قریب دو ماہ قبل سابق وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ ہمارا بیانیہ بہت واضح ہے‘ ملک کے لیے ہماری تاریخی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، 2013ء سے 2017ء تک کا دور بہترین تھا، مہنگائی 2 فیصد تھی اور گروتھ ریٹ 6 فیصد سے زائد تھا۔ 2016ء میں پاکستان دنیا کی 24ویں بہترین معیشت تھا جبکہ آج یہ 42ویں نمبر پر پہنچ چکا ہے۔ اگرچہ انہوں نے شاہد خاقان عباسی حکومت اور بعد ازاں شہباز شریف کے زیر قیادت پی ڈی ایم حکومت میں معاشی ابتری کا ذکر نہیں کیا؛ البتہ اس انٹرویو میں انہوں نے ایک بہت اہم بات کی۔ احتساب کے بیانیے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ احتساب کے نام پر صرف انتقام کی سیاست کی گئی، (ن) لیگ کے رہنماؤں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا‘ جج ارشد ملک سے شوکت صدیقی تک اب تمام چیزیں عوام کے سامنے آ چکی ہیں، جب ہماری حکومت آئے گی تو ہم ''ٹروتھ کمیشن‘‘ بنائیں گے اور سب چیزیں عوام کے سامنے لائیں گے۔ ڈار صاحب کے بعد سینیٹر آصف کرمانی سمیت متعدد (ن) لیگی رہنمائوں نے ٹروتھ کمیشن کی بات کی جبکہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ میں 1947ء سے ٹروتھ کمیشن کے حق میں ہوں اس میں جنرل جیلانی اور دیگر کے حوالے سے بھی کمیشن بننا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ٹروتھ کمیشن کو کوئی جوابدہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے سامنے حقائق رکھے جاتے ہیں۔ 1947ء سے اب تک کے حقائق سامنے لائیں، ہر کسی کا نقطہ نظر سامنے آ جائے گا اور عوام دیکھ لیں گے۔
ابھی حال ہی میں بھارتی سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 کے حوالے سے جو فیصلہ دیا‘ اس حوالے سے پانچ رکنی بینچ میں شامل جسٹس سنجے کشن کول‘ جن کا تعلق مقبوضہ کشمیر سے ہے‘ نے اپنے علیحدہ فیصلے میں ''ٹروتھ اینڈ ری کنسیلیشن کمیشن‘‘ قائم کرنے کی تجویز دی ہے جو 1980ء سے کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں‘ جن کا ارتکاب سٹیٹ اور نان سٹیٹ ایکٹرز نے کیا‘ کی تحقیقات کرے۔ اس ضمن میں جج صاحب نے اپنے طور پر کچھ معاملات کی نشاندہی بھی کی ہے جن کا تعلق 1971ء میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد کے حالات، 1980ء میں مسلح مزاحمت، 1987ء کے الیکشن میں عسکریت پسندی اور مقبوضہ وادی میں صوفی ازم اور شیو ازم کی بحث جیسے نکات قابلِ ذکر ہیں۔
''نیشنل ٹروتھ اینڈ ری کنسیلیشن کمیشن‘‘ پاکستانی سیاست کا ایک لازمہ بنتا جا رہا ہے۔ ہر دور میں نیشنل ٹروتھ کمیشن قائم کرنے کے اعلانات اور عزائم ظاہر کیے جاتے رہے مگر کسی کو بھی یہ بھاری پتھر اٹھانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ یادش بخیر‘ 14مئی 2006ء کو لندن میں پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن محترمہ بینظیر بھٹو اور مسلم لیگ (ن) کے بانی میاں نواز شریف نے جس چارٹر آف ڈیمو کریسی پر دستخط کیے تھے‘ اس کے سیریل نمبر 13 میں یہ کہا گیا تھا کہ ''تشدد، قید و بند، ظلم، ٹارگٹڈ قانون سازی کے شکار (افراد) اور سیاسی احتساب کے لیے ٹروتھ اینڈ ری کنسیلیشن کمیشن قائم کیا جائے گا۔ یہ کمیشن تحقیقات کرے گا اور 1996ء کے بعد سے سول حکومتوں کی برطرفی پر اپنی رپورٹ پیش کرے گا‘‘۔میثاقِ جمہوریت کے دیگر اہم نکات کی بات کی جائے تو اس کے مطابق: ''دستخط کنندہ جماعتیں حکمران جماعت سے کسی طرح کی کوئی ڈیل نہیں کریں گی۔ عدلیہ، قانون اور الیکشن کمیشن کو نیوٹرل اور بااختیار بنایا جائے گا۔ اگر کوئی پارٹی الیکشن جیت جائے تو حزبِ اختلاف پر کوئی سختی نہیں کرے گی۔ کوئی ایسا فیصلہ نہیں کیا جائے گا جو پارلیمنٹ کی اکثریتی ذہنیت کے خلاف ہو۔ اپوزیشن کی بھی ذمہ داری ہوگی کہ حکومت کے کام میں روڑے نہیں اٹکائے گی جس طرح ماضی میں کیا جاتا رہا‘‘۔اس میثاق کے محض ڈیڑھ سال بعد ہی ایک جماعت اور بعد ازاں دوسری جماعت نے ملک میں حکومت سنبھالی، مندرجہ بالا نکات پر کس قدر عمل ہوا کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
بعض افراد ٹروتھ کمیشن کو این آر او کی مثل قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ کمیشن صرف سچائی تک پہنچتا اور قومی غلطیوں کی نشاندہی کرتا ہے تاکہ ماضی کی غلطیوں کو ٹھیک کرنے کی بہتر منصوبہ بندی کی جا سکے اور مستقبل میں ان کا اعادہ کرنے سے بچا جائے۔ اس اقدام کی اولین تجویز مشہور افریقی رہنما نیلسن منڈیلا نے پیش کی تھی؛ تاہم انہوں نے پوری قوت کے ساتھ مفاہمت کی حمایت کی تھی۔ نیلسن منڈیلا کی جانب سے قائم کردہ ٹی آر سی (ٹروتھ اینڈ ری کنسیلیشن کمیشن) کے مقاصد تھے:ماضی میں جو کچھ ہوا، اس کے پیش نظر امن کے قیام کے لیے ''انتظامی ریکارڈ‘‘ قائم کیا جائے۔ مظلوموں کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کرنا جہاں وہ اپنی کہانیاں سنا سکیں اور انہیں ان کا کچھ حل مل سکے۔ قانونی، سٹرکچرل اور دیگر اصلاحات کی تجاویز تاکہ ماضی میں ہوئے ظلم کو روکا جا سکے۔ ذمہ داروں کا تعین اور ظالموں کے احتساب کے لیے اقدامات کرنا۔
پوری افریقی قوم نے اس کمیشن کو قبول کیا اور آج سب پر واضح ہے کہ منڈیلا کے دور کے بعد سے جنوبی افریقہ کی قسمت بدل گئی۔ وہ جنوبی افریقہ جہاں 1949ء میں گوروں اور کالوں کی آپس کی شادیوں کی روک تھام کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی گئی تھی آج وہاں نسلی امتیاز کا نشان تک نہیں ملتا۔ قومی یکجہتی اور مفاہمتی بل 1995ء کے لیے ٹی آر سی قائم کیا گیا تو اس سے ماضی میں کی گئی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق لاتعداد انکشافات سامنے آئے۔ بعد ازاں منڈیلا نے سب کو معاف کرتے ہوئے قومی یکجہتی اور مفاہمت کی راہ ہموار کی اور باقی تاریخ ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما آج کل ہر دوسرے بیان میں ٹروتھ کمیشن کی بات کر رہے ہیں تاکہ ان پر قائم ایک ایک مقدمے کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے یہ تحقیقات کی جائیں کہ جھوٹا کون ہے اور سچا کون؟ ویسے ایک ٹروتھ کمیشن محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کی تحقیقات اور تفتیش کے لیے آصف علی زرداری نے بحیثیت صدرِ مملکت قائم کیا تھا۔ پہلے اقوام متحدہ اور پھر سکاٹ لینڈ یارڈ سے تحقیقات کرائی گئیں تاکہ دودھ کادودھ اور پانی کا پانی سب کے سامنے آ سکے لیکن ابھی تک محترمہ کے قاتلوں کے اصل چہرے قوم کے سامنے نہیں آ سکے۔ اگر نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان کے خلاف ایک دوسرے کے دور میں قائم کیے گئے مقدمات کی حقیقت جاننے کے لیے کسی بین الاقوامی ادارے کی خدمات لی جاتی ہیں تو پھر یہ تحقیقات کہیں چھپ کر نہیں ہونی چاہئیں بلکہ سب کے سامنے کی جائیں اور یہ تمام کارروائی براہ راست دکھانے کا بندوبست ہو تاکہ سچ اور جھوٹ کا فرق قوم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے۔ اگر کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ کل کسی نے ایک فریق کے ساتھ انصاف نہیں کیا اور آج اس کے مخالف فریق کو یہ خدشہ ہے کہ اس کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا تو پھر آئے روز کی الزام تراشی کو ختم کرنے کے لیے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا جانا چاہئے تاکہ سب کے سامنے آ سکے کہ کیسے ایک فریق کے لوگ دھڑا دھڑ بری ہو رہے اور دوسری طرف والے دن میں کئی کئی بار قید کر لیے جاتے۔ سچ پوچھئے تو اس اقدام سے ہمارا عدالتی بوجھ بھی کم ہو جائے گا اور آئے روز عدالتی کارروائیوں کا حصہ بننے کیلئے جو تگ و دو کرنا پڑتی ہے‘ اس سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔
اگر کسی نے اپنی ضد اور انا کی تسکین کے لیے اپنے کسی بھی مخالف کے خلاف مقدمات بنائے‘ اسے ناحق جیلوں میں گھسیٹا تو اس پر محض حساب نہیں بلکہ کڑا احتساب ہونا چاہئے لیکن یہ احتساب کرے گا کون؟ شفاف اور صاف احتساب اور ایک ایک مقدمے کی چھان بین اور ان کے ثبوت کس کے سامنے پیش کیے جائیں؟ کل تک جو سرکاری اہلکار اور تفتیش کرنے والے ادارے کئی کئی جلدوں کی فائلیں اٹھائے عدالتوں میں ملزمان کے خلاف ثبوت پیش کرتے رہے‘ آج وہی اہلکار اور وہی محکمے عدالتوں میں تسلیم کر رہے کہ ان کے پاس ملزمان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں اور یہ کہ ان کا ادارہ اور حکومت ملزمان کے خلاف کسی قسم کی مزید کارروائی نہیں کرنا چاہتے، لگائے گئے تمام الزمات جھوٹ پرمبنی تھے یا اگر کسی کے مقدمے میں کچھ دستاویزات جمع کیے بھی گئے تو اصل فائل پیش کرنے کے بجائے ان کی نقل یا فوٹو کاپی پیش کی گئی اور کسی کو فوٹو کاپی پر مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر کیسز بند کرنے کے ساتھ ساتھ جھوٹے مقدمات بنانے والے ذمہ داروں کو بھی سزا سنائی جاتی تو اگلی بار کسی پر کیس بناتے ہوئے احتسابی ادارے کے اہلکار بھی مستعد اور محتاط ہوتے لیکن شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔
گوگا دانشور سے جب مسلم لیگ (ن) کے ''ٹروتھ کمیشن‘‘ کی مطالبے کی بابت پوچھا تو جواب میں گوگا دانشور کا کہنا تھا کہ ایک شخص ایک محفل میں بیٹھا بتا رہا تھا کہ میں نے اور میرے ایک قریبی دوست نے بیس سال قبل یہ تہیہ کیا تھا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے متعلق جو کچھ سوچتے ہیں‘ وہ سچ سچ بیان کر دیا کریں گے، ایک دوسرے سے کچھ نہیں چھپائیں گے۔ محفل میں موجود ایک شخص نے نہایت اشتیاق سے پوچھا: اس کے بعد کیا ہوا؟ ان صاحب نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا ''بیس سال سے ہماری بول چال بند ہے‘‘۔ لہٰذا پاکستان میں بھی جب سچ سامنے آنا شروع ہوا تو بہت سوں کی بول چال بند ہو جائے گی۔ گوگا دانشور کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو افراد آج جج ارشد ملک کے مبینہ اعترافات کی کہانیاں سنا رہے ہیں‘ وہ عدالت میں سب کے سامنے سیف الرحمن کی زرداری صاحب سے معافی کی کہانی بھی بیان کر دیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ رِیت کب اور کس نے شروع کی تھی۔
موجودہ سیاسی کشمکش میں ایک دوسرے کے خلاف بنائے گئے کیسز کے حوالے سے سب سے بہترین طریقہ یہی دکھائی دیتا ہے کہ ''عالمی عدالت انصاف‘‘ کے سامنے تینوں بڑی جماعتوں کے لیڈران کے مقدمات رکھ دیے جائیں اور اُسے عالمی مسلمہ قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے دیں۔ اگر کسی نے بھی کسی دوسرے کے خلاف غلط اور بے بنیاد مقدمات قائم کیے ہیں تو ایسے افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ آئندہ کسی کو یہ ہمت اور جرأت نہ ہو سکے کہ جس کو چاہا زندان میں پھینک کر اس کی کردار کشی شروع کر دی۔