"MABC" (space) message & send to 7575

خوب سوچ سمجھ کے فیصلہ کریں!

زمین قوموں اور ریاستوں کی ایک خاص علامت ہوتی ہے۔ کوئی بھی مملوکہ شے یا دولت لوگوں کو اس قابل نہیں بناتی کہ وہ اس کی بنیاد پر اپنے آپ کو ایک قوم کہہ سکں جب تک کہ ان کے پاس زمین نہ ہو۔ اس لیے زمین کی ملکیت کا انتقال اتنا سادہ نہیں ہوتا جیسے کسی گھر کو غیر ملکیوں کو کرائے پر دینا۔ اس پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قدرتی وسائل پر دائمی اختیار پر قرار داد دیکھنا ہو گی جس کے مطا بق '' لوگوں کو قدرتی وسائل کی تلاش، ترقی اور ترتیب‘ ان مقاصد کے لیے بیرونی سروے کی در آمد ان قوانین اور شرائط کے مطا بق ہونی چاہئے جو اس قسم کے افعال کی اجا زت دینے، ان پر پابندی لگانے یا روکنے سے متعلق عوام اور قوم کے نزدیک منا سب یا ضروری ہوں‘‘۔ اقوام متحدہ کی منظور کردہ اس قرارداد کی عبارت کو اگر اس کی روح کے مطابق دیکھیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ زمین سے تمام متعلقہ لوگوں کا بنیادی حق جڑا ہے اور اس کو کسی بھی غیر ملکی کو دے دینا عام طرز کے حکومتی افعال کے زمرے میں نہیں آتا۔
کالم میں اصل مدعا بیان کرنے سے پہلے ایک وقیع بحث اس لیے شروع کی تاکہ ہم جان سکیں کہ اگر کسی وجہ سے ہم اپنے ملک کی زمینوں کا ایک بہت بڑا حصہ بیرونی ممالک کو دینے کا ارادہ کیے ہوئے ہیں یا کر چکے ہیں تو اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔ ایک مرتبہ اگر یہ رسم چل نکلی تو اس کے مضمرات کیا ہو سکتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بکتے بکتے ایک دن سب کچھ بکنے لگتا ہے‘ اس لیے اس بارے خوب غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ایک خبر زیر گردش ہے کہ پندرہ لاکھ ایکڑ زمین ایک دوست ملک کو دینے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ یہ خبر چند ماہ سے ملک کی گرتی ہوئی معاشی صورتحال اور دوست ممالک کی جانب سے ملنے والی کسی بڑی امداد کے تنا ظر میں گردش کر رہی ہے۔ ویسے تو مشرف حکومت کے خاتمے کے بعد جب میثاقِ معیشت کی اتحادی جماعتیں برسراقتدار آئی تھیں اس وقت بھی یہ خبریں سننے کو ملی تھیں مگر اس وقت ان پر عمل نہیں ہو سکا۔ اس وقت کی جمہوری حکومتوں نے یہ جواز تراشا تھا کہ یہ قانون سازی انہوں نے نہیں کی بلکہ پرویز مشرف نے 2002ء میں یہ قانون بنایا تھا۔مشرف دور میں کارپوریٹ فارمنگ ایکٹ بنایا گیا تھا جس کے تحت ''حکومت کسی بھی ملک، غیر ملکی فرد یا کمپنی کو ملک کے چاروں صوبوں میں لامحدود زرعی زمین آسان شرائط اور پُرکشش مراعات پر زرعی استعمال کے لیے فروخت کرنے یا پٹے پردینے کی مجاز ہے‘‘۔ مشرف دور میں اس پر خاصا کام بھی ہوا اور اس قانون کے تحت وزارت خوراک و زراعت نے سرمایہ کاری بورڈ کے ذریعے ملک کے چاروں صوبوں میں 91 لاکھ ہیکٹر قابلِ کاشت زمین کی نشاندہی کی جو زیر کاشت نہیں تھی۔ اس میں سے 48لاکھ ہیکٹرز بلوچستان کے قلات، کوئٹہ، نصیر آباد اور مکران ڈویژن کی زمین تھی۔ پنجاب میں ڈیرہ غازی خان، بہاولپور، راولپنڈی اور لاہور کے قابلِ کاشت علاقوں کی نشاندہی کی گئی۔ صوبہ سندھ میں حیدرآباد، میرپورخاص، سکھر اور لاڑکانہ جبکہ صوبہ سرحد (موجودہ کے پی) میں ڈیرہ اسماعیل خان، ہزارہ اور کوہاٹ کے اضلاع کو نامزد کیا گیا تھا؛ تاہم مشرف دور میں یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔ پھر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کی حکومتوں نے بھی یہ اعلان کیا مگر تب بھی اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ اب دوبارہ یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ پندرہ لاکھ ایکڑ زمین دوست ملک کو مہیا کی جائے گی جہاں وہ جدید زرعی آلات، بیج اور کھادوں کے ذریعے ایسی فصلیں کاشت کریں گے جو ان کے ملک میں بطور خوراک استعمال کی جاتی ہیں اور یہ ایسی فصلیں ہوں گی جن کی تیاری اور کٹائی سمیت ان کی نقل و حرکت سب کچھ اس دوست ملک کے ذمہ ہو گا۔ اس کے بدلے پاکستان کو کیا ملے گا‘ یہ ابھی تک طے نہیں ہو سکا۔ اگر ہوا ہے تو کچھ وجوہات کی بنا پر ابھی تک پبلک نہیں کیا جا سکا۔
اس طرح کے پروجیکٹس کا آغاز سب سے پہلے افریقہ کے کئی ممالک میں شروع کیا گیا۔ کارپوریٹ فارمنگ والوں کا طریقہ کار یہ ہے کہ سرمایہ کاری کے معاہدے میں یہ گارنٹی دی جاتی ہے کہ ساری پیداوار پر ان کا یہ حق فائق تسلیم کیا جاتا ہے کہ وہ اس کو مکمل طور پر ایکسپورٹ کر سکتے ہیں یا اس کا کچھ حصہ‘ جتنا وہ چاہیں‘ مقامی منڈی میں فروخت کر سکتے ہیں لیکن اس کے لیے وہ پابند نہیں ہوں گے۔ ظلم کی بات تو یہ ہے کہ وہ کاشتکار‘ جو افریقہ میں کارپورٹ فارمنگ کمپنیوں کے ملازم ہیں‘ وہ بھی گندم یا دیگر فصلوں کا ایک دانہ بھی اپنے گھروں کو نہیں لے جا سکتے کیونکہ وہ وہاں پر تنخواہ دار ملازم ہیں اور کام کرنے سے پہلے وہ اپنے معاہدے میں یہ تمام شرائط تسلیم کر چکے ہوتے ہیں۔ دوسری بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ وہ بازار یا غلہ منڈی سے بھی وہ گندم یا فصل نہیں خرید سکتے کیونکہ وہ ساری فصل تو مالک اپنی مرضی سے کسی دوسرے ملک کو اچھے داموں فروخت کرنے کا حق رکھتا ہے۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ یہاں وہ چیزیں کاشت کی جاتی ہیں جو اکثر مقامی ملک کی ضرورت بھی نہیں ہوتیں۔ اس فصل کا معیار وہ ہوتا ہے جو ان کے اپنے ملک یا جہاں یہ فصل ایکسپورٹ ہو گی‘ ان کا غذائی معیار ہو۔ اگر ان سے مقامی منڈی کیلئے کچھ درخواست کی بھی جائے تو اس کے دام ایکسپورٹ کوالٹی کے مطابق غیر ملکی کرنسی میں وصول کیے جاتے ہیں۔ گویا ان کی قیمت عوام کی دسترس سے باہر ہی رہتی ہے۔ یہاں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہماری زمین پر جدید فارمولوں کے تحت کاشتکاری کا جو مہنگا پیٹرن استعمال ہو گا، وہ روز بروز زمین کی پیداواری صلاحیت کو بتدریج اس قدر کمزورکر دے گا کہ کل کلاں‘ جب تک یہ لیزکا معاہدہ ختم ہو گا‘ یہ زمین دردِ سر بن کر رہ جائے گی اور مقامی افراد مہنگے جدید فارمولے کی لاگت کے متحمل نہیں ہو سکیں گے۔
ایک دہائی قبل جب زمین لیز پر دینے یا مکمل طور پر فروخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا‘ اس کے حوالے سے آنے والے لوگوں کو پاکستان میں سکیورٹی کی بھرپور فراہمی کے امور بھی طے کیے جا چکے تھے کیونکہ اس وقت اس بات پر اعتراض کرنے والوں کو سمجھانے کیلئے بتایا جاتا تھا کہ اس سے کارپوریٹ فارمنگ کے منصوبوں پر عمل پیرا ہوا جائے گا۔ ایک ایسا ملک جہاں شدید بھوک اور مہنگائی کا راج ہونے کے علا وہ لاکھوں تربیت یافتہ کسان ایسے ہوں جن کے پاس اپنی زمین نہیں اور ان کی گزر بسر کیلئے لائق سمجھی جانے والی کمائی اور آمدن انتہائی کم ہو رہی ہو‘ ان زمینوں کو اگر دوسروں کے حوالے کر دیا جائے تو اسے کسی طرح بھی قابل ستائش نہیں سمجھا جائے گا۔ اسلامی قانون کو اگر سامنے رکھا جائے تو اس کے مطا بق زمین اللہ کی ملکیت ہے اور اسے مقامی لوگوں کے کام آنا چاہیے۔ ریاست کا یہ کام ہے کہ وہ زمین کو عوام کی فلاح کیلئے استعمال میں لائے۔ ہم پاکستان کے حوالے سے دیکھیں تو زمین ریاست کی ملکیت ہے نہ کہ حکومت کی۔ یہ دونوں پہلو سامنے رکھتے ہوئے یہی کہا جائے گا کہ حکومت تو خود ایک کرائے دار کی حیثیت رکھتی ہے اور ریاستی زمین کسی کو فروخت کرنے کا حق نہیں رکھتی۔ انصاف کی نظر سے اور ملکی حقائق کی روشنی میں دیکھیں تو ان زمینوں پر سب سے پہلا حق بے زمین کسانوں کا ہے۔
کئی ماہ سے غیر ملکی امداد کی خبروں کے پس منظر میں ملکی زمین غیر ملکیوں کو کارپوریٹ فارمنگ کے لیے دینے کی بات کی جا رہی ہے، اس لیے کسی بھی غیر ملک کو ملکی زمین دینے سے پہلے اس سے پیدا ہونے والے نتائج سے قوم کو آگاہ کرنا چاہئے۔ سب سے پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ جو زمین کسی دوسرے ملک کو دی جا رہی ہے کیا اس پر پہلے سے کاشتکاری کی جا رہی ہے یا نہیں۔ اور اگر کی جا رہی ہے تو کیا ان زمینوں پر کام کرنے والے کسانوں اور مزارعین کو بیروزگاری اور بیکاری کے سمندر میں پھینک دیا جائے گا؟ یا انہیں اس زمین پر با قاعدہ اور بہتر ملازمت دی جائے گی؟ کیا اپنی فصل بڑھاکر اس سے من مانا منافع حاصل کرنے کیلئے زمین کو ظالمانہ طریقوں سے استعمال میں تو نہیں لایا جائے گا کہ جس سے زمین اپنی زرخیزی کھو کر کمزور اور جلد ہی بنجر ہو جاتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں