پاکستان کے معاشی و سماجی حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں مگر سیاسی میدان میں میثاقِ معیشت کے دعویداران کی جانب سے ایک دوسرے کو ہلکی ہلکی جو چٹکیاں بھری جا رہی ہیں ان پر بھی عوام سخت حیران ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ اس وقت سبھی سیاسی جماعتیں عام انتخابات کے طبل بجنے کے انتظار میں بیٹھی ہیں اور عوامی حالتِ زار پر یہ تشویش اور ایک دوسرے پر الزام تراشی صرف الیکشن کی حد تک ہے۔ ورنہ یہی پی ڈی ایم تھی جس نے دو ماہ قبل دبئی میں ''میثاقِ معیشت‘‘ کے ایک چارٹر پر دستخط کیے تھے، جو مستقبل میں بھی ساتھ مل کر حکومت کرنے کے وعدے اور معاہدے کر چکے ہوں‘ ان کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ شاید دوبارہ مخالف صفوں میں آ گئے ہیں‘ کسی خوش فہمی سے زیادہ نہیں۔ ان کے میثاقِ معیشت کا کمال دیکھئے کہ آج میرے جیسے لوگ‘ جنہیں اس ماہ ایک لاکھ چودہ ہزار روپے کا بجلی کا بل آیا ہے‘ وہ بھی دل تھام کر بیٹھ گئے ہیں تو سوچئے ذرا کہ غریب طبقے کا کیا حال ہو تا ہو گا۔ جب غربا اور مساکین سے لے کر سفید پوش طبقے کو ''نئے میثاقِ معیشت‘‘ کے تحت بجلی کے بل موصول ہوں گے‘ جن میں حکومت کی جانب سے ایک ہزار سے دس ہزار روپے تک ملنے والی ماہانہ رعایت کو چپکے سے ختم کرنے کے علاوہ بجلی کی قیمت میں تین سے چار گنا تک اضافہ کیا گیا ہو گا تو سوچیے کہ کیا حال ہو گا۔
زیادہ نہیں محض ڈیڑھ سال پرانی بات ہے کہ یہی پاکستان تھا اور یہی عوام‘ جب مارچ 2021ء میں بڑے بڑے اشتہارات کی صورت میں ایک باقاعدہ کمپین چلائی گئی تھی۔ ایک ٹیکسی ڈرائیور کو فریاد کرتے دکھایا گیا تھا کہ پٹرول 150 روپے فی لیٹر ہونے کے بعد وہ بچوں کو دو وقت کی روٹی نہیں کھلا سکتا۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے ایک سینیٹر صاحب سائیکل پر بیٹھ کر پارلیمنٹ ہائوس آئے اور بڑے فخر سے اپنی وڈیو بنواتے ہوئے فرمایا کہ ایک متوسط شخص اتنا مہنگا پٹرول کیسے افورڈ کر سکتا ہے۔ اس وقت ایک جماعت کے اراکین کفن پہن کر اور گلے میں روٹیاں لٹکا کر اسلام آباد میں ''نااہل حکومت‘‘ کے خلاف دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے تھے۔ تینوں بڑی سیاسی جماعتیں مہنگائی کے خلاف مارچ لے کر اسلام آباد آئی تھیں اور وہاں دھرنادینے کے بعد جلسہ بھی کیا گیا۔ وہ عوامی ہمدرد بھی اب نجانے کہاں چلے گئے جو اپنے جلسوں میں عوام کو مہنگی بجلی کے نام پر بھیجے جانے والے بجلی کے بلوں بارے ہدایات دیا کرتے تھے کہ جب یہ ووٹ مانگنے آپ کے پاس آئیں تو اپنے بجلی کے یہ بل انہیں دکھا کر کہنا کہ یہ لو تمہارا ووٹ۔
