"MABC" (space) message & send to 7575

ابھی سے سوچنا شروع کیجئے

کاش کوئی تو 2019ء میں ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی پاکستان کو درپیش انرجی بحران سے متعلق رپورٹ کو پڑھتا اور اس سے سبق سیکھنے اور مستقبل کی پلاننگ کرنے کی کوشش کرتا۔ اس رپورٹ میں صریحاً خبردار کیا گیا تھا کہ Pakistan is an energy insecure country۔ دی ٹیلیگراف لندن کے انٹرنیشنل بزنس ایڈیٹر امبروز ایونز اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ اگر سعودی عرب اپنی تیل کی پیداوار کو بڑھاتا ہے تو ''2030ء تک سعودی عرب کے تیل کے کنویں خشک ہو جائیں گے‘‘۔ اگر ٹیلیگراف کی اس رپورٹ کو ایک لمحے کیلئے تسلیم کر لیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ2030ء کے بعد سعودی عرب کا شمار بھی تیل در آمد کرنے والا ملکوں میں ہونے لگے گا؟ ایسی صورت میں سعودی عرب اپنی توانائی کی بڑھتی ہوئی ضررویات کس طرح پوری کرے گا؟ کیا وہ کویت اور عراق کی طرف دیکھے گا‘ لیکن سوال یہ ہے کہ اگراس وقت تک یہ دونوں ممالک بھی کسی کی مدد کرنے کے قابل نہ رہے تو... ؟اس وقت تک بحرین سمیت خلیجی ممالک کا نقشہ نجانے کیا ہو گا۔ عقل ٹیلیگراف لندن کی یہ رپورٹ ماننے کو تیار نہیں کہ سعودی عرب جیسا دنیا کا سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک‘ جس کی پیداوار لگ بھگ بارہ ملین بیرل روزانہ اور ایکسپورٹ تقریباً آٹھ ملین بیرل روزانہ سے زائد ہے‘ چند ہی سال بعد تیل سے خالی ہو جائے گا۔ اس وقت سعودی عرب اپنے تیل کی مجموعی پیداوار کا لگ بھگ 25 فیصد اپنی مقامی ضروریات کے استعمال میں لا رہا ہے اور اس کا پچاس فیصد صرف بجلی پیدا کرنے پر خرچ کرتا ہے جس میں ہر سال 8 فیصد کے حساب سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اگر اس صورت حال کا جائزہ لیں تو سوچنا پڑے گا کہ آج سے سات سال بعد سعودی عرب کی تیل کی پیداوار کیا ہو گی اور اس کی ہزاروں کی تعداد میں آسمان کی بلندیوں کو چھوتی زیر تعمیر عمارتیں‘ جو اُس وقت مکمل ہو چکی ہوں گی‘ کیلئے توانائی کی ضروریات کا میزان کیا ہو گا۔ کل تک کسی نے سوچا تھا کہ کویت کو اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے دوسروں کا محتاج ہونا پڑے گا؟ اب کویت اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے روس سے ایل این جی گیس در آمد کر رہا ہے۔ ٹیلیگراف کی مذکورہ رپورٹ کے مقاصد جو بھی ہوں لیکن ہمارے اردگرد کے خطے میں اس نوع کی صورت حال ہمارے لیے بھی الارمنگ ہو گی۔ اگرچہ 2030ء کی ڈیڈ لائن پر اختلاف ہو سکتا ہے مگر یہ تو طے ہے کہ یہ وقت تو آنا ہی ہے، کل نہیں تو پرسوں‘ 2030ء میں نہیں 2070ء میں۔ سعودی عرب، روس، عراق، کویت اور ایران سمیت تیل پیدا کرنے والے سبھی بڑے ممالک کے تیل کے کنویں بالآخر خشک ہو جائیں گے۔ ایک قیاس ہے کہ تب تک دنیا شاید انرجی کا کوئی دوسرا متبادل ڈھونڈ چکی ہو گی مگر پاکستان سمیت سبھی ممالک‘ جو برآمدی تیل پر انحصار کر رہے ہیں‘ کو ابھی سے سوچنا ہو گا۔ اگر تیل کے استعمال میں کفایت شعاری نہ کی گئی یا توانائی کے دیگر وسائل کو جلد از جلد بروئے کار نہ لایا گیا تو نتیجے میں توانائی کا بحران مزید شدت اختیار کرے گا۔ آنے والے دنوں میں پوری دنیا کے لیے سب سے بڑا مسئلہ انرجی کا بحران ہی ہو گا۔
1976ء میں امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے پندرہ غیر کمیونسٹ ممالک کے تجارتی، حکومتی اور علمی شعبوں سے متعلق 35 اراکین کی ایک تحقیقاتی ٹیم کے ذریعے ایک رپورٹ تیار کرائی تھی جس میں خبردار کیا گیا تھا کہ 1990ء کے بعد دنیا کے تیل کے ذخائر میں کمی ہونا شروع ہو جائے گی۔ یہ رپورٹ توانائی کے متبادل وسائل کے ڈھائی سالہ مطالعہ کے بعد مرتب کی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ بحران پیدا کرنے میں سعودی عرب کا تیل کی پیداوار میں تخفیف کا فیصلہ مرکزی اہمیت کا حامل ہو گا۔ اگر اس کی یومیہ پیداوار برقرار رہتی ہے تو 1981ء میں تیل کی مانگ بہت بڑھ جائے گی۔ اگر اس کی پیداوار اس مدت تک دگنا ہو جاتی ہے تو یہ بحران 1990ء تک ملتوی ہو سکتا ہے۔ اس رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو دنیا میں مجموعی طور پر تیل کی پیداوار میں ڈیڑھ سے دو کروڑ بیرل یومیہ تک تخفیف ہو سکتی ہے جو امریکہ کی تیل کی کھپت کی موجودہ شرح کے مساوی ہے۔ 