"MABC" (space) message & send to 7575

انتخابات اور مجلسِ شوریٰ

26 ستمبر 2011ء کو تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل جناب عارف علوی‘ جو اس وقت صدرِ مملکت کے عہدے پر فائز ہیں‘ کی جانب سے جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ اس نوٹیفکیشن میں ڈاکٹر عارف علوی اکبر ایس بابر کی پارٹی رکنیت ختم کرنے کا اعلان کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ وہی اکبر ایس بابر ہیں جن کی درخواست کو شرفِ قبولیت بخشتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے دو بار پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیا اور جس کے نتیجے میں عدالتِ عظمیٰ میں الیکشن کمیشن کے تحریک انصاف سے اس کا انتخابی نشان واپس لینے کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا۔ اگرچہ یہ نوٹیفکیشن ہر عدالت میں پیش کیا گیا لیکن نجانے و ہ کون سی وجوہات یا قانونی موشگافیاں تھیں کہ اسے قبول ہی نہ کیا گیا بلکہ یہاں تک بھی ہوا کہ یہ نوٹیفکیشن دکھانے ا ور پیش کرنے کے با وجود اسلام آباد ہائیکورٹ نے اکبر ایس بابر کے تحریک انصاف کا رکن ہونے کا فیصلہ سنا دیا۔ اس فیصلے پر نامور قانون دان ہی روشنی ڈال سکتے ہیں کہ کیا کسی سیاسی جماعت کو کسی سابق رکن کو دوبارہ رکن بنانے کا حکم دیا جا سکتا ہے؟ بہرکیف‘ 13 جنوری کو رات گئے سپریم کورٹ کی جانب سے جو فیصلہ سنایا گیا اس پر ہر دو اطراف سے رائے زنی کی جا رہی ہے۔ ایک موقف تو یہ ہے کہ عدالت میں تحریک انصاف کے وکلا کا موقف زیادہ جاندار نہیں تھا جس کے بعد یہ فیصلہ متوقع تھا۔ ایک موقف یہ ہے کہ عدالت کو اس کیس کو الیکشن کے انعقاد تک ملتوی کر دینا چاہیے تھا تاکہ لیول پلینگ فیلڈ سے متعلق خدشات کو رد کیا جا سکتا۔ قانون دانوں کا ایک طبقہ اس فیصلے کو آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 17کے تحت دیکھ رہا ہے۔ ''انجمن سازی کی آزادی‘‘ کے تحت آئین کا آرٹیکل 17کہتا ہے:
پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ یا سالمیت امنِ عامہ یا اخلاق کے مفاد میں قانون کے ذریعے عائد کردہ معقول پابندیوں کے تابع ہر شہری کو انجمنیں اور یونینیں بنانے کا حق حاصل ہو گا‘‘۔ اس طبقے کا خیال ہے کہ آئین کے آرٹیکل پر الیکشن ایکٹ کو فوقت نہیں دی جا سکتی۔ اسی طرح الیکشن کمیشن نے کس قانون کے تحت پارٹی سے انتخابی نشان واپس لیا ہے‘ یہ تک واضح نہیں ہے جبکہ کون سا قانون الیکشن کمیشن کو کسی پارٹی کے انٹراپارٹی الیکشن کی جانچ پڑتال کا حکم دیتا ہے‘ اس کی بھی کوئی صراحت آئین یا الیکشن ایکٹ میں نہیں کی گئی۔ الیکشن رولز کے مطابق اگر کوئی پارٹی پانچ سال تک انٹرنل الیکشن نہ کرائے تو اسے دو لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر‘ جو الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کو انٹرنل الیکشن نہ کرانے پر جرمانے عائد کر رہا ہے‘ اسی الیکشن کمیشن کی یہ آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی اسمبلی کی میعاد مکمل ہونے یا اسمبلی ٹوٹنے پر ساٹھ سے نوے دن کے اندر الیکشن کا انعقاد کرائے۔ پنجاب میں اسمبلی کو ٹوٹے 368 دن اور کے پی میں 364دن ہو چکے ہیں مگر ابھی تک ان صوبوں میں الیکشن نہیں ہو سکا۔ حد تو یہ ہے کہ وفاق اور باقی دو صوبوں میں بھی نوے دن کی آئینی میعاد سے 70 دن زیادہ ہو چکے ہیں مگر ابھی تک الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں بنایا جا سکا۔ حالانکہ اس حوالے سے آئین میں تمام تر ذمہ داری الیکشن کمیشن کو سونپی گئی ہے اور باقی تمام اداروں کو الیکشن کمیشن کی معاونت کا پابند بنایا گیا ہے۔
