جب بھی انتخابات قریب آتے ہیں، سیاسی جماعتوں میں ترقیاتی کاموں کا کریڈٹ لینے کی ایک دوڑ سی لگ جاتی ہے۔ ہماری قومی تاریخ یہ مناظر بھی دیکھ چکی ہے کہ ایک ہی منصوبے پر درجنوں تختیاں لگائی گئیں اور ہر حکومت نے اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی۔کئی منصوبے ایسے ہوتے ہیں جو شروع ایک دور میں ہوتے ہیں اور تکمیل دوسرے دور میں ہوتی ہے۔ اکثر نگران حکومتیں بھی اس نمبر ٹانکنے کی گیم میں شامل ہو جاتی ہیں۔ آج کل لاہور کے شاہدرہ اوور ہیڈ برج اور انڈر پاس کا میگا پروجیکٹ اسی قسم کے تنازعے کا شکار نظر آ رہا ہے۔ حالانکہ اس حوالے سے یہ بات تو واضح ہے کہ یہ پی ٹی آئی حکومت کا تحفہ ہے؛ تاہم جو بھی اس کام کو مکمل کرا رہا ہے‘ اس کو بھی اپنے حصے کا کریڈٹ ملنا چاہیے لیکن جس نے اس کے لیے رقم مختص کرائی، جس نے کام کا آغا کرایا، جس نے فزیبلٹی سٹڈی مکمل کرائی، اس کا کہیں نام ہی نہ لیا جائے‘ یہ قرینِ انصاف نہیں ہے۔ دوسری جانب لاہور کے والٹن ایئر پورٹ پر دو ہزار کنال رقبے پر سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ کیلئے جگہ کی تخصیص اور وہاں تک آسان رسائی کیلئے کلمہ چوک سے ایک انڈر پاس کی تعمیر اور کوٹ لکھپت کی پرانی سبزی منڈی پر ایک ہزار بستروں پر مشتمل نئے ہسپتال کیلئے فنڈز کی فراہمی، شاہکام انڈر پاس اور اوور ہیڈ پل، کلمہ چوک تا ڈیفنس انڈر پاس، فردوس مارکیٹ انڈر پاس، گلاب دیوی ہسپتال پروجیکٹ، شیر شاہ اوور ہیڈ برج، دو موریہ پل، سمن آباد گلشن راوی نڈر پاس اور گلشن راوی تا بابو صابو، نیازی چوک انڈر پاس تحریک انصاف کی پونے چار سالہ حکومت کے وہ کارنامے ہیں جو سب کو دکھائی دے رہے ہیں، ایسے میں اگر پونے چار برس کی کارکردگی کا بیس سالہ ادوارِ حکومت سے موازنہ کیا جائے اور اسے کم کر کے دکھانے کی کوشش کی جائے یا جیسا کہ ہو رہا ہے‘ سرے سے ہی ان کاموں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کا ذکر ہی نہ کرنے دیا جائے تو اس کے بارے کیا کہا جا سکتا ہے؟
آج کل عوام کے کانوں میں ایک نیا بیانیہ انڈیلا جا رہا ہے وہ یہ کہ اگر مسلم لیگ نواز یعنی نواز شریف کے ادوار کو منہا کر دیا جائے تو پاکستان میں صرف کھنڈرات بچتے ہیں۔ شاید اس طرح کی باتیں کرنے والے حقائق کی دنیا سے کوسوں دور ہیں۔ یہ بھی اس قوم کی حرمان نصیبی ہے کہ پاکستان کی پون صدی سے زائد تاریخ میں اگر کسی دور کو ترقیاتی دور کہا جاتا ہے تو وہ ایوب خان کا آمرانہ دور تھا۔ اگر کوئی مذکورہ ترقیاتی منصوبوں پر یہ اعتراض کرے کہ ان میں سے اکثر منصوبوں کا کام تو عثمان بزدار اور پرویز الٰہی حکومتوں کے بعد بھی ہوتا رہا‘ لہٰذا انہیں کریڈٹ نہیں دیاجا سکتاتو ان سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ پھر اورنج ٹرین کا کریڈٹ بھی مسلم لیگ نواز کو مت دیجیے کیونکہ شہباز شریف نے تو اورنج ٹرین کے ادھورے ٹریک پر ہی اس منصوبے کا افتتاح کر دیا تھا۔ اس منصوبے پر تو پی ٹی آئی حکومت کے ابتدائی دو‘ ڈھائی سال تک کام چلتا رہا اور بعد ازاں اس کو عوام کے لیے کسی اور نے نہیں بلکہ عثمان بزدار ہی نے کھولا تھا۔ اس منصوبے کا حقیقی افتتاح پی ٹی آئی حکومت کے سوا دو سال بعد‘ اکتوبر 2020ء میں ہوا تھا۔ پھر کیسے یہ کہہ دیا جائے کہ یہ صرف مسلم لیگ (ن) حکومت کا ہی کارنامہ ہے؟ چار سال کا اگر بیس سال کے ساتھ مقابلہ اور موازنہ کرنا ہے تو پھر ایک ایک چیز سامنے رکھ کر کیجئے کہ کس نے کیا کیا۔ اگر کوئی بیس برسوں میں دس پروجیکٹ مکمل کرتے ہوئے باقیوں سے جبراً یہ کریڈٹ چھیننا شروع کر دے کہ اُس کے علاوہ کسی نے لاہور سمیت پنجاب کیلئے کچھ کیا ہی نہیں تو پھر اسے سوائے خود فریبی کے اور کیا کہا جا سکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ چلڈرن ہسپتال، میٹرو لائن لاہور مع پانچ انڈر پاسز، ایل او ایس تا ملتان روڈ نالے پر سڑک کی تعمیر جیسے پروجیکٹس شہباز شریف حکومت کی یادگار ہیں لیکن اگر ترقیاتی منصوبوں میں پرویز الٰہی اور عثمان بزدار دور کے انڈر پاسز اور اوور ہیڈ برج کی بھی بات کر لی جائے تو اس میں کچھ حرج نہیں۔ جس نے بھی کوئی اچھا کام کیا ہے‘ جتنا کیا ہے‘ اس کا کریڈٹ اسے ملنا ہی چاہیے۔ تعریف کرتے ہوئے کنجوسی کرنے سے کسی کا کچھ نہیں بگڑتا۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی حکومتوں کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ کسی بھی چیز کا کریڈٹ ان کے علاوہ کسی اور کو نہ مل سکے۔ یہی وجہ ہے کہ گلی یا نالی پکی کرانے سے لے کر صاف پانی کے چھوٹے موٹے منصوبوں کی تختیوں تک‘ ہر جگہ اعلیٰ سیاسی شخصیات کے نام ہی لکھے نظر آتے ہیں۔ یادش بخیر مشرف دور کے بعد جب پنجاب میں مسلم لیگ نواز اور وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تھی تو بلدیاتی حکومتوں کے فنڈز روک کر انہیں مفلوج کر دیا گیا تھا۔ پنجاب میں چوبیس سے زائد ضلعی ناظمین نے احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے اضلاع میں تعینات بیورو کریسی نے بھی ان کے احکامات ماننے بند کر دیے ہیں اور جب سے نئی حکومتیں بنی ہیں‘ کوئی ترقیاتی کام نہیں ہو سکا۔ اگرچہ ترقیاتی سکیموں کی منظوری مقامی نمائندے ہی دیتے تھے لیکن فنڈز کا اجرا ضلعی رابطہ افسر یا دیگر متعلقہ سرکاری افسر کرتے تھے لہٰذا مخالف جماعتوں کے ناظمین کے شروع کردہ منصوبوں کے لیے نہ صرف فنڈز کا اجرا روک دیا گیا بلکہ جاری سکیموں پر بھی کام تعطل کا شکار رہاجس سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوا اور مخالف امیدوار سے عوام متنفر ہونے لگے۔ پی ٹی آئی کی پنجاب میں حکومت بنی‘ تب بھی بلدیاتی حکومتوں کا راستہ ایسے ہی روکا گیا۔
جب بھی عام انتخابات یا ضمنی و بلدیاتی انتخابات کا بگل بجتا ہے تو انتخابی گہما گہمی اور شور شرابے کے دوران گلیوں‘ بازاروں میں گھومتے پھرتے لوگوں اور زندگی کے مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ آنے والے الیکشن میں کس سیاسی جماعت یا کس امیدوار کو ووٹ دیں گے؟ اکثر سیاسی جماعتیں اس حوالے سے خود بھی فعالیت کا مظاہرہ کرتی ہیں اور چند پلانٹڈ لوگوں کو ہاتھوں میں مائیک اور کیمرے تھما کر مخصوص علاقوں میں مخصوص لوگوں کے پاس بھیج دیا جاتا ہے جو ایک خاص طرح کا بیانیہ بناتے اور اس کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ ماضی میں اس طرح کے سرویز اور جائزوں پر خاصے سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ اس بار اگرچہ الیکشن کمیشن نے پری پول اور پوسٹ پول سرویز کرنے اور ان کے نتائج وغیرہ نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے مگر بہت سے حلقے اسے آزادانہ انتخابات کے نظریے سے متصادم قرار دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں ان سرویز کے رزلٹ ہی سے میڈیا آئوٹ لیٹس کی غیر جانبداری کا تعین کیا جاتا ہے۔ امریکہ سمیت دنیا بھر میں ان سرویز کیلئے مختلف اداروں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔
ہمارے ہاں عمومی طور پر ان سرویز میں ایک ہی طرح کے خیالات سننے کو ملتے ہیں، مثلاً مسلم لیگ نواز کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ''شریف برادران نے لاہور شہر کو سنوار کر رکھ دیا ہے۔ لاہور میں انہوں نے ہر دورِ حکومت میں اس قدر ترقیاتی کام کرائے کہ آج شہر کی شکل ہی تبدیل ہو گئی ہے، جدھر دیکھیں پل اور انڈر پاسز کی بھرمار نظر آتی ہے‘‘۔ اس دعوے سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ لاہور میں نئی سڑکوں، پلوں اور انڈر پاسز کی تعمیر سمیت میٹرو اور اورنج ٹرین جیسے منصوبے شریف برادران کی توجہ اور ذاتی دلچسپی کی وجہ ہی سے پایۂ تکمیل کو پہنچے مگر اصل بات منصوبوں کی افادیت کی ہے۔ اگر ''اورنج ٹرین‘‘ کی بات کی جائے تو اکثریت کو اس سے کچھ غرض نہیں کہ وہ اس منصوبے کی کیا قیمت ادا کر رہے ہیں اور کب تک ادا کرتے رہیں گے۔ ایک حالیہ سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ شہریوں کی اکثریت نے آج تک اورنج ٹرین پر سفر نہیں کیا مگر اس کے ''واجبات‘‘ فرض سمجھ کر سب سے وصول کیے جا رہے ہیں۔ 1985ء سے 2018ء تک‘ 1994ء تا 1996ء منظور وٹو اور نکئی حکومت کے تین سال نکال دیے جائیں اور 2002-07ء کا پرویز الٰہی دور بھی منہا کر دیا جائے تو پنجاب میں شریف برادران کا عرصہ اقتدار دو دہائیوں سے زائد پہ محیط ملے گا۔ ان سب ادوار میں انہیں کسی اپوزیشن کا سامنا تک نہیں تھا۔ اگر وہ اپنے بیس سالہ ادوار کے ترقیاتی کاموں کا چار برس کی حکومت کے ساتھ موازنہ کر رہے ہیں تو یہ موازنہ ہی انتخابی خوف کو عیاں کر رہا ہے۔