سولہ روپے بجلی کا یونٹ ہونے پر اور پٹرول پانچ‘ دس روپے تک مہنگا ہونے پر تمام توپوں کا رخ اس وقت حکومت کی جانب ہو جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ مزید اتنے لوگ خطِ غربت سے نیچے چلے گئے ہیں، اتنا مہنگا پٹرول کون افورڈ کرے گا، اب روٹی کون کھا سکے گا، کروڑوں غریبوں پر ''تبدیلی‘‘ کے نام پر یہ ظلم کیوں ڈھایا جا رہا ہے۔ ان حالات میں عوام کو سستا آٹا، گھی، چینی، دالیں، چاول اور دوسری اشیائے ضروریہ فراہم کرنے کیلئے پی ڈی ایم نامی سیاسی اتحاد کے غبارے میں دوبارہ ہوا بھری گئی۔ اس سے قبل یہ غبارہ 13 دسمبر 2020ء کے مینارِ پاکستان جلسے کے بعد ٹھس ہو گیا تھا جب اس وقت کی اپوزیشن کی تمام جماعتیں مل کر بھی لاہور میں دس‘ بارہ ہزار سے زیادہ لوگ اکٹھے نہیں کر سکی تھیں۔ بہرکیف ایک سال کے وقفے کے بعد 2021ء کے اواخر میں ان تمام جماعتوں کو دوبارہ یکجا کر کے حکومت کے خلاف فضا بنائی جانے لگی۔ اعلان کیا گیا کہ ہم سب نے مل کر فیصلہ کیا ہے کہ ''فارورڈ بلاک‘‘ سے تبدیلی سرکار کی تمام باقیات کو ختم کر کے چین لیں گے کیونکہ ہمیں نئے نہیں بلکہ پرانے پاکستان ہی کی ضرورت ہے اور تبدیلی سرکار کے لیے اب کوئی جگہ نہیں۔ یہ کام جو دسمبر 2021ء میں شروع ہوا تھا‘ اپریل 2022ء میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچا۔ آج تحریک عدم اعتماد کو ڈیڑھ برس کا عرصہ ہو چکا ہے اور اس ڈیڑھ سال میں ''نااہل تبدیلی سرکار‘‘ کی تمام باقیات کا ایک ایک کر کے صفایا کر دیا گیا۔
عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد پی ڈی ایم نے حکومت سنبھالی اور سولہ ماہ تک ملک کی تقدیر کے فیصلے کیے۔ وزیراعظم ہائوس سے رخصت ہوتے ہوئے اپنی الوداعی تقریر میں سابق وزیراعظم میاں شہباز شریف نے قوم کو یقین دلاتے ہوئے کہا کہ گھبرائیں مت! میں اپنے بھائی سمیت دوبارہ آ رہا ہوں اور وہ کسر اور وہ کمی جو ملک و قوم کی خدمت میں ان ڈیڑھ برسوں میں رہ گئی ہے‘ وہ جلد دوبارہ حکومت میں آ کر پوری کر دیں گے۔ شہباز شریف کی تقریر اور دعووں کی نفی کی ہم میں تو جرأت نہیں لیکن ملکی حالات سے متعلق ایک حالیہ پورٹ کے چیدہ چیدہ نکات پیش کر دیتے ہیں‘ خود ہی موازنہ کر لیجیے: ملک کی مجموعی ترقی کی شرح‘ جو پی ڈی ایم کی اپنی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے دور میں 6.1 فیصد تھی‘ اسے کمال ہنرمندی سے صرف ایک سال میں پی ڈی ایم کی تجربہ کار حکومت نے ایک فیصد سے بھی کم کر دیا۔ ڈالر ریٹ‘ جس کا خوب غلغلہ رہتا تھا اور جو پی ٹی آئی کے پونے چار سالہ دور میں پچاس روپے کے قریب بڑھا‘ اس کو سولہ ماہ میں 178 روپے سے بڑھا کر 305 روپے پر پہنچا دیا گیا اور یہ سب اس شخصیت کا کمال تھا جس کی آمد پر ''ڈالر نے کانپنا‘‘ شروع کر دیا تھا۔ غیر ملکی قرضوں کا تو ذکر ہی کیا۔ سٹیٹ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت نے اپنی 15 ماہ کی مدتِ اقتدار کے دوران سرکاری قرضوں میں 18.5 ٹریلین روپے کا اضافہ کیا جو پاکستان تحریک انصاف کے چوالیس ماہ میں لیے گئے قرضوں سے بھی زائد ہے۔ یادش بخیر جب پرویز مشرف کے ہاتھوں میاں نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی تو اس وقت پاکستان کے زرمبادلہ کے کل ذخائر تین ارب ڈالر کے لگ بھگ تھے اور جب پرویز مشرف کی ایوانِ اقتدار سے رخصتی ہوئی تو اس وقت 2007-08ء میں زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈالر سے زائد تھے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق اپریل 2022ء سے اپریل 2023ء تک‘ صرف ایک سال کے عرصے میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ایک سو روپے سے زیادہ کی کمی ہوئی جبکہ شرحِ سود میں ساڑھے نو فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اس عرصے میں پٹرول و ڈیزل کی قیمت دو گنا ہو گئیں اور ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر 10.5 ارب ڈالرز سے کم ہو کر 4.2 ارب ڈالرز رہ گئے۔
''میثاقِ معیشت‘‘ نے ڈالر، ترسیلاتِ زر، ایکسپورٹس، پٹرول، گھی، چینی اور آٹے کی قیمتوں کی صورت میں عوام کی جو درگت بنائی ہے‘ وہ وہی جان سکتے ہیں جن پر یہ سب بیت رہی ہے۔ مراعات یافتہ طبقے کو کیا غرض کہ چینی‘ جو چند ماہ قبل تک 80 سے 90 روپے فی کلو تک مل رہی تھی اور جو بڑے شہروں تو کجا‘ دور دراز کے دیہات اور گوٹھوں میں بھی بہ آسانی دستیاب تھی‘ اس کی قیمت اب بڑے شہروں میں 170 سے 180 روپے اور باقی ملک میں 200 بلکہ اس سے بھی اوپر پہنچ چکی ہے۔ آٹا جو ''نااہلوں‘‘ کے دور میں 55 روپے فی کلو مل رہا تھا‘ اب 120 روپے سے بھی تجاوز کر چکا ہے، اور وہ بھی قطاروں میں لگ کر لینا پڑتا ہے۔ چائے اور گوشت (چکن، مٹن، بیف) کی قیمتیں سن کر ہاتھ پائوں سُن ہو جاتے ہیں۔ غریب لوگ جنہیں قدرتی گیس کی سہولت میسر نہیں اور جو گیس سیلنڈر بھی خرید نہیں پاتے‘ یا دور دراز کے علاقوں میں رہتے ہیں‘ اب ایندھن کی قیمتوں کو کوس رہے ہیں۔ صرف لکڑی کی قیمت میں 600 روپے من سے زائد کا اضافہ ہو چکا ہے۔ پھل تو اب صرف امیروں کی خوراک بن کر رہ چکے ہیں جبکہ روزمرہ استعمال کی سبزیاں بھی آج جس بھائو مل رہی ہیں وہ ہوش ٹھکانے لگا دیتے ہیں۔ پیاز‘ لہسن‘ گوبھی‘ کریلے‘ پالک‘ مٹر اور لوکی تک کی قیمتیں عوام کا منہ چڑا رہی ہیں۔ پہلے کبھی کہا کرتے تھے کہ غریب دال روٹی پر گزارہ کر کے اپنی زندگی کے دن پورے کرتا ہے۔ اب یہ تصور بھی محال ہے کیونکہ تمام اقسام کی دالیں اب غریبوں کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں۔ ناشتے میں استعمال ہونے والی ڈبل روٹی کی قیمت سو سے ڈھائی سو روپے اور انڈے 360 روپے درجن ہو چکے ہیں۔ ابھی پٹرول کی قیمتوں‘ جو 330 سے بھی اوپر پہنچا دی گئی ہیں‘ کے آفٹر شاکس کا آنا باقی ہے۔ گھریلو استعمال کی بجلی کا ایک یونٹ تمام ٹیکسز اور محصولات ملا کر سو روپے کی حد کو چھو رہا ہے اور ان حالات میں میثاقِ معیشت خوب قہقہے لگا رہا ہے۔