"MABC" (space) message & send to 7575

آئندہ اسمبلی کے چیلنجز!

عام انتخابات کے پولنگ ڈے میں ڈیڑھ ماہ سے بھی کم کا عرصہ کا باقی ہے مگر سیاسی منظر نامے پر چھائی دھند دسمبر کی دھند کی طرح مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ اگرچہ کچھ حلقے ہر روز کوئی نیا شوشہ چھوڑ کر انتخابات کے التوا کی کہانی سناتے ہیں مگر باخبر افراد کا کہنا ہے کہ اب انتخابات کے انعقاد کو التوا میں ڈالنا ممکن نہیں ہے۔ درفطنیاں چھوڑنے والے پنجاب کے صوبائی انتخابات کی مثال دیتے ہیں کہ جب کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد جس وقت امیدواروں کی حتمی فہرست شائع کرنا تھی‘ اس وقت الیکشن کمیشن کی جانب س ے انتخابات کو ملتوی کر کے اکتوبر 2023ء میں کرانے کا اعلان کر دیا گیا، گو کہ اب حالات ویسے نہیں ہیں اور سپریم کورٹ واضح کر چکی ہے کہ انتخابات کا فروری میں انعقاد پتھر پر لیکر ہے؛ البتہ سیاسی سرگرمیوں میں جوش و خروش کی عدم موجودگی اور تاحال سیاسی ماحول کا نہ بن پانا عوامی سطح پر کچھ اضطراب کا باعث بن رہا ہے۔ اگر ماضی کے انتخابات کی بات کریں تو انتخابات سے لگ بھگ ایک سال قبل ہی انتخابی ماحول بن جاتا تھا، بلکہ ہر حکومت اپنے آخری سال کو انتخابی سال سمجھ کر ہی حکومت کرتی تھی اور عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کیا جاتا تاکہ انتخابات میں آسانی ہو سکے۔ علاوہ ازیں حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی جابجا جلسے، کارنر میٹنگز، یونین کونسلز کی سطح پر انتخابی دفاتر اور دھواں دھار تقاریرکا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ مگر اس بار ایسا کچھ دکھائی نہیں دے رہا بلکہ نظر بندی اور گرفتاریوں کا سلسلہ جس طرح زور پکڑ رہا ہے اس سے لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کرنے کے فیصلے کے نفاذ پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔
بہرکیف‘ انتخابات تو اب ہو ہی جائیں گے‘ کوئی ایک پارٹی اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ حکومت سازی میں بھی کامیاب ہو جائے گی؛ البتہ اس اسمبلی کو ایسے ایسے مسائل درپیش ہوں گے جو ماضی میں کبھی نہیں رہے ہوں گے، مثلاً موجودہ سیاسی بحران کو دیکھیں تو یہ پی ٹی آئی کی حکومت کو ختم کرنے سے شروع ہوا تھا حالانکہ اس وقت اسمبلی میں اکثریتی جماعت پاکستان تحریک انصاف ہی تھی۔ برطانیہ میں ہمیشہ اکثریتی جماعت کو حکومت بنانے کی دعوت دی جاتی ہے‘ اگر وہ حکومت بنانے میں ناکام ہو جائے تو اسمبلی توڑ کر نئے الیکشن کرا دیے جاتے ہیں تاکہ کوئی سیاسی بحران پیدا نہ ہو۔ بورس جانسن، لز ٹرس اور رشی سوناک‘ ان سب کا تعلق ایک ہی جماعت سے ہے مگر وزرائے اعظم پر عدم اعتماد سے سیاسی نظام ڈی ریل نہیں ہوا‘ حکومت اکثریتی جماعت ہی نے بنائی۔ ہم نے برطانیہ کی مثال سے سبق سیکھنے کے بجائے بھان متی کا کنبہ جوڑنے کے لیے محض اینٹ روڑا ہی نہیں بلکہ ریت اور مٹی بھی جمع کرنا شروع کر دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج کوئی بھی جماعت سولہ ماہی حکومت کو تسلیم کرنے‘ اس کے فیصلوں اور ان کے اثرات کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ پی ڈی ایم اتحاد کی دو مرکزی جماعتیں تو برملا کہہ چکی ہیں کہ اتحادی حکومت میں اسی طرح ہوا کرتا ہے۔ اسی طرح کی صورتحال پنجاب میں بھی دیکھنے میں آئی جہاں بزدار صاحب کے بعد حمزہ شہباز اور پھر چودھری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ بنے۔ قریب دو ماہ میں تین حکومتوں کا بننا اور اس کے بعد بھی پرویز الٰہی حکومت کا مسلسل غیر مستحکم رہنا... ان حالا ت میں پنجاب اسمبلی کو مختلف حیلے حربوں، فلور کراسنگ اور ترغیبات سے جوڑے رکھنے کے بجائے تحلیل کرنا ہی بہترین آپشن تھا اور یہی کیا گیا۔ اس کے بعد جو ہوا‘ وہ ایک الگ معاملہ ہے؛ البتہ آئندہ اسمبلی کو اس حوالے سے باقاعدہ قانون سازی کرنا ہو گی کہ حکومت بنانے کی دعوت ہمیشہ اکثریتی پارلیمانی جماعت کو دی جائے گی۔ اس سے فلور کراسنگ اور چھوٹی اتحادی جماعتوں کی دھمکیوں کا بھی تدارک ہو گا۔
دوسرا بڑا مسئلہ یکساں انتخابات سے متعلق ہے۔ اس بحران نے بھی پچھلے ایک‘ ڈیڑھ سال میں کافی سیاسی و انتظامی مسائل پیدا کیے۔ کیا یہ ضروری ہے کہ صوبوں اور وفاق میں انتخابات یکساں ہوں؟ اگر یکساں انتخابات ناگزیر ہیں تو کسی صوبے کی اسمبلی وقت سے قبل تحلیل ہونے کی صورت میں کیا ہو گا؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب تلاش کرنا اگلی اسمبلی کی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ علاوہ ازیں انتخابات کا انعقاد کس کی ذمہ داری ہے، انتخابات کے لیے تاریخ کون دے گا، اگر مقررہ مدت کے اندر انتخابات نہیں کرائے جاتے تو اس کے لیے کون ذمہ دار ہو گا اور انتخابات کے لیے اخراجات فراہم کرنا کس کی ذمہ داری ہے‘ یہ وہ سوالات ہیں جو اپریل 2022ء کے بعد سے مسلسل عدالتوں میں گونجتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے ایک آئینی ترمیم ناگزیر ہے تاکہ کوئی بھی کابینہ یا اسمبلی نت نئے رولز پاس کر کے آئینی بحران پیدا نہ کر سکے۔ قبل ازیں انتخابات کے لیے تاریخ دینا صدر کا استحقاق تھا مگر صدر علوی نے جب انتخابات کی تاریخ پر مشاورت کے لیے چیف الیکشن کمشنر کو دعوت دی تو جواب دیا گیا کہ پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 57 اور 58 میں ترامیم کر دی گئی ہیں اور اب انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ الیکشن کمیشن کا یہ موقف بعد ازاں عدالتِ عظمیٰ میں غلط ثابت ہوا اور سپریم کورٹ کی طرف سے یہ بھی ریمارکس دیے گئے کہ صدر نے تاریخ کا اعلان نہ کر کے آئینی ذمہ داری نہیں نبھائی۔ اس حوالے سے غور و خوض کے بعد کی گئی آئینی ترمیم ہی مناسب راہ تجویز کر سکتی ہے۔ انتخابات کے اخراجات کے حوالے سے یہ قانون بنایا جا سکتا ہے کہ ہر بجٹ میں ہر حکومت‘ خواہ وفاقی و یا صوبائی‘ انتخابات کا مجوزہ بجٹ منظور کرے گی اور اسمبلی کی تحلیل کی صورت میں اسے بروئے کار لایا جائے گا۔
اس کے علاوہ انتخابات کس کے زیر نگرانی ہونے چاہئیں‘ یہ ایشو بھی اسمبلیوں میں قانون سازی کے ذریعے مستقل طور پر حل کیا جانا چاہیے۔ جو ڈی سی اور کمشنر سیاسی لیڈران کے نظر بندی کے احکامات جاری کر رہے ہیں‘ ان کے زیر نگرانی ہونے والے انتخابات پر انگلیوں کا اٹھنا ایک یقینی بات ہے۔ گزشتہ روز ہم دیکھ چکے کہ ایک سیاسی جماعت کے ایک سینئر عہدیدا رکو عدالت سے ضمانت ملنے کے باوجود رہا نہیں کیا گیا اور تھری ایم پی او کے تحت نظر بندی کے احکامات جاری کر کے دوبارہ جیل منتقل کر دیا گیا۔ اسی حوالے سے انتظامی افسران کے کسی بھی شہری کو امنِ عامہ کے لیے خطرہ قرار دے کر حوالۂ زندان کرنے کے اختیارات پر بھی قدغن لگائی جانی چاہیے۔
کسی بھی نگران حکومت کی مدتِ میعاد کا تعین کرنا بھی ضروری ہے، اور اگر کسی ناگزیر وجہ پر مدت میں توسیع ضروری ہو تو اس کا طریقۂ کار کیا ہو گا اور کیا یہ توسیع غیر معینہ ہو گی‘ یہ سوالات بھی حل طلب ہیں۔ پنجاب اور کے پی میں نگران حکومتوں کو ایک سال ہو چلا ہے۔ اس سے قبل اتنا طویل مارشل لا ادوار میں بننے والی عبوری حکومتوں کا دورانیہ ہی دیکھا گیا تھا۔ البتہ ان غیر جمہوری حکومتوں کی عدالتوں سے توثیق کی کچھ نہ کچھ تاریخ ضرور ملتی ہے مگر موجودہ نگران حکومتوں نے تو اس تکلف کا اہتمام بھی ضروری نہیں سمجھا۔ اسی طرح نگران وزرا کا الیکشن شیڈول سے عین پہلے انتخابات کے لیے استعفیٰ دے دینا‘ یہ بھی ایک متنازع عمل ہے جو اسی دورِ نایاب میں دیکھنے کو ملا۔ اس حوالے سے بھی قانون سازی ہونی چاہیے کہ کسی بھی نگران حکومت میں حلف اٹھانے والے مشیر‘ وزیر پر فلاں مدت تک ہر قسم کے انتخابی عمل سے دور رہنے کی پابندی ہو گی۔ اسی کے ساتھ یہ بھی یقینی بنانا ہو گا کہ گزشتہ کابینہ میں شامل افراد نگران حکومت کا حصہ نہ بن سکیں۔ نگران حکومتوں کا قیام انتخابات کی شفافیت یقینی بنانے کے لیے عمل میں لایا جاتا ہے‘ اگر نگران حکومتیں ہی متنازع بن جائیں تو انتخابات کی شفافیت کون یقینی بنائے گا؟ سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ کی فراہمی کے لیے ضروری ہے کہ نگران حکومتوں کے اختیارات کو محدود کیا جائے اور نگران ادوار میں دفعہ 144 اور تھری ایم پی او جیسے ہتھیاروں کے استعمال کی راہ مسدود کی جائے۔ اس کے علاوہ نظامِ انصاف اور نظامِ قانون بھی جامع اصلاحات کا متقاضی ہے۔ اس حوالے سے تجاویز پھر کبھی سہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں