جنگِ ستمبر کے معرکہ حق و باطل کوگزرے آج 58 برس ہو چکے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ اس حوالے سے آج کل بہت زیادہ ابہام پھیلایا جا رہا ہے جبکہ ہماری آج کی نئی نسل کے لیے اس جنگ کا پس منظر جاننا بہت ضروری ہے کہ یہ کیوں اور کیسے شروع ہوئی؟ جب تک اس جنگ کا پس منظر سمجھ نہیں آئے گا‘ اس وقت تک اس جنگ کے اصل حقائق پوشیدہ رہیں گے۔ بدقسمتی سے ہمارے چند دانشوروں اور ان کے سرپرست سیاست دانوں کا ایک بڑا میڈیا کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے مسلسل اس تاثرکو عام کرتا چلا آ رہا ہے کہ جنگ ستمبر پاکستان کے چند بااختیار افراد کی مہم جوئی کے سوا اور کچھ نہ تھی۔ امن اور آشا جیسے خوبصورت نعروں کے ذریعے پھیلائے گئے ان بیانیوں کا جواب تاریخی حوالہ جات سے دینا ضروری تھا لیکن حکمرانوں کی مصلحتوں، کمزوریوں اور ذاتی مجبوریوں نے انہیں پابند کیے رکھا جس کی وجہ سے گزشتہ نسل تو اپنی جگہ‘ آج کی جوان نسل بھی یہ نہ جان سکی کہ سچ کیا ہے۔ بلکہ ان کے ذہنوں میں بھارت کی طاقت اور برتری کا تاثر کہانیوں اور فلموں کے ذریعے ٹھونسا جاتا رہا۔ آج بھی ایسے افراد کی کمی نہیں جو پاکستان کو جنگِ ستمبر کا شکست خوردہ فریق ٹھہراتے ہیں۔ حالانکہ پاکستان کو مہم جوئیوں کا ذمہ دار ٹھہرانے والا یہ مخصوص گروہ بھارت کی عیاری اور چالاکی کی بات کرنے سے ہمیشہ کتراتا رہا۔ اس حوالے سے خود بھارتی فوجیوں اور پریس نے کیا حقائق بیان کیے‘ عالمی میڈیا نے اس جنگ میں کیا رپورٹ کیا‘ یہ موضوعات شاید ہمارے یہاں کے محققین کے لیے دلچسپی کے حامل نہیں رہے۔
تاریخی حقائق یہ ہیں کہ کشمیر پر ڈوگرہ راجا کی حمایت کے نام پر بھارتی جارحیت یعنی پہلی پاک بھارت لڑائی کے نتیجے میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ہونے والی جنگ بندی کو ابھی دو سال بھی نہیں گزرے تھے کہ 1951ء میں امریکہ نے بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدہ کر لیا اور سات سال بعد 1958ء میں اس معاہدے کی امریکہ نے اس کے با وجود توثیق کر دی کہ بھارت غیر جانبدار ممالک کی صف میں شامل روس کا اتحادی تھا جبکہ اس کے مقابل پاکستان امریکہ اور یورپ کے اتحاد کا حصہ بن چکا تھا۔
پنڈت جواہر لال نہرو نے چین مخالف دونوں بلاکوں کی ہمدردیاںسمیٹنے کے لیے نومبر 1962ء میں نیفا میں چین کے ساتھ سرحدی جھڑپوں کا آغاز کیا جس کا سلسلہ جنگ کی صورت میں پھیلتا چلا گیا۔ بھارت کے کمیونسٹ چین کے ساتھ اس ٹکرائو پر امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں نے بھارت کو بغیر سوچے سمجھے فوجی ساز و سامان کی بھر مار کر دی۔ حالانکہ چین اور بھارت کی لڑائی اچانک شروع نہیں ہوئی تھی‘ بھارت کے بالادستی کے دیرینہ خواب کی وجہ سے یہ لاوا گزشتہ دس سالوں سے پک رہا تھا۔ اس وقت کی بھارتی فوجی اور سیاسی قیادت نے اپنی فوج اور عوام کا مورال بلند کرنے کے لیے سب سے پہلے مالابار کے ساحل پر پرتگالی کالونی ''گوا‘‘ کو منتخب کیا۔ اس معرکہ آرائی سے پہلے اکتوبر1961ء میں نئی دہلی میں بھارت نے پرتگالی استعمار کے موضوع پر اپنے خرچ پر ''افریشیائی سیمینار‘‘ منعقد کرایا۔ اس میں مدعو کیے جانے والے مقررین نے ایک ہی نکتے پر زور دیا کہ جب تک گوا پرتگالی استعمار کے زیر اثر ہے‘ ہم سمجھیں گے کہ بھارت کا مغربی استعمار کے خلاف ہونے کا دعویٰ کھوکھلا ہے۔ پنڈت نہرو نے سیمینار سے اپنے اختتامی خطاب میں کہا ''مندوبین کے خیالات نے ہمارے مزاج کو استعمار کے خلاف پہلے سے بھی زیادہ حساس بنا دیا ہے‘‘۔ سیمینار کے ٹھیک ایک ماہ بعد بھارتی فوج نے گوا پر چڑھائی کرتے ہوئے اس پر قبضہ کر لیا اور اس قبضے کے ساتھ ہی پورے بھارت میں جنونی قسم کے جشن کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
پنڈت نہرو نے اس قبضے کے نشے میں سرشار پریس کانفرنس کے دوران چین کے بارے میں پوچھے جانے والے ایک سوال پرکہا: بے شک ہمارے پاس طاقت کے استعمال کا طریقہ موجود ہے مگر اسے مناسب موقع پر استعمال کیا جانا چاہئے۔ پنڈت نہرو کی اس پریس کانفرنس کے اگلے ہی روز بھارت کے وزیر داخلہ لال بہادر شاستری نے ایک جلسۂ عام میں چین کو دھمکی دی کہ اگر چینیوں نے ہمارا علاقہ خالی نہ کیا تو ہمیں گوا کا واقعہ دہرانا پڑے گا اور پھر ہم چینی فوجیوں کو پرتگالیوں کی طرح اٹھا کر باہر پھینک دیں گے۔ اسی جلسے میں کانگریس کے صدر سنجیوا ریڈی نے بڑھک مارتے ہوئے کہا ''اپنی سرزمین سے چین اور پاکستان‘ دونوں سے یکساں سلوک کرتے ہوئے جلد ہی ان کی جارحیت کو ختم کر کے رکھ دیں گے‘‘۔ ابھی گوا کے جشن کا نشہ کم نہ ہوا تھا کہ پنڈت نہرو نے بارہ اکتوبر 1962ء کو بھارتی فوج کو حکم دیا کہ وہ بھارت چین سرحد پر متنازع علاقہ فوری طور پر چین سے خالی کرائے۔
20 اکتوبر 1962ء کو بھارتی فوج نے لداخ اور شمال مشرقی سرحدی ایجنسی نیفا میں چینی فوجوں پر حملہ کر دیا اور چند دن کی شدید لڑائی کے بعد نومبر میں چینی فوجوں نے بھارت کے مزید دو ہزار مربع میل علاقے پر قبضہ کر نے کے بعد نیفا کی طرف پیش قدمی شروع کر دی جس سے صاف لگ رہا تھا کہ اگلے چند دنوں میں چین آسام پر بھی قبضہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ مگر اسی دوران امریکہ میدان میں کود پڑا اور اس نے چین کو خوفناک قسم کی دھمکیاں دینی شروع کر دیں‘ جس پر چین نے 21 نومبر کو یکطرفہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔
چین پر یلغار نے بھارت کو اپنی سلامتی کے حوالے سے سخت خطرے سے دوچار کر دیا تھا ، جس پر 29 دسمبر کو ''ناسائو‘‘ میں ہونے والے ایک اجلاس میں بھارت کو ہنگامی طور پر بارہ کروڑ ڈالر کی فوجی امداد دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ دوسری طرف امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا کے وفود نے بھارت کی فضائیہ کی ضروریات کا جائزہ لینے کے لیے بھارت کا دورہ کیا۔ 20 جون 1963ء کو بھارت کو مزید جدید قسم کے ہتھیار‘ ریڈار کے ذریعے وسیع مواصلاتی نظام‘ فضائی نقل و حمل اور تربیتی سہولتوں کی فراہمی پر مشتمل اسلحہ کی سپلائی شروع کر دی گئی۔ امریکہ اور مغربی ملکوں کی طرف سے بحری اور فضائی فوج کو ملنے والے اسلحے کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے بھارت کی گیارہ ڈویژن پر مشتمل بری فوج کو 22 ڈویژن تک بڑھا دیا گیا۔ یہ اس وقت کے مشہور جنگی وقائع نگار، صحافی اور ڈی ٹائمز لندن کے جنوبی ایشیا کے نمائندے نیول میکسویل (Neville Maxwell)نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا ''بھارت کے لیے اب واحد راستہ یہی رہ گیا ہے کہ وہ اپنی توجہ پاکستان پر مرکوز کر دے اور اس کے خلاف وہ ہتھیار استعمال کرے جو اسے حال ہی میں امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا سے حاصل ہوئے ہیں تاکہ چین کے ہاتھوں مار کھانے کے بعد اپنے عوام اور دنیا بھر کی رائے عامہ میں اپنی بچی کھچی شہرت کو برقرار رکھ سکے‘‘۔
پنڈت جواہر لال نہرو نے بائیس ڈویژن پر مشتمل اپنی بری فوج کو امریکی اور روسی اسلحہ سے لیس کرتے ہوئے اگلی مہم جوئی کی تیاریاں بھی شروع کر دی تھیں مگر قدرت نے کچھ اور ہی پلان کر رکھا تھا۔ 27 جون 1964ء کو نہرو اچانک انتقال کر گئے اور لال بہادر شاستری بھارت کے نئے وزیراعظم بن گئے۔ نہرو کے بنائے گئے پلان کو بروئے کار لانے اور روسی و امریکی اسلحے کو آزمانے کے لیے اندرونِ خانہ کوششیں جاری رہیں۔21 دسمبر 1964ء کو بھارت نے اپنے 1950ء کے آئین کے آرٹیکل میں 356-57 کی نئی شقوں کا اضافہ کرتے ہوئے بھارتی صدر کو اختیار دے دیا کہ وہ کسی بھی وقت اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حکومت ختم کرتے ہوئے وہاں صدر راج نافذ کر سکتا ہے۔ علاوہ ازیں وادیٔ کشمیر میں چیف آف سٹیٹ اور وزیراعظم کا عہدہ ختم کرتے ہوئے اسے بالترتیب گورنر اور وزیراعلیٰ کا درجہ دے دیا۔ یہ پاکستان سمیت دنیا بھر کو پیغام تھا کہ کشمیر اب ایک آزاد ریاست نہیں بلکہ باقاعدہ بھارتی صوبہ بن چکا ہے۔ پھر اپنی طاقت دکھانے کیلئے بھارتی فوج کے ہیڈکوارٹر میں تیار کیے گئے ''آپریشن کبڈی‘‘ کے لیے میجر جنرل پی اوڈن کو کمانڈر KILO مقرر کرتے ہوئے چھ اپریل 1965ء کی درمیانی شب رن آف کچھ میں پاکستان پر حملہ کر دیا گیا۔ یہ ڈومینیو چین ری ایکشن ایفکیٹ کا وہ پہلا واقعہ تھا جو ٹھیک چار ماہ بعد جنگ ستمبر کی ابتدا ثابت ہوا۔