291 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ امریکہ‘ کینیڈا‘ ڈنمارک‘ فن لینڈ‘ فرانس‘ جرمنی‘ برطانیہ‘ ایران‘ اٹلی‘ ناروے‘ سویڈن اور وینزویلا سے ایک ساتھ جاری کی گئی تھی۔ سی آئی اے کی اس رپورٹ کے بعد 1992ء میں بھی مستقبل میں خلیج اوردنیا کے دوسرے ممالک میں تیل کی پیداوار پر ایک جائزہ رپورٹ شائع کی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ عراق سے عمان تک خلیج کی سینکڑوں کلومیٹر طویل صحرائی پٹی کی تہہ میں موجود تیل کے چشمے ابل رہے ہیں اور دنیا بھر کے ماہرین کی طرف سے کی جانے والی تحقیق سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ دنیا بھر میں تیل کے دریافت شدہ ذخائر کا61 فیصد سے زیادہ حصہ سعودی عرب اور خلیج کے انہی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ نئے ذخائر‘ جو بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں‘ کی تلاش جاری ہے۔ ماہرین کی اس رپورٹ کے ابتدائی نتائج کے مطابق رواں صدی کے نصف تک دنیا کا85 فیصد تیل انہی ریگستانوں تک محدود ہو کر رہ جائے گا اور 2050ء کے بعد دنیا بھر میں خلیجی ممالک کے علاوہ صرف وینزویلا میں تیل کے ذخائر دیکھنے کو ملیں گے۔ خلیجی ممالک کے علاوہ وینزویلا اور پھر روس کے پاس تیل کے بڑے ذخائر ہیں۔ٹیلیگراف لندن کے معاشیات کے شعبے میں تیس سالہ تجربہ رکھنے والے امبروز نے 2050ء کے عرصہ کو کم کر کے اچانک 2030ء کر دیا ہے اور تیل کے ذخائر ختم ہونے کے حوالے سے پوری دنیا میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اس نے یہ سب کچھ کن معلومات کی بنا پر کہا ہے‘ یہ اپنی جگہ لیکن ایک بات جو غور طلب ہے وہ یہ کہ عرب ممالک میں جوں جوں تیل ختم ہونے کے قریب آ رہا ہے‘ امریکہ اور برطانیہ وہاں جمہوریت کی ضرورت شدت سے محسوس کرنے لگ گئے ہیں۔ اس وقت خلیج کا سب سے کم تیل کا ذخیرہ کویت کے پاس ہے جو 90 کروڑ بیرل سے کچھ زیادہ ہے‘ اس کے مقابلے میں دنیا میں تیل کا سب سے بڑا ذخیرہ سعودی عرب میں ہے جو امریکہ‘ روس اور برطانیہ کے مجموعی ذخائر سے بھی دو گنا زیادہ ہے۔
اگر2030ء تک سعودی تیل کے ذخائر ختم ہو جاتے ہیں تو پاکستان کے علاوہ بھارت، امریکہ، برطانیہ اور کئی دوسرے ممالک اپنی توانائی کی ضروریات کس طرح پوری کریں گے؟ یہ سوال مختصر ضرور ہے لیکن اس کا حجم بہت زیادہ ہے۔ پاکستان کو تو سب سے زیادہ اور آگے بڑھ کر سوچنا ہو گا کیونکہ اس کی بڑھتی ہوئی آباد ی اور روز بروز گھٹتی ہوئی پیداوار کے ساتھ تیز رفتار سے مہنگی ہوتی ہوئی توانائی کیا رنگ دکھائے گی‘ یہ بہت اہم سوال ہے۔ مختلف مغربی تھنک ٹینک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ایران کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ ایسی کوئی بھی کوشش تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ کچھ شک نہیں کہ پاکستان سمیت خلیجی ممالک اپنی آزادی کے باوجود دفاعی انحصار کی وجہ سے آج بھی امریکہ اور برطانیہ ہی کے زیر تسلط ہیں۔ خلیج میں تیل کی بہتات اور پاکستان کے نیوکلیئر اثاثوں اور جغرافیائی حیثیت پر ان کی ہر وقت نظر رہتی ہے۔ خلیج کے میدانوں کی سب سے اہم خوبی زبردست پیداواری دبائو یعنیFormation Pressure ہے جس کا فائدہ کم پیداواری لاگت اور تیل کی زیادہ یومیہ پیداوار ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ خلیج کے تیل کی یومیہ پیداوار کو کسی بھی وقت چار گنا تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ خلیجی تیل کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ سمندر قریب ہونے کی وجہ سے خام تیل کی نقل و حمل کے اخراجات بھی بے حد کم ہیں اور خام تیل کی صفائی پر خرچ بھی سب سے کم اٹھتا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کی تیل کمپنیوں کا یہ اعتراف بھی ریکارڈ پر ہے کہ خلیجی ریاستوں کا تیل اپنی کارکردگی کے اعتبار سے دنیا کے دوسرے تیل کے مقابلے میں سب سے معیاری ہے۔ اگر پاکستان میں تیل کے استعمال میں کفایت شعاری نہ برتی گئی یا توانائی کے دیگر وسائل کو جلد از جلد بروئے کار نہ لایا گیا تو 2030ء کے بعد پیدا ہونے والے تیل کے بحران سے کیسے نمٹا جائے گا؟ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں