"MABC" (space) message & send to 7575

اَن پڑھوں کا ہجوم

اس وقت پاکستان میں جدھر دیکھیں انسانوں کے بے تحاشا وجود اس ملک کی معیشت، معاشرت اور تعلیمی نظام کو روندتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ جس رفتار سے آبادی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اس کے اثرات سے معیشت اور معاشرت میں پیدا ہونے والے مسائل کی گمبھیرتا ملکی سلامتی اور بقا کو بری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ کسی کو اس کا احساس تک نہیں ہو رہا۔ رواں سال مردم شماری کے جو نتائج جاری کیے گئے ان کے مطابق پاکستان کی آبادی میں سالانہ 2.55 فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یعنی اگر آج پاکستان کی آبادی 24 کروڑ ہے تو اگلے سال اس میں 60 لاکھ کا اضافہ ہو جائے گا، اور محض پانچ سالوں میں یہ 24 کروڑ سے بڑھ کر 27 کروڑ بلکہ اس سے بھی زائد ہو جائے گی۔
تعلیم جو معاشرت‘ سیاست اور معیشت سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی کی بنیاد سمجھی جاتی ہے‘ اسے نوے فیصد آبادی تک دیمک زدہ بیج کی طرح پہنچایا جانے لگا ہے اور یہی وجہ ہے کہ نوے فیصد افراد باقی دس فیصد کے آگے دست بستہ بھاگتے رہتے ہیں۔کیا کسی نے کبھی یہ سوچا ہے کہ تیس سے زیا دہ لایعنی قسم کے مضامین‘ جنہیں ترقی یافتہ قوموں نے اپنے ہاں کب سے متروک قرار دے دیا ہے‘ آج بھی پاکستان میں کیوں پڑھائے جا رہے ہیں؟ 1970ء کی دہائی میں جب دنیا فنی تعلیم اور معاشیات سمیت جدید سائنس کے پیچھے بھاگ رہی تھی‘ اس وقت ہمارے یہاں بے مقصد مضامین میں تین تین‘ چار چار ایم اے کرنے کی ریس شروع کرا دی گئی جس کا خمیازہ آج تک بھگتا جا رہا ہے۔ وہ مضامین‘ جو نجی تعلیمی اداروں میں گزشتہ دس پندرہ برسوں سے اولیت اختیار کر چکے ہیں کیا وجہ ہے کہ70ء کی دہائی میں ان کی تعلیم لازمی قرار نہیں دی گئی؟
اس بدنصیب معاشرے پر مزید ستم یہ ہوا کہ جس قسم کی تعلیم ابتدائی چند برسوں کے بعد سے اس قوم کی نسلوں کا مقدر بنتی رہی‘ اس نے اسے مزید زبوں حالی کی دلدل میں دھکیلا۔ ہماری سیاسی اشرافیہ اور حکومتوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ تعلیم کو ہر حد تک غیر ضروری اور غیر متعلق بنا دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری تعلیمی ادارے سیاست کے گڑھ اور مار دھاڑ سمیت جرائم کی آماجگاہ بن گئے، یونیورسٹیوں میں گینگز بننا شروع ہو گئے، ہر وقت کی ہڑتالوں، جھگڑوں اور فائرنگ جیسے واقعات کے سبب تین‘ چار سال کی تعلیمی کلاسز سات سے دس سال تک پہنچ گئیں۔ گھر سے درس و تدریس کے لیے نکلے ہوئے بچے کے بارے یقین ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ خیریت سے واپس آ جا ئے گا۔ تعلیمی ادارے پولیس چوکیوں میں تبدیل ہونا شروع ہو گئے جہاں ہر وقت لاٹھیوں‘ رائفلوں اور آنسو گیس کے گولوں سے لیس پولیس فورس موجود رہتی۔ وہ تو بھلا ہوا احساس رکھنے والوں کا کہ کچھ لوگوں کی توجہ سے ایسے نجی تعلیمی ادارے میدان میں اترنا شروع ہو گئے جنہوں نے طلبہ کی سیاست سے ہٹ کر معیاری تعلیم پر اپنا فوکس رکھا جس سے ذمہ دار اور سمجھ دار والدین نے اپنے بچوں کو بہتر اور ڈسپلن کے پابند ان تعلیمی اداروں میں بھیجنا شروع کر دیا۔ گو کہ تعلیم کا معیار بر قرار رکھنے کے لیے اخراجات کچھ زیا دہ ہونے لگے لیکن والدین کو یہ یقین تھا کہ ان کے بچے وہاں سیاسی جماعتوں اور انڈر ورلڈ کے جھانسوں میں آنے کے بجائے تعلیم حاصل کریں گے اور ان اداروں سے بخیریت گھر وں کو واپس آ جایا کریں گے۔ ورنہ سرکاری تعلیمی اداروں نے تو وہ دور بھی دیکھا کہ جب انڈر ورلڈ کا راج اور حکومتی تختہ الٹنے کے لیے تعلیمی اداروں کے طلبہ کو مستعار لیا جانے لگا تھا۔
قیامِ پاکستان کے ابتدائی چند برسوں کے بعد ابتدائی تعلیم سے لے کر ماسٹرز تک کے امتحانات کا کوئی خاص فائدہ نہیں، یہ محض رٹا لگانے والوں کی تعداد بڑھاتے رہے۔ جب بڑھتی آبادی کے ساتھ طلبہ کی تعداد بڑھنا شروع ہوئی تو ان کے امتحانات کے لیے 1954ء میں حکومت پنجاب نے بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جسے صوبے بھر کے تعلیمی اداروں کی دسویں اور بارہویں جماعتوں کے امتحانات کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس سے قبل صوبے بھر میں میٹرک کا امتحان پنجاب یونیورسٹی کے تحت لیا جاتا تھا۔ میٹرک پاس کرنے کا مطلب یہ تھا کہ طالب علم نے دس جماعتیں پاس کر لی ہیں اورآکسفورڈ انگلش ڈکشنری کے مطابق میٹرک ایک ایسا امتحان ہے جسے پاس کرنے کے بعد آپ کسی بھی کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کر سکتے ہیں۔ جب میٹرک کا امتحان پاس کر لیا جاتا تو پھر کسی بھی طالب علم کو بی اے میں داخلہ لینے کیلئے دو سال کی مزید تعلیم حاصل کرتے ہوئے انٹر کا سرٹیفکیٹ لینا ضروری کر دیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنا واقعی ضروری تھا؟ انٹر جسے عرفِ عام میں ایف اے یعنی فرسٹ آرٹس اور ایف ایس سی یعنی فرسٹ سائنس کہا جاتا تھا اور بعد میں اسے انٹرمیڈیٹ کا نام دیا گیا اور اب اسے ہائر سیکنڈری ایجوکیشن کا نام دیا گیا ہے‘ اسے میٹرک اور گریجوایشن کا درمیانی تعلیمی مرحلہ بھی کہا جاسکتا ہے۔
اس وقت پاکستان میں پرائمری، مڈل،سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری اور اس کے بعد چار سال کیلئے بی ایس کے تعلیمی مراحل ہیں۔ یہ سب امتحانات پاس کر نے کے بعد کسی بھی طالب علم کو ایم اے؍ ایم ایس میں داخلہ لینے کا اہل سمجھا جاتا ہے۔یعنی تعلیم کا وہ عرصہ جو پہلے سولہ سال پہ محیط ہوتا تھا اسے اب 18 سال کر دیا گیا۔ بی اے؍ بی ایس؍ بی بی اے کے لیے چار سال کی تعلیم لازمی ہونے سے یہ خود بخود اٹھارہ سال تک پہنچ گئی ہے۔
ابتدا میں پرائمری یعنی بنیادی تعلیم چوتھی جماعت تک ہوا کرتی تھی اور اس کے سکول بھی علیحدہ ہوا کرتے تھے لیکن 1950ء میں پانچویں جماعت کو بھی پرائمری تعلیم کا حصہ بنا دیا گیا۔ اسی طرح قریب بائیس‘ چوبیس سال قبل پنجاب حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ تعلیمی ادارے‘ جہاں دسویں جماعت تک تعلیم دی جاتی ہے انہیں اَپ گریڈ کر دیا جائے تاکہ گیارہویں اور بارہویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند طالب علموں کو داخلہ حاصل کرنے کیلئے کہیں اور نہ جانا پڑے۔ مقصد یہ تھا کہ انٹر کرنے کے لیے طلبہ اور طالبات کو اپنے گھروں سے دور نہ جانا پڑے۔ آج تک اس پالیسی پر صحیح معنوں میں عملدرآمد نہیں ہو سکا ۔
پاکستان میں تعلیم کا معیار بہتربنانے کے لیے چند بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ لازمی ہے کہ مڈل کے بعدتمام بچوں کو درسی تعلیم کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل اور پیشہ ورانہ تعلیم اور ہنر سے بھی روشناس کرایا جائے اور اس میں بچے کا رجحان پیش نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ اگر اس کے بارے میں مزید معلومات یا طریقہ کار سمجھنا ہو تو بلوچستان میں فوج کے زیر انتظام چلنے والے فنی تعلیم کے اداروں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے پندرہ ہزار سے زائد نوجوان فنی تعلیم میں مہارت حاصل کرنے کے بعد روزمرہ کی زندگی میں اس سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ٹائم میگزین کی ایک رپورٹ کے مطا بق سوئٹزر لینڈ میں طلبہ سے ان کے تعلیمی رحجان کے بارے میں جاننے کیلئے ایک ملک گیر سروے کرایا گیا تو63 فیصد سے زائد طلبہ نے ووکیشنل اور فنی تعلیم کو تدریسی تعلیم پر ترجیح دی۔
نہم سے بارہویں جماعت تک اس طرح تعلیم دی جانی چاہئے کہ جو مضمون طالبعلم نہم میں پڑھنا شروع کریں‘ وہ بارہویں جماعت تک برقرار رہیں۔ اگر بچے کے والدین اور سکول انتظامیہ یہ دیکھیں کہ میٹرک کے بعد بچہ کسی مضمون میں مہارت حاصل کرنا چاہتا ہے تو سیکنڈری ایجوکیشن میں اسے اس کی اجازت دی جانی چاہئے۔ اگر طالب علم سائنس کے کسی مضمون میں دلچسپی رکھتا ہو تو میٹرک کے بعد اسے مرحلہ وار اسی مضمون کو اختیار کرنے کا حق دیتے ہوئے اس میں ماہر بنا نا چاہیے۔ وہ طلبہ جنہیں سائنس کے مضامین میں ذرا بھی دلچسپی نہ ہو‘ ان کے لیے فنی تعلیم کا حصول لازمی قرار دیاجانا چاہئے۔
اس میں ذرا سا بھی شک نہیں کہ اگر ہمارے جیسے تیسے تعلیمی ادارے نہ ہوتے ساری قوم ان پڑھوں کا ایک ہجوم ہوتی لیکن یہ بھی سوچئے کہ آج کل ہمارے سرکاری سکول اور تعلیمی ادارے کیا تعلیم دے رہے ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ تعلیم کا تو بس نام ہی رہ گیا ہے جس کی وجہ اس کے سو اکچھ نہیں کہ سرکاری سکول‘ کالج اور یونیورسٹیاں اپنی عظمت اور روایات کھو چکے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں