"MABC" (space) message & send to 7575

مشکل فیصلے پر عملدرآمد

منگل کے روز نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد نگران وزیر داخلہ کا ایک پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیر ملکی افراد کو یکم نومبر تک کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے کہ وہ اس تاریخ تک رضاکارانہ طور پر اپنے اپنے ممالک میں واپس چلے جائیں اور اگر وہ یکم نومبر تک واپس نہیں جاتے تو ریاست کے جتنے بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں وہ اس بات کا نفاذ یقینی بناتے ہوئے ایسے افراد کو ڈی پورٹ کر دیں گے اور ان کی جائیدادیں ضبط کر لی جائیں گی۔ یکم نومبر کے بعد کوئی بھی شخص پاسپورٹ اور ویزا کے بغیر ہمارے ملک میں داخل نہیں ہو گا۔ نگران وزیر داخلہ کے مطابق پاکستان میں اندازاً 44 لاکھ افغان شہری مقیم ہیں جن میں سے 14 لاکھ رجسٹرڈ ہیں‘ ساڑھے 8 لاکھ کے پاس افغان سٹیزن کارڈ ہے جبکہ 17 لاکھ سے زائد افغانی غیر رجسٹر شدہ اور غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی پاکستانی کی فلاح اور سکیورٹی ہمارے لیے سب سے زیادہ مقدم ہے اور کسی بھی ملک یا پالیسی سے زیادہ اہم پاکستانی قوم ہے۔ اس فیصلے کا پس منظر کیا ہے‘ اس بارے تو وہی بہتر جان سکتے ہیں جن کے پاس اندرونی اطلاعات ہیں لیکن گزشتہ دو ماہ سے پاکستان میں پے درپے جس انتہا کی دہشت گردی ہو رہی ہے شاید یہ فیصلہ اسی سلسلے کی کوئی کڑی ہو۔ اس موقع پر افغان مہاجرین کے انخلا کی جو بھی وجہ ہو لیکن افغانستان کی وجہ سے آج پاکستان ڈیفالٹ کے کنارے پر پہنچ چکا ہے‘ اس کی وجہ سے پاکستان میں کلاشنکوف کا کلچر عام ہوا‘ افغانستان سے شروع ہونے والی دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان اپنے لاکھوں شہریوں اور سینکڑوں بلکہ ہزاروں جوانوں و افسران کی شہادت کا دکھ اور غم سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ وہی افغانستان ہے جس نے چند برس پہلے اشرف غنی دور میں خفیہ معلومات کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ یہ معاہدہ اور وعدہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا بلکہ یہ دونوں مسلم ممالک میں دہشت گردی کی روک تھام اور اس کے نتیجے میں دونوں مسلم بھائیوں کے درمیان پیدا کی جانے والی سالہا سال کی ان بدگمانیوں اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کی جانب ایک بہت بڑا بریک تھرو تھا۔ یہ معاہدہ دو مسلم ممالک کے عوام کا ترقی‘ خوشحالی اور مضبوطی کی جانب بڑھنے کی طرف ایک راستہ‘ روشنی اور امید کی ایک کرن تھا جبکہ روشنی سے ڈرنے‘ اس سے نفرت کرنے اور اس سے بھاگنے والے اسی دن سے اس روشنی کو مدہم کرنے کے درپے تھے ۔ روشنی سے ڈرنے‘ روشنی سے بھاگنے والی پاکستان دشمن قوتیں یہ کیسے برداشت کر تیں کہ دو ہمسایہ مسلمان ملک ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہیں۔ دونوں مسلم بھائی خوشحالی اور امن کی زندگی گزارنے لگیں اور وہ کدورتیں اور عداوتیں جو دشمن نے ان دو مسلم بھائیوں کے درمیان کھڑی کر رکھی تھیں‘ ایک ایک کر کے مسمار ہو نا شروع ہو جائیں۔
امریکی چھتری تلے چمن اور طورخم سے قندھار اور جلال آباد کے درمیان جگہ جگہ بکھیرے ہوئے بھارت کے مال پر ناچنے والوں کی جانب سے بیس برسوں سے بچھائے ہوئے کانٹے چنتے ہوئے وقت تو لگنا تھا لیکن جیسے ہی امریکہ اپنا کمبل جھاڑ کر وہاں سے بھاگا تو خیال تھا کہ اب طالبان کی صورت میں ہمیں ایک ایسا ہمسایہ مل جائے گا جو ہماری مغربی سرحدوں کا نگہبان بنے گا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ خواب ہوا میں تحلیل ہو گیا اور اب دونوں ممالک کے درمیان ایک ایسی خلیج کھد چکی ہے جس کی ذمہ داری افغانستان کی عبوری حکومت پر عائد ہوتی ہے جو اپنے اس وعدے کی پاسداری نہ کر سکی کہ اس کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہو گی۔ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں افغان شہری ملوث پائے گئے ہیں جس کے ٹھوس شواہد بھی موجود ہیں۔ بہر حال دونوں ممالک کو یہ حقیقت بھی جان لینی چاہیے کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد دونوں کی سلامتی اور خوشحالی اس امن سے ہی منسلک ہے جو دونوں ممالک کے باہمی اعتماد کی صورت قائم ہوگا اور ایک دوسرے کی سرحدوں کا احترام ہی باہمی اعتماد کو فروغ دے گا۔ ایک ہی تیر سے دو شکار کرنے والے امریکہ اور بھارت جو اس خطے میں اپنا نیا کھیل شروع کرنے جا رہے ہیں‘ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک دوسرے سے تقریباً 2600 کلو میٹر تک جڑے ہوئے ایک ہی مذہب کے ماننے والے اگر ایک ہو گئے‘ ایک دوسرے کے دکھ درد کا مداوا کرنے لگے تو پھر آگے چل کر ایک دوسرے کی مدد سے ہر مشکل راستے سے گزر نا شروع ہو جائیں گے‘ اس لیے کوشش کی جا رہی ہے کہ زیتون کی ہر شاخ کو کاٹ دیا جائے۔ غیر رجسٹرڈ اور غیر قانونی افغان مہاجرین کے انخلا کا فیصلہ تو کر لیا گیا ہے لیکن اس فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنانا کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔ ذرا سوچئے کہ وہ جن کے پاس اسلحہ استعمال کرنے کا فن ہے‘ اگر انہیں زبردستی یہاں سے نکالا گیا تو یہ کمک کس کیلئے تحفہ بن جائے گی؟ اس لیے اس حوالے سے ایک ایسا لائحہ عمل تشکیل دینے کی ضرورت ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا کسی بڑی طاقت کو عوامی جمہوریہ چین کے ا فغانستان میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے خوف ہے یا کوئی طاقت پھر سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کی سوئے ہوئے مدعے کو جگانا چاہتی ہے؟ امریکہ کے افغانستان سے فرار کے بعد سوچا جا رہا تھا کہ اب پاکستان جلد ہی افغانستان کو سول‘ ملٹری‘ تعلیمی اور اقتصادی سہولیات کی مشاورت اور تکنیک فراہم کرنا شروع کر دے گا تو خوشی‘ خلوص اور چاہت ان دو ملکوں کے عوام کے دلوں میں مزید بڑھنے لگے گی لیکن موجودہ صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔
کیا حکومتِ پاکستان اورطالبان کی عبوری حکومت اشرف غنی دور میں کیے گئے معلومات کے تبادلے کے معاہدے سے متفق نہیں یا اس میں دلچسپی نہیں لی جا رہی؟ اگر اس معاہدے کو نئے سرے سے زندہ کیا جائے تو نئی دہلی کے سیاسی اتحادیوں کی افغان سیاست اور شکار گاہوں کے راستے بند ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ پرانے کمیونسٹ عناصر اب بھیس بدل کر افغانستان کے بچے کھچے اور زیر زمین وار لارڈز کے ساتھ مل کر‘ جن کے منشیات ‘ اغوا اور سمگلنگ سمیت تمام کاروباری مفادات نئی دہلی سے وابستہ ہیں‘ سرحدی کشیدگی کی آگ کو ہوا دے رہے ہیں۔
افغان مہاجرین کے جبری انخلا سے دشمن بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا بلکہ ہو سکتا ہے کہ اجیت ڈول جیسے شاطر نے یہ کوششیں شروع ہی نہ کر دی ہوں کیونکہ پاک افغان دوستی اور بھائی چارہ عالمی اُفق پر رونما ہونے والی جغرافیائی اور سیاسی تبدیلیوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے اس لیے مغرب کی طرف سے اس راہ میں روڑے اٹکانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ چین کی نئی منزل اور سفارت کاری کوئی معمولی بات نہیں‘ اس کا سب سے پہلے افغانستان کو تسلیم کرتے ہوئے افغانستان میں سفارت خانہ قائم کرنا وہ ٹرننگ پوائنٹ ہے جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور برصغیر میں ہر گزرتے دن کے ساتھ چین کا یہ فیصلہ حالات اور سیاست کا رخ موڑ دے گا اور اس موقع پر چالیس برسوں سے نسل در نسل پاکستان میں رہنے والے افغانیوں کے انخلا سے پیدا ہونے والی چنگاریاں کس کا دامن جلائیں گی‘ یہ نوشتہ دیوار ہے۔ افغان مہاجرین کے انخلا کے تناظر میں ان پہلوؤں کو بھی مدِ نظر رکھنا ضروری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں