"MABC" (space) message & send to 7575

اللہ تعالیٰ کا قرض

سیالکوٹ کے مضافات میں ماچھی کھوکھر نامی ایک دیہی آبادی ہے‘ جہاں تین بیٹیوں اور ایک دس سالہ بچے کا باپ چند ماہ قبل دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گیاتو اس کی بیوہ پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ کرائے کا گھر اور چار معصوم بچے۔ نہ کوئی آگے نہ پیچھے‘ سوائے ایک مزدور بھائی کے جو خود آٹھ بچوں کا باپ ہے۔ اس گھر میں اب ایک بیوہ‘ اس کے چار بچے اور 88برس کا بیمار سسر اللہ کے اُس بندے کی راہ دیکھ رہے ہیں جو ان کی کفالت یا مستقل مدد کے نام پر اللہ کو وہ قرض دے جس کی واپسی کب‘ کیسے اور کس قدر ہو گی‘ یہ صرف ربِ کریم کو معلوم ہے کیونکہ اس نے ہر چیز کو لوحِ محفوظ پر رقم کر رکھا ہے۔ قرآنِ کریم میں سورۂ ہود کی آیت نمبر 6 میں صاف طور پر اللہ تعالیٰ کے بندوں کو یہ پیغام دے دیا گیا ہے کہ ''زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالیٰ پر ہیں‘ وہی ان کے رہنے سہنے کی جگہ کو جانتا ہے اور ان کے سونپے جانے کی جگہ کو بھی‘ یہ سب کچھ کتابِ روشن میں لکھا ہوا ہے‘‘۔ مجھے اللہ تعالیٰ پر اس قدر یقین ہے کہ جب بھی کسی کا دکھ‘ درد سامنے آیا اور اس دکھ اور تکلیف کو جونہی اللہ کے بندوں کے سامنے رکھا‘ لوحِ قلم سے لکھا ہوا رزق متعلقہ خاندان تک پہنچنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگی۔ خدا کے وجود اور اس کی رحمت سے مایوس ہونے کا تصور بھی ہم مسلمانوں کے لیے گناہِ کبیرہ سے کم نہیں اور یہی بات میں نے اس بوڑھے سسر اور اس کی بیوہ بہو سے کہی۔
14جنوری 1985ء کو برازیل میں انتخابی مہم ختم ہونے سے ایک دن پہلے برازیل کی سب سے بڑی پارٹی کا صدارتی امیدوار نیوس اپنی انتخابی مہم کے اختتامی جلسے سے خطاب کر رہے تھے اور اس کے پُر جوش حامیوں نے ان کے لیے خیرمقدمی نعروں سے آسمان سر پر اٹھایا ہوا تھا۔ اپنی تقریر کے اختتام پر صدارتی امیدوار نیوس نے اپنے دونوں بازو ہوا میں لہرائے اور سامنے کھڑے اپنی پارٹی کے کارکنوں اور حامیوں کے جم غفیر سے کہنا لگے کہ اگر لوگوں نے کل ہونے والے انتخابات میں مجھے پانچ لاکھ ووٹ دلوا دیے تو پھر میرے مخالفین تو کجا‘ قدرت بھی مجھے شکست نہیں دے سکے گی۔ اگلے دن جب انتخابی نتائج سامنے آئے تو اس کی پارٹی کو پانچ لاکھ سے بھی زیادہ ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ نیوس بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گیا لیکن 13مارچ 1985ء کو‘ صدارتی حلف اٹھانے سے ایک روز پہلے وہ اچانک ایسا بیمار ہوا کہ کسی کو اس کی بیماری کی سمجھ ہی نہ آ سکی اور چند روز کے اندر اندر وہ اپنی صدارت کا حلف اٹھائے بغیر اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گیا۔
ٹائی ٹینک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب جہاز تیار ہو کر سمندر میں اپنے پہلے سفر کے لیے روانہ ہو رہا تھا تو اس کے مالک سے پوچھ گیا کہ یہ کس قدر مضبوط اور محفوظ ہے؟ مالک نے جواب دیا کہ اس قدر مضبوط اور محفوظ ہے کہ قدرت بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔ بعد میں جو ہوا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔
قرآن پاک کی سورۃ الصافات میں فرمانِ پروردگار ہے ''قطار در قطار صف باندھنے والوں کی قسم‘ پھر اُن کی قسم جو ڈانٹنے پھٹکارنے والے ہیں‘ پھر اُن کی قسم جو کلامِ نصیحت سنانے والے ہیں‘ تمہارا معبودِ حقیقی بس ایک ہی ہے وہ جو زمین اور آسمانوں کا اور تمام اُن چیزوں کا مالک ہے جو زمین و آسمان میں ہیں اور سارے مشرقوں کا مالک ہے‘‘۔ یہ ہے وہ رب العالمین جس نے سب جہانوں کو پیدا کیا‘ سات آسمان بنائے‘ زمین اس قدر خوبصورت بنائی کہ دیکھنے والے دنگ رہ جائیں۔ اس زمین پر ہر طرف پہاڑ اس طرح گاڑ دیے جیسے میخیں گاڑی گئی ہیں اور میٹھے اور کڑوے سمندر بنائے جو ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہیں لیکن اپنی اپنی حد کے اندر رہتے ہیں اور اس رب العالمین نے دنیا کو تاریکیوں سے نجات دلانے کے لیے بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھانے کے لیے اپنے بندے محمد مصطفیﷺ کو آخری پیغمبر اور رسول بنا کر اس دنیا میں بھیجا جن کا زندگی بھر یہی پیغام اور سبق تھا کہ مخلوقِ خدا کا خیال رکھو‘ غریبوں اور مساکین کی حاجت روائی کرو‘ کسی کا حق مت کھاؤ۔ یہ سبق اُن کا ہے جنہیں رب کریم نے تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ نظر آنے اور نہ آنے والی تمام کائناتیں‘ زمین کے اوپر‘ زمین کے نیچے‘ سمندر کے اندر‘ سمندروں کے نیچے‘ آسمانوں کے اوپر اور آسمانوں کے ارد گرد کی لاتعداد دنیاؤں کے لیے وہ رحمت بنائے گئے ہیں اور جب حضور کریمﷺ کے رحمۃللعالمین ہونے کی گواہی کُل عالمین کا خالق دیتا ہے تو اس محترم اور پاکیزہ شخصیت کا فرمان اور دیا گیا سبق ہم اپنے اوپر لاگو کیوں نہیں کرتے؟ دنیا کی کوئی ایسی مقدس کتاب نہیں ہے جس میں کہیں نہ کہیں‘ کسی نہ کسی طریقے سے حضور کریمﷺ کا ذکر نہ آیا ہو۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ نے تمام پیغمبروں سے یہ وعدہ لیا تھا کہ تم ہمیشہ میرے سب سے آخری اور پیارے پیغمبر محمد مصطفیﷺ کی آمد کی اطلاع اپنی اپنی قوم کو دیتے رہو گے اور خدا کے یہ نبی صرف مکہ کے لوگوں کے لیے نہیں بلکہ مالکِ کائنات کی خلق کی ہوئی ہر کائنات کے لیے ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ پر ہمارے ایمان کی کمزوری کا یہ حال ہے کہ ہم نے کفارِ مکہ کی طرح کسی لیڈر‘ کسی افسر یا کسی سیا ستدان کا بت بنا کر اس کو اپنا معبود مان لیا ہے۔ ہم اپنی تمام خواہشات اور تکلیفوں سے نجات کو اب رب کریم سے نہیں بلکہ اپنے اپنے دنیاوی معبودوں سے وابستہ کر چکے ہیں۔ ہم نے اپنے کاروبار‘ تجارت اور ملازمت کو بددیانتی‘ کرپشن‘ جھوٹ اور ہر ناجائز طریقے کو اپناتے ہوئے شیطان کو اپنا رازق بنا لیا ہے۔ ہمارا خدا پر ایمان کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں تمام لوگوں کو سیالکوٹ کی آبادی ماچھی کھوکھر کی بیوہ‘ اس کے چار معصوم بچوں اور نحیف و نزار سسر کے لیے دعا کرنی چاہیے کہ خدا ان کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔ کوئی ایسے ہی نہیں مخلوقِ خدا کے لیے دل کھولتا‘ اس کے لیے حکمِ ربی ہوتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ اس نے کس سے یہ قرض لینا ہے۔ بقول شفاق احمد مرحوم‘ ہم اپنی جیب سے دیتے ہوئے سوچتے ہیں کہ اپنے پاس سے دے رہے ہیں جبکہ ہم سب اس کے دیے میں سے دیتے ہیں‘ اگر وہ نہ دے‘ اپنا ہاتھ کھینچ لے تو پھر...؟ کبھی سرکاری ہسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈز میں جا کر دیکھیں‘ غربت اور بے چارگی کی سسکیاں محسوس کرنے والوں کی روح اور جسم کو تڑپا کر رکھ دیتی ہے۔ کسی دن چھوٹی چھوٹی گلیوں‘ کیچڑ اور گندے پانی سے اَٹی ہوئی بستیوں کی بھی سیر کریں‘ وہاں بجلی کے بلوں کی وجہ سے بین کرتی ہوئی قوم کی مائیں‘ بہنیں اور بیٹیاں آسمان کی طرف منہ اٹھائے نہ جانے کیا کیا بد دعائیں دیتی سنائی دیں گے۔ ننگ دھڑنگ بچے اور مفلوک الحال بوڑھی عورتوں کو بھی دیکھیں‘ ان کے ٹوٹے پھوٹے مکان‘ دیواریں اور چھتیں دیکھ کر تو کلیجہ منہ کو آنے لگے گا۔
شانِ کریمی تو سمجھاتی ہے کہ اپنے ہمسائے کا خیال رکھو لیکن آج کئی کئی سال تک پتا ہی نہیں چلتا کے ساتھ والے گھر میں کون رہتا ہے‘ سوائے ان گھروں کی گاڑیوں کے ماڈل کے‘ ان کے بارے کچھ جان ہی نہیں پاتے۔ نفسا نفسی کی فضا بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ رشتہ دار وہی ہے جو آپ کے ہم پلہ و ہم مرتبہ ہے۔ سگے بہن بھائی اور خونیں رشتہ داریاں شان و شوکت کی محتاج ہو چکی ہیں۔ کبھی ہم میں سے کسی نے سوچا ہے کہ ہمارے دِلوں میں کتنا کوڑا جمع ہے۔ کیسی کیسی غلاظتوں کے ڈھیر ہمارے اندر لگے پڑے ہیں۔ مردوں کی ہڈیاں اور سڑے ہوئے گوشت کی بساند بھری ہوئی ہے۔ مکڑوں نے کتنے جالے ہمارے اندر بُن رکھے ہیں۔ خونخوار چمگادڑوں کی پھڑ پھراہٹ کس قدر ہے۔ زہر سے بھرے ہوئے ناگ کیسے پھنکار رہے ہیں اور الوؤں کی کتنی مہیب آوازیں گونج رہی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں