دنیا کی کل آبادی کا لگ بھگ 25 فیصد، مجموعی طور پردو ارب افراد، دنیا کے کل رقبے کا21.7 فیصد، دنیا بھر کی معیشت کا8.1 فیصد ،ایک دن میں 32 ملین بیرل تیل کی پیداوار اور مجموعی طور پر5۔7 ٹریلین ڈالر معیشت کا حامل کوئی اور نہیں بلکہ آج کی مسلم ریاستیں ہیں لیکن اس کے با وجود ان کا دنیا میں کوئی مقام اس لیے نہیں ہے کہ بیشتر ممالک نے اپنے گھر کا نظام چلانے کیلئے امریکہ اور مغربی ممالک کو ہائر کیا ہوا ہے۔ کسی نے اپنا آپ بچانے کیلئے ان کی فوجوں کو اپنا نگہبان بنا یا ہوا ہے اور وہ ممالک جن کے پاس ماہرین ہیں اور اپنی فوج بھی‘ وہ اپنی معیشت چلانے اور انڈسٹری کو رواں رکھنے کے لیے غیروں کے محتاج بنے ہوئے ہیں۔ دنیا کی کل معیشت میں7.5 ٹریلین ڈالر کا حصہ رکھنے کے با وجود دو ارب کے قریب مسلمان محتاجی کی زندگی گزار رہے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا اپنا کچھ بھی نہیں ہے۔ ان کی سوچ اپنی نہیں‘ ان کی معیشت اپنی نہیں‘ ان کی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں تک ا پنی نہیں ہیں۔
مسلم دنیا میں ایک طرف تیل کی دولت سے مالامال عرب ممالک ہیں تو دوسری طرف ایک چھوٹا سا ا سرائیل جس کا عرب ممالک سے موازنہ کرتے ہوئے شرم سی محسوس ہوتی ہے لیکن اگر یہ سوال کیا جائے کہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں ایٹمی طاقت کون ہے تو جواب آئے گا، اسرائیل اور صرف اسرائیل! اگرچہ اسی خطے میں واقع ایران سے متعلق بھی ایٹمی قوت ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے مگر ایران اور اسرائیل کی طاقت، عالمی برادری میں ان کی اہمیت، فی کس آمدن اور دونوں ممالک کے جی ڈی پی میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔
آخر کیا وجہ ہے اقوام عالم میں مسلمان اسرائیل اور دوسری مغربی اقوام کے مقابلے میں کمزور ترین ہیں۔ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ تعلیم‘ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں مسلم دنیا باقی دنیا سے بہت پیچھے کھڑی ہے۔ اگرچہ عرب ممالک جدید سے جدید ٹیکنالوجی سے لیس نظر آتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اس میں سے کتنی ایجادات میں ان ممالک نے حصہ ڈالا ہے۔ اس وقت کرہ ارض پر چھائی پوری مسلم دنیا میں کل 600 کے قریب یونیورسٹیاں ہیں جبکہ صرف امریکہ میں اس وقت چار ہزار سے زائد یونیورسٹیاں ہیں‘ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کی اکثریت امریکہ میں ہے۔ ہمارے مشرقی پڑوسی بھارت میں گیارہ سو سے زائد اعلیٰ تعلیمی ادارے موجود ہیں جودنیا بھر کو ورک فورس برآمد کر کے اپنے ملک کا نام روشن کر رہے ہیں‘ اسی طرح مغربی ممالک میں بھارتی لابی بھی مضبوط ہو رہی ہے۔ دوسری جانب حالت یہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں جن سو یونیورسٹیوں کو ٹاپ ترین کا درجہ دیا گیا ہے ان میں پاکستان سمیت کسی مسلم ملک کی کوئی یونیورسٹی شامل نہیں ہے۔ پوری مغربی دنیا میں لٹریسی ریٹ90 فیصد جبکہ مسلم دنیا کا لٹریسی ریٹ40 فیصد کے لگ بھگ ہے۔مسلم ممالک میں سائنسدانوں کا تناسب دس لاکھ افراد میں صرف ایک سائنسدان ہے جبکہ ہر طرح کے وسائل سے مالا مال عرب ممالک میں ہر دس لاکھ افراد میں سے صرف پچاس سائنس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ اس کے بر عکس امریکہ میں یہ تناسب ہر دس لاکھ میں پانچ سو ہے۔ مسلم ممالک ریسرچ اور ڈویلپمنٹ پر اپنے جی ڈی پی کا صرف0.2 فیصد خرچ کرتے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں اسرائیل5 فیصد خرچ کرتا ہے۔
اس وقت عالم یہ ہے کہ کرۂ ارض پر پھیلے ہوئے پچاس سے زائد مسلم ممالک اپنی مرضی سے کسی دوسرے ملک سے آزادنہ تعلقات قائم نہیں کر سکتے، او آئی سی کے پلیٹ فارم سے وہ کوئی ایسا ایجنڈا تک منظور نہیں کر سکتے جس سے امریکہ اور مغربی ممالک کی ناراضی کا خدشہ ہو۔چند ماہ قبل فلسطین کے ایشو پر بلائے گئے او آئی سی اجلاس کا احوال جان کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ اگر یہی اس تنظیم کی حالت ہو چکی ہے تو پھر ایسی کسی تنظیم کا کیا فائدہ ؟ 1980ء سے دنیا کی سب سے زیادہ تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت قطر کی ہے جو بائیس فیصد زیادہ بڑھ چکی ہے۔ سعودی عرب کی برآمدات367 بلین ڈالر، ملائیشیا کی برآمدات264 بلین ڈالر، انڈونیشیا کی185 بلین ڈالر اور ترکیہ کی برآمدات 185 بلین ڈالر سالانہ سے زیا دہ ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ سب دولت کسی کام کی نہیں۔ مسلم ممالک میں تیونس وہ واحد ملک ہے جو اپنے جی ڈی پی کا ایک فیصد یا زائد سائنس اور ٹیکنالوجی پر خرچ کرتا ہے جبکہ دنیا کے پچیس مسلم ممالک اپنے جی ڈی پی کا بمشکل پانچ فیصد اپنے عوام کی صحت پر خرچ کر پاتے ہیں۔
کیا مسلمان شروع سے ہی ایسے تھے؟ یہ وہ سوال ہے جو آج کی نسل اور کل کو آنے والی نسلوں کے ذہنوں میں ضرور ابھرے گا کیونکہ نوجوان جو بھی کتاب یا میگزین پڑھتے ہیں انہیں یہی بتایا جاتا ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے ہوائی جہاز کی طرح فضا میں اڑنے والی ابتدائی مشین ''راجر بیکن‘‘ نے تیرہویں صدی عیسوی میں ایجاد کی تھی اور اس کے بعد اس سے ملتی جلتی مشین لیونارڈو ڈاونچی نے تیار کی تھی لیکن یہ کوئی بھی کھل کر بتانے کی ہمت اور جرأت نہیں کرے گا کہ جناب! آپ غلط کہہ رہے ہیں، دنیا میں سب سے پہلے ہوا میں اڑنے والی مشین کا تصور مسلم سپین کے ''عباس ابن فرناس‘‘ نے دیا تھا، جس نے نوویں صدی عیسوی میں جہاز نما مشین بنا کر اڑائی تھی۔ راجر بیکن نے ابن فرناس کے پانچ سو سال اور لیونارڈو ڈاونچی نے قریب آٹھ سو سال بعد ہوائی جہاز اڑانے کا ابتدائی تصور پیش کیا تھا۔ ہمیں ہمیشہ یہی پڑھایا اور بتایا جاتا ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے شیشہ وینس میں 1291ء میں ایجاد ہوا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شیشہ وینس سے بھی دو سو سال پہلے مسلم سپین میں گیارہویں صدی میں ایجاد ہوا اور گیارہویں اور بارہویں صدی میں سب سے عمدہ اور شفاف شیشہ شام میں تیار کیا گیا۔ شیشے پر میناکاری، سونے چاندی کی کندہ کاری، قیمتی پتھر کا جڑاؤ‘ الغرض شیشے کا ہر طرح کا بنائو سنگھار مسلم دنیا کے فنکاروں کا کارنامہ تھا جنہوں نے اپنے فن سے دنیا کو انگشت بدنداں کر دیا۔
کھربوں ڈالر کی تجارت کرنے والے مسلم ممالک آج ایک ایک پرزے کیلئے امریکہ‘ یورپ چین‘ جاپان اور روس کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے ان اسلاف کے کارنامے بھول جاتے ہیں جن سے آج بھی ایک دنیا مستفید ہو رہی ہے۔ آج مسلم ممالک کے حکمران کروڑوں روپے کی غیر ملکی گھڑیاں پہن کر فخر محسوس کرتے ہیں اور انہوں نے اپنی قوم کے ذہنوں میں یہی بٹھایا ہوا ہے کہ گھڑی کی ایجاد 1335ء میں ہوئی تھی اور پہلی گھڑی اٹلی کے شہر میلان میں نصب کی گئی لیکن اس کا سہرا بھی مسلم سپین کے ابن فرناس کے سر ہے اور سپین سے ہی اس کی وہ کتاب‘ جس میں اس نے گھڑی ایجاد کرنے کا طریقہ لکھا تھا‘ یورپ لے جائی گئی اور اس کا لاطینی زبان میں ترجمہ کرتے ہوئے اس سے استفادہ کیا گیا جسے یورپی مورخ ''ول ڈیورنٹ‘‘ بھی تسلیم کرتا ہے۔
آج جب مسلم ممالک کے پاس سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ان کی زبوں حالی کی طرف دیکھتے ہیں تو دل مسوس کر رہ جاتے ہیں۔ جب سپین کے مسلمانوں کی شاندار خدمات اور ایجادات کو دیکھتے ہیں تو اس وقت علامہ اقبالؒ کی قرطبہ کی مسجد میں بیٹھ کر کی جانے والی نوحہ گری روح میں اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہے کہ ہم کیا تھے اور آج کیا ہو گئے ہیں۔ ہماری درسی کتابوں سے اندلس اور قرطبہ کی وہ تاریخ آہستہ آہستہ حذف کی جا رہی ہے جس میں ہمارے لیے بے پناہ سبق چھپا ہوا ہے اور جس میں ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ سب کچھ پڑھانے کی بجائے ہمیں یہی پڑھایا جا رہا ہے کہ دیکھو یہ کتاب جو تم پڑھ رہے اس کتاب کو چھاپنے کیلئے چھاپہ خانہ تک جرمنی میں ایجاد ہوا لیکن جرمنی سے سو سال قبل مسلم سپین میں کتب کی چھپائی کیلئے جو چھاپہ خانہ باقاعدگی سے کام کر رہا تھا‘ اس کا ذکر کیوں نہیں کیا جاتا؟ ہمیں پڑھایا جاتا ہے کہ الجبرا فرانس کے ریاضی دان فرانکوس ویٹا نے1591ء میں ایجاد کیا جبکہ سچ یہ ہے کہ مسلم ریاضی دانوں نے نوویں صدی عیسوی میں الجبرا متعارف کرایا تھا۔ مسلمانوں کی طب، سائنس، کیمیا، ریاضی، طبیعیات اور ادب کیلئے انجام دی گئی گراں قدر ایجادات کیلئے ایک طویل مضمون یا کتاب کی ضرورت ہے اور یہ صفحات مجھے اجازت نہیں دے رہے کہ مسلمانوں کی ہر میدان میں کی جانے والی تخلیقات کی طویل فہرست ایک ایک کر کے آپ کے سامنے رکھ سکوں۔