ارادہ تو ایک بڑے صاحب کے مصاحب کے لکھے گئے ایک مضمون کے حوالے سے تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنے کا تھا مگر پھر یہ سوچ کر ارادہ بدل لیا کہ اگر وہ یہ نہیں لکھیں گے تو پھر کیا لکھیں گے، اس لیے رخ برصغیر پاک و ہند میں صوفیائے کرام کی تبلیغِ اسلام کے لیے گرانقدر خدمات اور معاشرے میں امن و سلامتی کے قیام میں ان کے روشن اور قابلِ تقلید کردار کی جانب کر لیا کیونکہ ہمارے تمام صوفی بزرگ تاریخ اسلام اور تاریخِ ہند کا ایک نہایت روشن باب ہیں اور آج ان کی تعلیمات کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔
تصوف معنوی لحاظ سے 'صوف‘ یعنی موٹے اونی کپڑے سے عبارت ہے، جسے صحرائے عرب کے لوگ استعمال کیا کرتے تھے؛ تاہم بعض افراد کی رائے ہے کہ اس کا مادہ ''الصفو‘‘ ہے جس کا مطلب محبت، خلوص اور دوستی ہے۔ اس اعتبار سے صوفی سے مراد وہ شخص ہے جس نے دنیا و آخرت کے اجر و جزا سے بے نیاز ہو کر محبوبِ حقیقی سے بے لوث محبت اور دوستی کا رشتہ استوار کر لیا ہو۔ تصوف کی باقاعدہ ابتدا کب اور کس معاشرے سے ہوئی‘ اس بارے کوئی مستند تاریخ سامنے نہیں آتی لیکن یونان اور ہندوستان میں قبل از مسیح اس کے آثار ضرور دکھائی دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا آغاز نیپال میں ہمالیہ کے دامن میں واقع ایک چھوٹی سی ریاست ''کپل وستو‘‘ سے ہوا جہاں سے نکل کر گوتم بدھ نے ہمالیہ کے پہاڑوں اور میدانوں میں اپنی مہک کو چہار سو پھیلا دیا۔ تاریخ عالم کے اوراق بتاتے ہیں کہ جب جب اہلِ حکومت کا قہر و جبروت اور خدا کے نام پر اہلِ مذہب کی چیرہ دستیاں بڑھنا شروع ہوئیں‘ تب تب دنیا کے ہر خطے میں اہلِ طریقت کے ایسے گروہ پیدا ہونا شروع ہوئے جنہوں نے مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے والوں، عقیدوں کے نام پر انسانوں میں تفریق پیدا کرنے والوں اور خلقِ خدا کو رنگ، نسل، زبان اور عقیدے کی بنیاد پر تقسیم کرنے والوں کے مقابلے میں امن و آشتی، بھائی چارے اور تعصب سے پاک محبت و اخوت کا ایسا درس دیا کہ تاریکیاں اپنے ہی اندھیروں میں ڈوب کر رہ گئیں اور ان کی جگہ ہمدردی اور انسانیت کے نور سے منور ایسی شمعیں روشن ہوئیں کہ ہر گھر میں حق کا اجالا پھیلنا شروع ہو گیا۔
برصغیر میں مسلم صوفیا اور مشائخ نے تبلیغِ اسلام کے لیے جو گرانقدر خدمات سر انجام دی ہیں‘ وہ مسلم تاریخ کا ایک نہایت روشن باب ہیں۔ مسلم سلاطین و مجاہدین نے اگر علاقے فتح کیے تو صوفیا اور مشائخ نے تسخیرِ قلوب کا فریضہ سر انجام دیا۔ ہندوستان میں عہد سلاطین میں چشتیہ، سہر وردیہ اور دورِ مغلیہ میں قادریہ اور نقشبندیہ سلسلوں نے اسلامی تاریخ و تمدن کی تبلیغ کا کام سر انجام دیا۔ پنجاب سے آسام، دہلی سے دکن اور کشمیر سے کابل تک‘ دور دراز علا قوں میں بھی مشائخ کی اصلاحی اور تبلیغی سرگرمیوں کے نقوش و آثار بڑی کثرت سے ملتے ہیں۔1201ء میں ہند کی راجدھانی پر متمکن ہونے والا پہلا خوش نصیب حکمران قطب الدین ایبک ایک غلام تھا‘ جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کی نگاہِ کیمیا سے فیض یاب ہوا تھا اور جس سے برصغیر میں مسلمانوں کے جاہ و جلال کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو سلطان محی الدین اورنگزیب عالمگیر پر منتج ہوا۔ سلطان غیاث الدین بلبن ایک ترک امیر زادہ تھا جو چنگیز خان کے حملے میں گرفتار ہونے کے بعد بغداد میں بطور غلام فروخت ہوا مگر اس کی قسمت کا ستارہ اس طرح جگمگایا کہ ایک بزرگ حضرت جمال الدین بصری نے اسے خرید کر اس کی تربیت کی۔ وہ ہمیشہ باوضو رہتا، علما و مشائخ کو کھانے پر مدعو کرتا۔ اس نے اپنے چالیس سالہ دورِ اقتدار میں ہندوستان میں مسلم حکومت کی بنیادیں مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ محمد بختیار خلجی ایک جرنیل تھا‘ جس نے بہار اور بنگال کے وسیع علا قے مسلم سلطنت میں شامل کیے۔ بنگال کی راجدھانی میں اس نے صرف اٹھارہ سواروں کی مدد سے فتح حاصل کی۔ وہ بنگال کے معروف صوفی بزرگ حضرت عطاء اللہ کے دامنِ کرم سے وابستہ تھا۔ خلجی خاندان کے دور میں مسلم حکومت سارے ہندوستان میں قائم ہو گئی تھی، اس کے علاوہ مبلغین اور مشائخ کرام خطۂ برصغیر کے کونے کونے میں پہنچ چکے تھے۔ 1245ء میں نا صر الدین محمود‘ جو ایک درویش طبع انسان تھا‘ حضرت خواجہ بختیار کاکیؒ اور خواجہ فرید گنج شکرؒ جیسے اکابر صوفیا کے فیضِ محبت اور ان کی نسبت سے دہلی کے تخت شاہی کے ساتھ ساتھ بلند روحانی مقام کا بھی حقدار ٹھہرا۔ اولیاء کرام کے مسلم معاشرے پر اثرات کا اندازہ برہانپور کے فاروقی سلاطین کے عقائد و اطوار اور اعمال و کردار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ حضرت برہان الدین غریب کے نام سے معنون اور ان کی دعائوں سے آباد ہونے والے شہر برہان پور کو میر غلام علی آزاد بلگرامی نے اولیا خیز شہر سے موسوم کیا۔ مغل شہنشاہ اکبر کے دور میں مسلم معاشرہ جب آزمائش اور ابتلا سے دوچار ہونا شروع ہوا تو اس کی اصلاح، جداگانہ مسلم تشخص کے تحفظ اور غیر مسلم اقوام کے تسلط سے نجات کیلئے قدرت نے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور شاہ غلام علی مجددیؒ جیسی ہستیوں کا انتخاب کیا۔ دو قومی نظریے کے اولین داعی اور ممتاز مصلح سر سید احمد خاں اور آپ کا خانوادہ شاہ غلام علیؒ سے فیضیاب تھے۔
علاء الدین خلجی جو ایک اعلیٰ پائے کا منتظم بادشاہ تھا‘ وہ شیخ بہاء الدین زکریاؒ کے پوتے فتح رکن الدین کا معتقد تھا۔ بلوچستان میں اشاعت اسلام کا کام حضرت بہاء الدین زکریاؒ کے خلیفہ شیخ حسن افغانؒ اور حضرت سلطان باہوؒ کے خلفا نے انجام دیا۔ خیبر پختونخوا میں خواجہ شعیب رتو ڈھیریؒ، اخوند صاحب سوات، حضرت عبد الوہاب پیر صاحب مانکی شریفؒ، شاہ اسماعیل شہید، سید احمد شہید، حاجی صعب ترنگ زئی جیسی روحانی شخصیات نے عملی طور پر پہلے سکھوں اور پھر انگریزوں کے خلاف خود اور اپنے خلفا کے ساتھ مل کر نہ صرف جہاد کیا بلکہ ہزارہ کی ایک اہم شخصیت سید اکبر شاہ ستھانوی کی سربراہی میں شرعی اصولوں پر ایک حکومت بھی قائم کی۔ کراچی کا ساحل خانوادہ سیدنا علیؓ کے چشم و چراغ عبداللہ شاہ غازیؒ کی روشنی سے درخشندہ ہے۔ وہاں سے سندھ کے ریگزاروں کی طرف جائیں تو سیہون کے مقام پر حضرت عثمان مروندی کاظمی المعروف لعل شہباز قلندرؒ کا مینارۂ نور ہے جن کے عقیدت مندوں کا سلسلہ جنوبی ہند تک پھیلا ہوا ہے۔ اس سے آگے حیدر آباد سے چند ہی کلومیٹر کے فاصلے پر بھٹ شاہ کے مقام پر شاہ سائیں کا بحرِ ہدایت موجزن ہے۔ ٹھٹھہ سے انڈس ہائی وے خیرپور کے ساتھ شاہ عبدالطیف بھٹائی ہیں تو درازہ شریف میں سچل سرمست جیسے صوفی شاعر کے کلام سے پورا علاقہ وجد کی کیفیت میں رہتا ہے۔ سندھ کے صحرائوں کو عبور کر کے پنجاب کے صحرائوں اور میدانوں کی طرف سفر کرتے کرتے وادی گنگا و جمنا کی طرف چلتے جائیں اور پھر وہاں سے بڑھتے ہوئے بنگال کی طرف رخ کریں تو آپ کو آج بھی اس سفر کے دوران ہر شہر‘ ہر قصبے‘ ہر گائوں‘ ہر چک اور ہر گوٹھ میں صوفیا کرام کے مزارات اور آستانے دکھائی دیں گے۔ یہ وہ بزرگ تھے جنہوں نے نسلی، لسانی، مذہبی اور فرقہ پرستی کی سرحدوں کو گرا کر ایک ایسا سماجی ماحول ترتیب دیا جس میں اللہ کی وحدانیت، اس کے رسولﷺ کی عقیدت و محبت اور انسان دوستی کے سوا کسی اور عنصر کے سوچنے کی گنجائش ہی نہیں تھی۔
آج کہیں پر شریعت کی حکمرانی کے نام پر تو کہیں امریکہ و مغرب دشمنی کے نام پر بم دھماکوں، خود کش حملوں کے ذریعے پاکستان کے ہر گلی‘ کوچے اور بازار میں معصوم انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ معصوم ذہنوں کو مذہب اور فرقہ پرستی کے نام پر اپنے مخالفین کے خلاف آگ کا گولہ بنا کر گھروں کو اجاڑنا نہ تو اسلام کی تعلیمات ہیں اور نہ ہی مبلغین و مصلحین کا طریقہ۔ بے گناہ مسلمانوں کی آنکھیں‘ جو بارود کے دھویں سے اندھیروں میں ڈوبتی جا رہی ہیں‘ انہیں پھر اسی روشن شمع کی ضرورت ہے جو اس دھرتی پر اہل طریقت اور اولیاء کرام نے روشن کی تھی اور جو مسلمانوں کو قابلِ رشک میراث ہے۔ آج پھر درسِ انسانیت سے نوجوانوں کے تعصب سے تنگ ہو جانے والے سینوں کو کشادہ کرنے کی ضرورت ہے اور آج سماج اور دین میں جو باہمی نفرت اور اختلافات کی بھرمار ہوتی جا رہی ہے‘ اس کیلئے پھر سے ہم جیسے بھٹکے ہوئوں کو کسی ولیٔ کامل کی صحبت اور مجلس کی ضرورت ہے۔