بدھ کے روز اَننت ناگ (اسلام آباد) مقبوضہ کشمیر میں آپریشن کے دوران بھارتی فوج کے 19راشٹریہ رائفلز کے کرنل من پریت سنگھ‘ 15سکھ لائٹ انفنٹری کے میجر اشیش اور مقبوضہ کشمیر پولیس کے ڈی ایس پی ہمایوں مزمل بھٹ کو گھات لگائے بیٹھے نامعلوم افراد نے حملہ کرکے ہلاک کر دیا‘ لیکن بھارت کی طرف سے اس کا الزام کسی منصوبہ کے تحت یا حسبِ عادت پاکستان پر لگا دیا گیا اور اس واقعہ کے فوری بعد شاید پہلے سے ہی طے شدہ پروگرام کے تحت نئی دہلی اور بھارت کے دوسرے شہروں میں پاکستان کے خلاف مظاہرے شروع کرا دیے گئے جن میں مظاہرین سے سبز ہلالی پرچم بھی نذرِ آتش کروایا گیا۔ بھارتی میڈیا بھی اس واقعہ پر آگ بھڑکاتے ہوئے اسے پاکستان سے منسوب کر رہا ہے۔ بھارتی جنرلز نے پاکستان پر سرجیکل سٹرائیکس کی دھمکیاں دینا شروع کر رکھی ہیں لیکن انہیں ایسی گیدڑ بھبھکیوں سے پہلے فروری 2019ء کا انجام یاد رکھنا چاہیے۔ یہ الزامات دراصل مودی سرکار کی انتخابی مہم کا آغاز ہیں کیونکہ بھارت کے سمجھوتہ ایکسپریس‘ چٹی سنگھ پورہ‘ پلوامہ اور راجوڑی سمیت دہشت گردی کے نہ جانے کتنے واقعات ہیں جن کے کھرے آخر میں بھارتی ایجنسیوں تک پہنچے۔ اگر ممبئی کے 26/11 کی بات کریں تو انسپکٹر جنرل ممبئی پولیس ہیمنت کرکرے کی ٹارگٹ کلنگ والی مثال ہی کافی ہو گی۔ ستمبر 2008ء کے دہلی دھماکے بھی اس کی بڑی مثال ہیں۔
2008ء کے ستمبر کی 13تاریخ تھی کہ نئی دہلی میں اچانک ہڑبونگ مچ اٹھی کہ دہلی میں بم دھماکے ہو رہے ہیں۔ لمحوں میں انڈین میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا کہ ان دھماکوں کے پیچھے پاکستان ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس نکلی۔ ہوا کچھ یوں کہ بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں 13ستمبر 2008ء کو سڑکوں اور پارکوں میں رکھے گئے کوڑا دانوں میں اچانک بم دھماکوں کی سیریل شروع ہو گئی جن میں دو درجن کے قریب افراد ہلاک ہو گئے۔ کُل دس بموں میں سے پانچ بم پھٹے اور باقی پانچ خاموش رہے۔ ان بم دھماکوں کو یوں ترتیب دیا گیا کہ پہلا دھماکہ قرول باغ کی مسلم آبادی والی مصروف ترین غفار مارکیٹ میں چھ بج کر سات منٹ پر ہوا۔ یہ بم ایک آٹو رکشہ‘ جو مارکیٹ کے اندر پارک تھا‘ کی سی این جی کٹ کے نیچے نصب تھا۔ کیا غفار مارکیٹ کے اندر رکشہ پارک کرنے کی اجازت تھی‘ اگر نہیں تھی تو پولیس کہاں تھی؟ چھ بج کر 34منٹ پر دوسرا دھماکہ بارکھنڈا میٹرو کے داخلی دروازے کے باہر ایک کچرے کے ڈبے میں ہوا۔ تیسرا دھماکہ چھ بج کر 35پر سنٹرل پارک کناٹ پیلس میں راجیو چوک میٹرو سٹیشن کے باہر نصب کچرے کے ڈبے میں ہوا۔ چوتھا بم دھماکا چھ بج کر 37 منٹ پر ایم بلاک مارکیٹ گریٹر کیلاش کے قریب ایک کوڑے کے ڈبے میں ہوا اور پانچواں بم چھ بج کر 38 منٹ پر ایم بلاک کی مارکیٹ میں پھٹا اور باقی پانچ بم جو پھٹ نہ سکے‘ ان میں سے ایک انڈیا گیٹ کے پارک کے لان میں رکھے گئے کچرے کے ڈبے میں پڑا ہوا تھا‘ دوسرا بم ریگل سینما کے پاس ریمنڈ شاپ سے ملا‘ تیسرا اور چوتھا بم پارلیمنٹ ہاؤس کے عقب سے ملا اور پانچواں بم پاکیکا بازار سے ملا۔ یہ سب عجب اتفاقات ہیں کہ جہاں مسلم آبادیاں تھی وہاں تو مجاہدین نامی تنظیم کی طرف سے نصب کیا گیا اکیلا بم تباہی لے آتا ہے لیکن باقی جو 9بم نئی دہلی کے پوش علاقوں میں نصب تھے‘ ان میں سے صرف چار بم پھٹے جن سے اِکا دُکا راہگیر زخمی ہوئے اور باقی پانچ بموں نے نہ جانے کس خوف سے پھٹنے سے انکار کر دیا۔ اب مضحکہ خیز بات یہ ہوئی کہ نئی دہلی پولیس اور بھارتی خفیہ اداروں کو پلک جھپکتے میں الہام ہو گیا کہ پورے دہلی میں نصب ہزاروں کچرے کے ڈبوں میں فلاں فلاں جگہوں پر رکھے گئے کچرے کے ڈبوں میں بم پڑے ہوئے ہیں جنہیں نا کارہ بنانا ہے۔ ان نہ پھٹنے والے پانچ بموں کو کس نے اور کہاں ناکارہ بنایا‘ اس بات کا پورے بھارت میں ابھی تک کسی کو بھی علم نہیں ہو سکا۔ ان بموں کو کسی نے نا کارہ ہوتے نہیں دیکھا تھا تو کیا بھارتی میڈیا کا کوئی ایک فرد بھی یہ بتا سکتا ہے کہ ان نہ پھٹنے والے پانچ بموں کو ناکارہ بنائے بغیر کون اپنی جیبوں میں ڈال کر لے گیا تھا؟
اُس وقت کی نئی دہلی پولیس نے بموں کی اس کہانی میں رنگ بھرنے کیلئے جو رپورٹ مرتب کی اس کے مطابق کناٹ پیلس میں غبارے بیچنے والا عینی شاہد راہول نامی ایک بارہ سالہ بچہ بتاتا ہے کہ کچرا دانوں میں بم پھینکنے والوں کے حلیے مسلمانوں جیسے تھے اور دوسری طرف بھارتی ایجنسیوں نے رپورٹ دی کہ ایک اور عینی شاہد 48سالہ رکشہ ڈرائیور مول چند کے مطابق اس نے ایک عورت اور بچے کو کچرا دانوں میں شاپر پھینکتے ہوئے دیکھا تھا۔ نئی دہلی پولیس اور بھارتی ایجنسیوں کی رپورٹس میں یہ تضاد کیوں؟ نئی دہلی کے ان بم دھماکوں کی ذمہ داری مجاہدین نامی جس تنظیم نے قبول کرتے ہوئے میڈیا کو اس کی اطلاع دی اور جس ویب سائٹ سے چھ بج کر سات منٹ پر غفار مارکیٹ میں پہلا دھماکہ ہونے کے چند سیکنڈ بعد بیان جاری کیا گیا وہ ایم کانتھ نامی ایک ہندو کی کامرون پاور کمپنی کی ویب سائٹ ہے اور 1981ء سے قائم یہ کمپنی پاور سسٹم کی مرمت کا کام کررہی ہے۔ دہلی پولیس کے مطا بق یہ کُل دس بم تھے جن میں سے صرف پانچ بلاسٹ ہوئے باقی ناکام رہے اور اسی طرح کا ایک بم انڈیا گیٹ کے پاس ناکارہ بنایا گیا جس پر اس کا سیریل نمبر دس لکھا ہوا تھا۔ بھارتی ایجنسیاں اپنی فلموں کی طرح مار دھاڑ سے بھر پور اُوٹ پٹانگ قسم کے سکرپٹ لکھتے ہوئے بھول جاتی ہیں کہ عوام اب سوچتے بھی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ یہ بم دھماکے جن میں دو درجن لوگ ہلاک ہوئے تھے‘ ان میں طاقتور ترین دھماکہ قرول باغ میں ہوا جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ تھی اور نئی دہلی کے پوش علاقے کناٹ پیلس میں دھماکے ان پارکوں میں ہوئے جہاں اِکا دُکا لوگ موجود تھے؟ 13ستمبر 2008ء کو نئی دہلی کے پوش علاقوں میں پانچ بموں نے اسی طرح پھٹنے سے انکار کر دیا جیسے اس سے قبل 22جولائی کو جے پور میں نصب کیے گئے چالیس بموں نے پھٹنے سے انکار کر دیا گیا تھا جو درختوں اور ہورڈنگز کے عقب میں نصب تھے۔ یہ کیسے تخریب کار تھے جو جے پور کے درختوں میں بم نصب کرتے رہے؟ جے پور دھماکوں کی آڑ میں سینکڑوں نوجوان مسلمانوں پر بھارتی پولیس اور ایجنسیوں کی طرف سے اسی طرح قیامت ڈھائی گئی جیسے کشمیر میں فوجی افسران کی ہلاکت کے بعد بھارت کے طول و عرض کے مسلمانوں پر ظلم کا بازار گرم ہے۔
بھارتی ایجنسیاں اپنے ٹی وی چینلز کی طرح کئی کئی سو قسطوں پر مبنی نت نئے ڈرامے کرنے میں مہارت رکھتی ہیں۔ G20کے سربراہی اجلاس کے فوری بعد جب دنیا بھر کے میڈیا کا رُخ بھارت کی جانب ہو چکا تھا‘ بھارت کی طرف سے اپنے ہی فوجی افسران کا پلوامہ اور راجوڑی کیمپ کی طرح بلیدان دیتے ہوئے پاکستان کو بدنام کرنے کا پرانا لیکن آزمودہ ڈھونگ رچا لیا گیا۔ اسی طرح کا ایک ڈرامہ اس وقت بھی سامنے آیا تھا جب نائن الیون کے بعد امریکی فورسز کو پاکستان نے اپنے اڈے دینے میں ہچکچاہٹ کا اظہار کیا تو اس وقت نئی دہلی میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کا ڈرامہ رچا دیا گیا اور انڈین پارلیمنٹ ہائوس پر حملے کے رچائے گئے اس ڈرامے کے چند دنوں بعد بھارت کی دس لاکھ سے زائد فوج کو کیل کانٹے سے لیس کرتے ہوئے پاکستانی سرحدوں پر بٹھا دیا گیا اور بھارتی فوج کو پورے گیارہ ماہ تک پاکستان کے سر پر سوار رکھا گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کیوں اور کس کے لیے تھا؟ اپنے فوجی افسران کی ٹارگٹ کلنگ کے کھیل سے خدشات سر اٹھا رہے ہیں کہ بھارت پھر سے پاکستان میں کوئی ایڈوینچر کرنے کے ارادے رکھتاہے۔