آئینی و قانونی مباحث ایک طرف‘ قومی اسمبلی میں سابق اپوزیشن لیڈر راجا ریاض اور استحکام پاکستان پارٹی کے رہنما ہاشم ڈوگر سمیت متعدد افراد گزشتہ کئی مہینوں سے اس بات کا سرعام اعلان کر رہے تھے کہ انتخابات میں بیلٹ پیپر پر پی ٹی آئی کا انتخابی نشان نہیں ہو گا اور راقم کو بھی اس کا سو فیصد یقین تھا اور کئی بار اپنے کالموں میں ان خدشات کا اظہار بھی کیا لیکن کوئی یہ بات ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ بھلا ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ دور کی کوڑی کہہ لیجیے یا پیش گوئی‘ جب دس اپریل 2022ء کو پی ٹی آئی کی حکومت ختم کی گئی تھی تو اس وقت کے حالات و واقعات دیکھ کر اسی وقت اپنے کالموں میں اس بات کا اظہار کیا تھا اور زمان پارک کی دو چار پریس بریفنگز کے دوران بھی بتا دیا تھا کہ نہ تو آئندہ الیکشن میں کمپین کرنے کی اجازت میسر ہو گی اور نہ ہی بطور پارٹی ایک انتخابی نشان کے ساتھ انتخابی میدان میں اتر سکیں گے۔ اس بات کی گواہی اس وقت کے پی ٹی آئی کے مرکزی لیڈران بھی دے سکتے ہیں گو کہ ان میں سے اکثر تو پریس کانفرنس کر کے اپنی راہیں الگ کر چکے ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک محفل میں الیکشن کے حوالے سے باتیں ہو رہی تھیں تو اچانک کسی نے خبر سنائی کہ ضلع گجرات میں ایک امیدوار کی جانب سے الزام لگایا گیا ہے کہ جب وہ اپنا پارٹی ٹکٹ آر او کو جمع کرانے پہنچا تو پتا چلا کہ اس کے کاغذاتِ نامزدگی واپس لیے جا چکے ہیں اور کسی نے جعلی دستخط سے اس کی جانب سے درخواست لکھی۔ یہ واقعہ سن کر 1977ء کے انتخابات کا وہ واقعہ پیش آ گیا جو کچھ عرصہ قبل بھی ایک کالم میں بیان کیا تھا کہ مولانا سمیع الحق کے والد مولانا عبدالحق اکوڑوی جب اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کے لیے متعلقہ ریٹرننگ آفیسر کے پاس گئے‘ جو ضلع کا ڈپٹی کمشنر تھا‘ تو اس نے ان سے سادہ کاغذ پر دستخط لے لیے تھے۔ بعد ازاں اسی کاغذ پر کاغذاتِ نامزدگی واپس لینے کی درخواست لکھ کر انہیں الیکشن کی دوڑ سے باہر کر دیا گیا۔اس وقت اس واقعے پر شدید ردعمل آیا اور بعد ازاں ہائیکورٹ سے مولانا کو الیکشن لڑنے کی اجازت مل گئی۔ دراصل اس وقت بھٹو صاحب کی دیکھا دیکھی کئی وزرا اور چیف منسٹرز کو بھی بلامقابلہ منتخب ہونے کا شوق چرا رہا تھا اسی وجہ سے بیشتر افراد کے کاغذاتِ نامزدگی یا تو مسترد کر دیے گئے یا امیدوار ہی غائب ہو گئے جن میں بھٹو کے خلاف الیکشن لڑنے والے جان محمد عباسی کا نام سرفہرست ہے۔ اس واقعے کو سن کر گوگا دانشور کہنے لگے: دراصل اُس الیکشن اور موجود الیکشن میں ایک قدر مشترک ہے‘ شاید اسی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا۔ جب حیران ہو کر ان سے قدرِ مشترک دریافت کی تو کہنے لگے کہ 77ء کے بعد موجودہ الیکشن بیورو کریسی کے ذریعے کرائے جا رہے ہیں اس وجہ سے ان دونوں الیکشن میں ایک جیسے حربے کارفرما نظر آ رہے ہیں۔
جب انتخابی ماحول اور سیاسی دھند کی بات چلی تو گوگا دانشور کہنے لگے کہ وہ جو کہتے ہیں کہ ہماری بات ہو گئی ہے‘ دراصل بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں۔ سب نے پوچھا: کیا غلطی؟ کہنے لگے کہ لگتا ہے کہ ان کے مشیر زیادہ علم نہیں رکھتے اور نہ ہی دور اندیش ہیں، وگرنہ ان کے سامنے ضیاء الحق کی مثال موجود تھی۔ آرام سے اس فائل کو اچھی طرح سے جھاڑ پونچھ کر نکالتے اور اس قدر سیاپے میں پڑنے کے بجائے سیدھی طرح ''مجلس شوریٰ‘‘ بنا کر جمہوریت اور معیشت کو مضبوط کرتے۔ اس سے غیر معینہ مدت تک حکومت میں رہنے کی رکاوٹ بھی دور ہو جاتی اور پھر جب ''مثبت نتائج‘‘ کا یقین ہو جاتا تب الیکشن کرا دیتے۔ گوگا دانشور کہنے لگے: اب بھی ہمارا مشورہ یہی ہے کہ انتخابات کا جھنجھٹ چھوڑیں اور مجلس شوریٰ بنا دیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں