ہندوتوا کے علمبردار بھارت میں سکھوں اور ان کے مقدس مقامات سے کس قدر عقیدت اور احترام کا رویہ رکھا جاتا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے کر لیجئے کہ پاکستان اور چین کے ساتھ کسی بھی جنگ یاجھڑپ کے دوران طیاروں کو مار گرانے کیلئے اینٹی ایئر کرافٹ گنوں اور توپوں کو گولڈن ٹیمپل اور سکھوں کے گردواروں کے اردگرد چھپایا جاتا ہے۔ کیا کبھی بھارتی فوج نے کسی جنگ میں مندروں یا بڑے استھانوں پر یہ اینٹی ایئر کرافٹ گنیں یا توپیں نصب کی ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو بھارتی فوج کے سکھ یونٹس ہی نہیں بلکہ ہر خالصہ ہندوکے پرستار اکالی دَل اور سکھوں کے ان گروہوں‘ جو مودی سرکار اور فوج کے تنخواہ دار ہیں‘ سمیت تمام بھارتی لیڈرشپ سے پوچھا جا رہا ہے۔ بھارتی پنجاب میں آنے والے تباہ کن سیلاب کو اگر کسی نے اپنے دامن میں سمیٹا تو وہ ''لہندا پنجاب‘‘ ہے۔ مشرقی پنجاب جب طوفانی ریلوں کی زد میں تھا اور راجستھان اور ہریانہ کی سرکاروں نے پانی لینے سے انکار کر دیا تھا تو مغربی پنجاب نے قصور سے سلیمانکی، وہاڑی اور بہاولنگر تک انڈیا کے چھوڑے گئے پانی کو‘ جس نے یہاں بھی بہت تباہی مچائی‘ اپنے اندر سمیٹ لیا تھا۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ ہندو توا کے دل میں خالصہ کیلئے رتی برابر بھی احترام اور پیار نہیں ہے۔ دکھاوے کیلئے وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں‘ اس کی حقیقت دنیا سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ روزِ اول سے ہندو برہمن سکھوں کو اپنی رکھشا اور اپنے دشمن کے خلاف استعمال کرتا آیا ہے۔ اپنے مفاد کی بھینٹ چڑھانے کیلئے ہندو بنیے نے ہمیشہ سکھوں کو استعمال کیا ہے۔ وقتی طور پر غصے اور نفرت کو کم کرنے کیلئے جھوٹے وعدوں اور لالچ کا سہارا لے کر لوگوں کو رام کرنا اس کی پرانی عادت ہے، جس کا ثبوت دو برس قبل بھارت کی کسان موومنٹ کی شکل میں دنیا کے سامنے ہے۔ بھارت سے باہر آباد سکھوں نے یہ ٹھان رکھی ہے کہ اپنے لیے علیحدہ دیس حاصل کرنے کے سوا اب ان کے پاس اور کوئی چارہ نہیں۔ بھارت میں رہ کر جس نے بھی خالصتان کیلئے آواز اٹھائی‘ ہندوتوا کے تشدد اور جبر نے اسے خاموش کرا دیا۔ 1982ء سے اب تک دس ہزار سے زائد سکھ نوجوان بھارتی فوج اور پولیس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
چند روز ہوئے ایک انڈین چینل پر اینکر کہہ رہا تھا کہ ''سکھ تو بھارت کی رکھشا کیلئے ہوتے ہیں، یہ کون سے سکھ ہیں جو خالصتان کی مانگ کر رہے ہیں؟‘‘۔ اس بات کا کیا مطلب لیا جائے؟ کیا مودی کے ہندوتوا بھارت میں سکھوں کو محض کرائے کے فوجیوں کی حیثیت حاصل ہے؟ شاید اسی قسم کے تضحیک آمیز سلوک کی وجہ سے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے سکھوں نے فیصلہ کیا کہ تمام سکھوں سے رائے لی جائے کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا ایک آزاد خالصہ ریا ست کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس کے لیے دنیا کے مختلف ملکوں کے اہم شہروں میں ریفرنڈم کی تاریخ کا اعلان کر دیا گیا۔ جیسے جیسے ریفرنڈم کا دن قریب آنے لگا 'را‘ اور انڈین آئی بی نے لاکھوں ڈالرز کے فنڈز جاری کیے تاکہ یہ ریفرنڈم ہونے ہی نہ پائے لیکن ان کی یہ سب کوششیں غارت گئیں اور صرف کینیڈا میں ایک لاکھ دس ہزار سے زائد سکھوں نے ووٹ ڈالا جن میں سے ننانوے فیصد نے خالصتان کے قیام کیلئے ووٹ دیا۔ اس ریفرنڈم کو نا کام کرنے یا سرے سے رکوانے کی بھرپور کوششیں کی گئیں حتیٰ کہ کینیڈین حکومت پر ہر قسم کا سفارتی دبائو بھی ڈالا گیا لیکن کینیڈین حکومت نے بھارت کی دھمکیوں کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا اور یہ ریفرنڈم صرف کینیڈا ہی میں نہیں بلکہ اٹلی، امریکہ اور بر طانیہ سمیت دنیا کے متعدد ملکوں میں‘ جہاں سکھ بڑی تعداد میں آباد ہیں‘ منعقد ہوا اور ان میں سکھوں نے جس ذوق و شوق سے حصہ لیا وہ سب کیلئے حیران کن تھا۔ آج بیرونِ ملک مقیم سکھ بھارت کی خالصہ کمیونٹی سے سوال کر رہے ہیں کہ کیا گرو نانک جی اور سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کے لاکھوں‘ کروڑوں خالصوں کا خون اتنا سستا اور غیر اہم ہے کہ وہ اور ان کی نسلیں ہندوتوا کی رکھشا کیلئے قربانیاں دیتے رہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سکھ آج بھی گولڈن ٹیمپل کی بے حرمتی کو نہیں بھولے۔ آج دنیا کے ہر گردوارے میں سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کی تصویر نظر آئے گی اور بھنڈرانوالہ کے ''خالصتان‘‘ کے ادھورے مشن کی تکمیل تمام سکھوں کو بے چین رکھتی ہے۔
بھارت میں موجود سکھوں سے ہندوتوا کو کتنی محبت ہے‘ اس کا اندازہ کرنے کیلئے جنرل ہربخش سنگھ کی کتاب کا مطالعہ کرنا ہو گا۔ لیفٹیننٹ جنرل ہربخش سنگھ جنگِ ستمبر میں بھارت کی جانب سے لاہور اور قصور سیکٹرز کے کمانڈر تھے۔ اپنی کتاب ''WAR DESPATCHES: Indo-Pak Conflict 1965‘‘ میں وہ لکھتے ہیں ''دورانِ جنگ ایک شام انہیں انڈین آرمی چیف جنرل چودھری کا خفیہ پیغام ملا کہ تم فوری طور پر اپنی فوجوں کو دریائے بیاس سے پیچھے لے آئوکیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر پاکستانی فوج دہلی کی جانب بڑھنا شروع ہو جائے گی۔ جنرل چودھری کا کہنا تھا کہ اس طرح ہم پاکستانی فوج کو امرتسر اور اس کے نواحی علاقوں کی آبادیوں میں گھیر لیں گے۔ جنرل ہربخش لکھتے ہیں کہ یہ پیغام سن کر چند لمحے کے لیے تو مجھے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا سن رہا ہوں۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ بھارت کے آرمی چیف کا حکم نہیں بلکہ دورانِ جنگ دشمن کی خفیہ ایجنسیوں کی کوئی چال ہے کیونکہ دریائے بیاس سے پیچھے آنے کا مطلب سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل کو مخالف فوج کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا اور اس پورے علاقے کو 'وار زون‘ میں تبدیل کر دینا تھا۔ جنرل ہربخش کہتے ہیں کہ انہوں نے اس حکم کی تعمیل سے انکار کرتے ہوئے بھارتی فوج کو پسپائی کا کوئی حکم نہ دیا۔ اگر بحیثیت ویسٹرن کمانڈر اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے وہ اپنی فوجیں لاہور اور کھیم کرن سے ہٹا کر بیاس سے پیچھے لے آتے تو پھر ان کی فوج کے قدم پیچھے ہی پیچھے ہٹتے جاتے اور گولڈن ٹیمپل مخالف فوج کے رحم و کرم پر ہوتا۔ جنرل ہربخش سنگھ کی اس کتاب کی اشاعت کی بعد بھارتی پنجاب اور سکھ بٹالینز میں فرائض سر انجام دینے والے سکھ فوجی سوچنا شروع ہو گئے کہ انہیں اور ان کے خاندانوں کو مستقبل میں ہونے والی کسی بھی پاک بھارت جنگ میں محض ایندھن کی طرح جھونکا جائے گا؟ اب ان میں یہ سوچ دکھ اور غصے کے لاوے میں تبدیل ہو رہی ہے کہ کیا ہندو برہمن نے سکھوں کو صرف لال قلعہ کی حفاظت کی خاطر بلیدان دینے کیلئے رکھا ہوا ہے۔ چند برس ہوئے خالصتان تحریک کے مشہور لیڈر پروفیسر گرجیت سنگھ نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سکھ حاضرین سے سوال پوچھا ''کیا اسرائیل دیوارِ گریہ پر جنگی ریڈار نصب کرتا ہے؟ کیا عیسائی ویٹی کن سٹی میں، پوپ کی رہائش گاہ اور دفتر سے ملحقہ کسی جگہ پر حساس نوعیت کا جنگی اڈا بناتے ہیں؟ کیا بھارت کے مشہور مندروں میں ریڈار نصب ہیں؟ جب کسی بھی جگہ پر ایسا نہیں ہے تو ستمبر 1965ء کی جنگ میں امرتسر میں سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ سے ملحقہ جگہ پر فضائی ریڈار سٹیشن کیوں قائم کیا گیا تھا؟ شاید اس لیے کہ گولڈن ٹیمپل پاک فضائیہ کے حملوں کی زد میں آ جائے اور پھر سکھوں کے دلوں میں پاکستان کے خلاف نفرت کی مزید آگ بھڑکائی جا سکے۔ پروفیسر گرجیت سنگھ کا کہنا تھا کہ ''انڈین ایئر فورس اور بھارتی توپوں سے بچائو کیلئے پاکستان نے ننکانہ صاحب، حسن ابدال، رنجیت سنگھ کی مڑھی اور کرتار پور میں ریڈار سٹیشن نصب نہیں کیے، حالانکہ یہ سب سرحدی اضلاع ہیں مگر بھارت نے ایسا کیا۔ بھارت کے اس ریڈار سٹیشن کی وجہ سے پاکستان ایئر فورس کو خاصی دقت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ گیارہ ستمبر65ء کوسرگودھا سے ونگ کمانڈر انور شمیم، سکواڈرن لیڈر منیر احمد، فلائٹ لیفٹیننٹ امتیاز احمد بھٹی اور اور فلائٹ لیفٹیننٹ سیسل چودھری کو اس مشن پر بھیجا گیا۔ پاکستان ایئر فورس نے یہ فضائی ریڈار سٹیشن اس مہارت سے تباہ کیا کہ ایک شہری بھی اس حملے میں ہلاک یا زخمی نہیں ہوا۔ آپریشن میں شامل سکواڈرن لیڈر منیر احمد جب اپنے ٹارگٹ کی جانب لپکے تو انہیں شک ہو اکہ ان کی گولہ باری سے سکھوں کے مقدس مقام کو نقصان پہنچ سکتا ہے ، چند لمحوں کی اسی شش و پنج میں انہیں دشمن کی طیارہ شکن گنوں نے نشانہ بنایا اور وہ شہید ہو گئے۔