوسٹ پر ایک ٹرک میں کچھ فرنیچر‘ چائے کے برتن اور دعوتی سامان لدا ہوا ہے۔ کرنل شیرازی نے اس ٹرک کے پاس کھڑے این سی او سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے؟ اس پر رینجرز کا جوان بولا: سر! کل چھ ستمبر کو گنڈا سنگھ والا چیک پوسٹ پر بھارت اور پاکستان کی بارڈر سیکورٹی فورسز کے اعلیٰ افسران کی ماہانہ میٹنگ ہے اور اس ماہ چونکہ یہ میٹنگ اپنی باری پر پاکستان میں ہونے جا رہی ہے‘ اس لیے یہ سب انتظام کل ہونے والی ماہانہ میٹنگ کے لیے ہے۔ مگر اس کے چند گھنٹوں بعد ہی سیون پنجاب سے منسلک براوو کمپنی کی جانب سے اطلاع موصول ہوئی کہ بھارتی فوج نے قصور کی سرحد پر واقع رینجرز کی چیک پوسٹ پر حملہ کر دیا ہے۔ اس اطلاع پر سب حیران تھے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ شیڈول کے مطا بق چند گھنٹوں بعد انڈین بارڈر سکیورٹی فورسز کے افسران ماہانہ میٹنگ کے لیے گنڈا سنگھ پہنچنے والے تھے۔ جنگ ستمبر کے تیرہویں دن (18 ستمبر کو) پاکستان کی گیارہویں ڈویژن نے بھارتی فوج کے توپخانے کے ایک کیپٹن کو گرفتار کرنے کے بعد اس کی تلاشی لی تو اس سے بر آمد ہونے والی 'وار ڈائری‘ میں 26 اگست 65ء کو اس کے بریگیڈ ہیڈ کوارٹر کی جانب سے جاری کیے جانے والے احکامات کی تفصیلات درج تھیں، جن میں اس کیپٹن کی کمپنی کو ہدایات کی گئی تھی کہ وہ قصور سیکٹر پر حملہ کرنے کے لیے اپنی کمپنی کے ساتھ فلاں جگہ پر ڈیپلائے ہو گا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بھارت پاکستان پر حملہ کرنے کی تیاریاں اگست کے تیسرے ہفتے سے کر رہا تھا لیکن پاکستان اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے بارڈر سکیورٹی فورسز کی ماہانہ میٹنگ کی آڑ میں سب کو بیوقوف بناتا رہا۔
4 ستمبر 1965ء کی شام جی ایچ کیو راولپنڈی کے آپریشن روم میں جنرل موسیٰ آل انڈیا ریڈیو سن رہے تھے کہ اچانک پروگرام روکتے ہوئے انائونسر نے کہا ''ایک انتہائی ضروری اعلان سنئے: پردھان منتری لال بہادر شاستری نے ابھی ابھی لوک سبھا کو ملکی سرحدوں کی صورت حال بارے آگاہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پاکستانی فوج سیالکوٹ سے جموں کا رُخ کر رہی ہے‘‘۔ شاستری کو یہ اطلاع بھارت کی کسی خفیہ ایجنسی نے نہیں بلکہ لائن آف کنٹرول پر تعینات اقوام متحدہ کے فوجی مبصر سے ملی تھی۔ بھارتی فوج کے26 ڈویژن کے کمانڈر جنرل تھاپن کو 31 اگست کو اقوام متحدہ کے مبصر نے ایمر جنسی اطلاع دیتے ہوئے بتایا تھا کہ چھمب سیکٹر پر کچھ عسکری نقل و حرکت دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اس بات کا اعتراف بھارتی فوج کے جنرل بھوپندر سنگھ نے 65ء کی جنگ پر اپنی کتاب میں بھی کیا ہے۔ جنرل موسیٰ نے جونہی یہ بریکنگ نیوز سنی‘ ان کا ماتھا ٹھنکا کیونکہ آل انڈیا ریڈیو پر یہ خصوصی انائونسمنٹ کرنے والا ملٹری اکیڈمی ڈیرہ دون میں جنرل موسیٰ کے ساتھ کمیشن حاصل کرنے والا ان کا دوست De Mello تھا۔ جنرل موسیٰ آپریشن روم سے باہر نکل کر کھلی ہوا میں آئے اور اپنے دوست ڈی میلو کی زبان سے ادا کیے جانے والے ایک ایک لفظ اور اس کے لہجے میں چھپے خفیہ پیغام پر غور کرنے لگے۔ جلد ہی وہ معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے اور سمجھ گئے کہ بھارت کچھ کرنے والا ہے اور اس کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔ جنرل موسیٰ نے فوری طور پر ایک ہنگامی میٹنگ طلب کی اور اپنی معلومات کی روشنی میں بتایا کہ مجھے اس اچانک اعلان کے پیچھے بھارت کی نیت پر شک ہے اور ڈی میلو کے ساتھ گزارے اپنے طویل وقت کے تجربے کی بنا پر میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ بھارت مغربی یا مشرقی پاکستان پر حملہ کرنے والا ہے۔ جنرل موسیٰ نے4 ستمبر کو رات ساڑھے دس بجے بحیثیت کمانڈر انچیف پاکستان آرمی ایک فرمان جاری کرتے ہوئے ملک بھر کی تمام فارمیشن کو آگاہ کیا ''کسی بھی وقت بھارتی فوج کے مغربی اور مشرقی پاکستان پر ممکنہ حملے کے پیش نظر فوری طور پر دفاعی پوزیشنز لے لی جائیں‘‘۔ مگر مسئلہ یہ ہوا کہ1959ء میں یہ فیصلہ کیا گیاتھا کہ آئندہ عسکری احکامات میں نان ملٹری لینگویج استعمال نہیں کی جائے گی لیکن چار ستمبر کو جاری کیے جانے والے اس ہنگامی حکم میں یہ بات فراموش کر دی گئی جس سے مختلف فارمیشنزاس حکم کا صحیح مفہوم نہ سمجھ پائیں۔
لاہور پر بھارتی فوج کے حملے سے چند گھنٹے قبل تین بڑی سویلین جیپیں واہگہ بارڈر پر کسٹم اور امیگریشن حکام کے پاس کچھ دیر کے لیے رُکیں اور پھر لاہور کی جانب چل دیں۔ ان گاڑیوں میں بھارت میں تعینات انٹرنیشنل ایڈ ایجنسی کے اہلکار سوار تھے۔ یہ حکام اس عشائیہ میں شرکت کے لیے نئی دہلی سے خصوصی طور پر لاہور آئے تھے جو عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے دیا جا رہا تھا۔ اس عشائیہ میں لاہور کی10 ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈر میجر جنرل سرفراز خان بھی مدعو تھے۔ ہوا یہ کہ عشائیہ شروع ہونے سے چند منٹ پہلے ہی ایک جیپ ڈرائیور اپنے پیٹ میں درد کا بہانہ بناتے ہوئے واپس چلا گیا۔ اس کاایک ساتھی ڈرائیور اسے واہگہ چیک پوسٹ پر چھوڑنے آیا اور جب وہ واپس تقریب میں پہنچا تو اس کے ساتھ ایک اور ڈرائیور تھا۔ رات نو بجے کے قریب عشائیہ ختم ہونے پر یہ ڈرائیورز اپنے تمام مہمانوں کو بھارت واپس لے جانے کیلئے واہگہ بارڈر کی جانب روانہ ہو گئے۔یہ ڈرائیورز دراصل بھارت کی ملٹری انٹیلی جنس کے اہلکار تھے جو یہ دیکھنے کیلئے بھیجے گئے تھے کہ لاہور کی سرحد اور باٹا پور پل سمیت ارد گرد کے علاقوں کی صورتحال کیا ہے تاکہ پاکستان کے دفاعی بندو بست کا جائزہ لیا جا سکے۔ چونکہ یہ قافلہ آتے اور جاتے ہوئے لاہور چھائونی کی حدود سے گزرا تھا لہٰذا تربیت یافتہ افراد کے لیے یہ جاننا کوئی مشکل نہ تھا کہ سرحدی صورت حال کس قسم کی ہے۔ د وسری طرف پانچ ستمبر کو ہیڈ کوارٹر ویسٹرن کمانڈ کے سینئر افسران نے شملہ میں سول افسران اور شہریوں کی طرف سے دیے گئے ایک ظہرانہ میں شرکت کی تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ جاسوسوں اور ایجنٹوں کو دھوکا دیا جا سکے۔ ایک طرف بھارت کی ویسٹرن کمانڈ عوامی ظہرانے میں شریک تھی تو دوسری طرف جنرل ہربخش سنگھ اور ان کے سٹاف کیلئے شملہ کلب کے عقب میں ایک ہیلی کاپٹر تیار کھڑا تھا جس نے چار بجے شام انہیں جالندھر پہنچانا تھا تاکہ وہ لاہور پر حملے کی کمانڈ کر سکیں۔
پاکستان کے کچھ بیرونی ذرائع اگست کے وسط سے ہی سامبا کٹھوعہ روڈ پر کچھ غیر معمولی نقل و حرکت کی اطلاعات دے رہے تھے۔ ملٹری انٹیلی جنس کے لیفٹیننٹ کرنل شیر زمان نے کمانڈنٹ ایس ایس جی کرنل ایس جی مہدی سے کہا کہ وہ سامباکٹھوعہ روڈ سے کچھ لوگوں کو اٹھا کر لائیں تاکہ کچھ معلومات مل سکیں۔ اسی رات ایک بجے کے قریب کرنل مہدی نے کرنل زمان کو اطلاع دی کہ بھارتی فوج کا ایک Despatch Rider ہماری تحویل میں ہے اور اس کے پاس سے بھارت کی ہیڈ کوارٹر ون آرمرڈ ڈویژن کی جانب سے بھیجی جانے والی ڈاک ملی ہے جس کو راولپنڈی روانہ کر دیا گیا ہے۔ ایم آئی کے کرنل زمان اور میجر سردار نے ان پیغامات کے ایک ایک لفظ کو انتہائی غور سے پڑھا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بھارت کا مشہور ون آرمرڈ ڈویژن سامبا کے جنگلات میں کہیں موجود ہے۔ کرنل زمان نے اسی وقت چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل شیر بہا در کو اطلاع کر دی۔ جنرل شیر بہادر پانچ ستمبر کی صبح راولپنڈی پہنچے جہاں مذکورہ ڈاک کے حوالے سے ایک اہم میٹنگ تھی۔ انٹیلی جنس کے بریگیڈیئر ریاض نے ون آرمڈویژن کے کاغذات کا بغور جائزہ لیتے ہوئے بے ساختہ کہا ''یہ تو بھارت کا وہی جنگی پلان ہے جو پنڈت نہرو کی ہدایت پر انڈین آرمی نے 1950ء میں پاکستان پر حملہ کرنے کیلئے ترتیب دیا تھا‘‘۔
تین ستمبر کو جی او سی 10 ڈویژن نے لیفٹیننٹ جنرل بختیار رانا سے درخواست کی کہ وہ اپنی ڈویژن کو جنگی پوزیشنوں پر تعینات کرنا چاہتے ہیں لیکن ایسا کرنے کی اجازت یہ کہہ کر نہیں دی گئی کہ اس سے بھارت محاذ آرائی پراتر آئے گا۔ اس وقت کسے خبر تھی کہ بھارت 1950ء میں پاکستان پر حملے کے بنائے گئے پلان کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک ماہ قبل ہی تمام بھارتی ڈویژنز کو حملے کے لیے ہدایات دے چکا ہے۔