قوم کے ہر دلعزیز رہنما میاں نواز شریف‘ جو گزشتہ دس‘ پندرہ برس میں ہونے والے سبھی الیکشنز سے قبل اپنے انتخابی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے میڈیکل کالج اور یونیورسٹی بنانے کا وعدہ کر تے آئے ہیں‘ اب انہوں نے مانسہرہ اور بورے والا میں انتخابی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے مذکورہ اضلاع میں ایئر پورٹ بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ لگتا ہے کہ ریلوے سٹیشنز کی طرح اب ہر ضلع میں وہ ایک ایئر پورٹ بھی بنائیں گے۔ سوشل میڈیا پر کسی نے ان کے اعلان پر سوال اٹھایا کہ حضور والا! پی آئی اے کے جہاز تو ایندھن نہ ہونے کی وجہ سے ایئر پورٹس پر کھڑے ہیں‘ پچھلے دنوں جو ہزاروں فلائٹس منسوخ ہوئیں وہ صورتحال بھی سب کے سامنے ہے‘ ایسے میں ہر ضلع میں موجود ایئر پورٹ کا کیا کیا جائے گا؟ ویسے یہ سوال بھی اہم ہے کہ بورے والا اور مانسہرہ جیسے اضلاع سے لوکل فلائٹس چلیں گی یا انٹرنیشنل؟ اور کیا ان علاقوں میں اتنے فضائی مسافر موجود ہیں کہ انہیں ایئرپورٹ کی ضرورت ہو؟ کچھ منچلے یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ نواز شریف صاحب جن ایئرپورٹس اور نئی ٹرینوں کا اعلان اپنے جلسوں میں کر رہے ہیں‘ ان کا پارٹی کے منشور میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ جناب! غریب ووٹرز سے اس طرح کے وعدے نہ کریں جو کل کو پورے نہ ہو سکیں۔ گزشتہ روز ہی میاں نواز شریف نے انتخابی مہم کے سلسلے میں ایک جلسے میں عوام کو مخاطب کر کے پوچھا: بتائو میرے دور میں مہنگائی تھی؟ معلوم نہیں کہ ان کا کون سا دور تھا‘ جس کی وہ بات کر رہے ہیں۔ یہ تو کل ہی کی بات ہے جب ان کے برادرِ خورد اور سمدھی کی حکومت تھی‘ جو کلی طور پر ان کے مشوروں پر چل رہی تھی۔ ایک‘ دو بار تو کابینہ کا اجلاس بھی لندن میں طلب کیا گیا جس پر خاصی لے دے ہوئی‘ مگر اس دورِ حکومت میں جو کچھ عوام کے ساتھ ہوا‘ عوام ابھی تک اس کے اثرات بھگت رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال گیس کے بل ہیں‘ جنہوں نے ہر ایک کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
دو سال قبل تک سردیوں میں بھی اٹھارہ گھنٹے تک گیس میسر ہوتی تھی جبکہ ایک عام گھریلو صارف کو چند سو روپے تک بل آیا کرتا تھا۔ آج عالم یہ ہو چکا ہے کہ محض چھ گھنٹے آنے والی گیس پر بھی عوام دس‘ پندرہ ہزارروپے بل ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ صرف چولھے میں استعمال ہونے والی گیس کے چارجز ہیں، اگر گیزر یا ہیٹر (جو اب صرف قصے‘ کہانیوں تک ہی محدود ہو چکا ہے) بھی چلایا جائے تو بل لاکھوں میں پہنچ جاتا ہے۔ گزشتہ جمعہ کو مسجد سے نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے بعد لوگوں کو دو‘ دو، چار‘ چار کی ٹولیوں میں کھڑے دیکھا تو حیرت ہوئی، پھر سوچا کہ چونکہ دفعہ 144 کی وجہ سے پانچ سے زیادہ افراد کا ایک جگہ جمع ہونا منع ہے‘ شاید اس لیے یہ دو‘ چار کی ٹولیاں بنا کر ایک دوسرے کی خیریت دریافت کر رہے ہیں مگر جیسے ہی ایک ٹولی کے پاس سے گزر ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ افراد گیس کے بلوں بارے باتیں کر رہے ہیں۔ یہ ٹولی چونکہ تین افراد پر مشتمل تھی‘ اس لیے قانون کا احترام کرتے ہوئے میں بھی ان کے ساتھ شامل ہو گیا۔ سلام دعا کے بعد پوچھنے لگے کہ آپ کا اس ماہ گیس کا بل کتنا آیا ہے؟ ان کو بتایا کہ پچیس ہزار سے کوئی دو سو روپے کم ہے‘ جس پر ایک صاحب تقریباً روہانسے ہو کر بولے کہ انہیں تو چالیس ہزار روپے بل آیا ہے! اتنا زیادہ گیس کا بل کہ اس سردی میں بھی ان کے پسینے چھوٹ گئے۔ پچھلے سال تک گیس کا بل سردیوں میں تین سے پانچ ہزار روپے ہوا کرتا تھا جو اب تیس سے چالیس ہزار روپے ماہانہ آنے لگا ہے۔
الیکشن کے اس گرما گرم ماحول میں گیس کے یہ بل اور چند ماہ قبل آنے والے گرمیوں کے بجلی کے بلوں سے سفید پوش ابھی تک گھبرا رہے ہیں، متعدد افراد کو تین‘ چار ماہ بعد کی پریشانی ابھی سے لاحق ہو چکی ہے جب پنکھے وغیرہ چلنا شروع ہوں گے۔ وہ یہ کہتے ہوئے دوسروں کو بھی ڈرانا شروع ہو گئے ہیں کہ صرف گزشتہ ایک مہینے میں بجلی کے فی یونٹ میں گیارہ روپے تک کا اضافہ کر دیا گیا ہے، جب اپریل‘ مئی سے اکتوبر تک مسلسل بجلی بم گرایا جائے گا تو عوام کیسے جی سکیں گے؟ کیا کریں گے؟ اب تو بچے بھی یہ کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ ٹھیک ہے کہ انتہائی شدید سردی؍ گرمی پڑ رہی ہے لیکن گھر اور اس کے وسائل کو دیکھتے ہوئے یہی مناسب ہو گا کہ ہیٹر؍ اے سی نہ ہی چلایا جائے کیونکہ اگر شدت کی گرمی اور سردی سے بچنے کیلئے اے سی اور ہیٹر چلایا گیا تو پھر گھر کا کچن ڈسٹرب ہو جائے گا اور ان کی سکول‘ کالج کی فیسیں بھی ادا نہیں کی جا سکیں گی۔ ہر گھرانے میں اب سب کو مل بیٹھ کر یہ فیصلہ کرنا ہو گاکہ دو وقت کی عزت کی روٹی کھا کر بچوں کو اچھی تعلیم دلانی ہے یا ہر ماہ پچاس‘ ساٹھ ہزار روپے گیس اور بجلی کے یوٹیلیٹی بلوں کی صورت میں ادا کرنے ہیں۔
میں شہر کے جس علاقے میں رہتا ہوں‘ یہاں ایک پوش گھرانے کی اوسط آمدن ماہانہ ایک سے دو لاکھ کے درمیان ہے لیکن یہ تعداد پورے ملک میں ایک‘ ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ نہیں ہے۔ کروڑوںگھرانے وہ ہیں جن کی آمدن ایک لاکھ ماہانہ سے کم ہے۔ وہ لوگ جنہیں علم ہی نہیں کہ پیسہ کہاں سے آتا ہے اور اس کی کوئی حد بھی نہیں ہے‘ یعنی جو غیبی امداد پر چل رہے ہیں‘ نہ تو یہ کالم ان کے لیے لکھا گیا ہے اور نہ ہی ان کے پاس اس قسم کی چیزوں بارے سوچنے کا وقت ہوتا ہے۔ جب مسجد کے باہر مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے پندرہ بیس افراد کو گیس کے بلوں کی وجہ سے پریشان دیکھا تو فوراً دھیان ان کے گھروں میں کام کرنے والی ماسیوں‘ مالیوں‘ چوکیداروں‘ مزدوروں اور عام فیکٹری ورکرز سمیت ہاری‘ مزارع اور نچلے درجے کے ان ملازمین کی جانب چلا گیا جنہیں کہیں سے بھی غیبی امداد ملنے کی امید نہیں ہوتی‘ ان کی زندگیاں کیسے گزرتی ہیں‘ گرمی سردی کے بلوں کی بات چھوڑیں‘ دو وقت کی روکھی سوکھی کھانے کیلئے ان پر جو بیت رہی اور جو ہمیشہ سے بیتتی آئی ہے‘ اس کا بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔
آج بازار میں پیاز تین سو روپے‘ ٹماٹر ڈیڑھ سو سے دو سو روپے فی کلو میں فروخت ہو رہا ہے۔ کھیرا بھی دو سو روپے فی کلو ہو چکا ہے، شاید ہی کوئی سبزی ہو جو ڈیڑھ سو روپے سے کم میں دستیاب ہو بلکہ کچھ سبزیاں تو تین سو سے چار سو روپے فی کلو میں مل رہی ہیں۔ اسی طرح دالیں ہیں جو اب عام آدمی تو کجا‘ اچھے بھلے خاندان کی بھی دسترس میں نہیں رہیں۔ تین‘ چار سال قبل جب انڈا بیس روپے کا ہوا تھا تو ہر طرف طوفان برپا ہو گیا تھا کہ انڈوں کو تبدیلی حکومت نے آگ لگا دی ہے‘ یہ کیسا نیا پاکستان بنایا ہے کہ غریب آدمی ایک انڈا بھی نہیں کھا سکتا، آج وہی انڈا پچاس سے ساٹھ روپے میں بک رہا ہے لیکن مجال ہے کہ کسی نے اس ظلم اور تباہی کی بات کی ہو۔ آج مسلم لیگی رہنما کہہ رہے ہیں کہ سولہ ماہی حکومت ہماری نہیں تھی‘ سوال یہ ہے کہ جس کی تشکیل میاں نواز شریف کی رضامندی اور حکم سے ہوئی ہو‘ مسلم لیگی صدر شہباز شریف جس کے سربراہ ہوں‘ اسحاق ڈار جس کے وزیر خزانہ ہوں‘ جس حکومت میں رانا ثناء اللہ وزیر داخلہ‘ سعد رفیق وزیر ریلوے‘ خواجہ آصف وزیر دفاع‘ احسن اقبال وزیر منصوبہ بندی اور مریم اورنگزیب وزیر اطلاعات ہوں‘ اس کی ذمہ داری سے آپ خود کو مبرا کیسے قرار دے سکتے ہیں؟ عوام کا حافظہ اتنا بھی کمزور نہیں کہ انہیں یاد ہی نہ رہے کہ کون عوام کو خوشخبریاں دیتے ہوئے بتاتا تھا کہ ''شیر جب آوے گا‘ لگ پتا جاوے گا‘‘۔ وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ جب حکومت سنبھالی تھی تو ڈالر کا ریٹ 178 روپے تھا‘ فارن ریزرو میں 16 ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ موجود تھا، شرحِ نمو 6 فیصد جبکہ مہنگائی کی شرح 13.4 فیصد تھی مگر جب اس سولہ ماہی حکومت کا خاتمہ ہوا تو یوں لگتا تھا کہ بستی سے کسی سیلابی ریلے کا گزر ہوا ہے۔ ڈالر تین سو روپے‘ زرمبادلہ کے ذخائر تین سے چار ارب ڈالر‘ شرحِ نمو صفر جبکہ مہنگائی کی شرح 30 فیصد۔ سولہ ماہی حکومت سے فوائد تو خوب بٹور لیے‘ اب نظریں نہ پھیریں‘ اپنے دورِ اقتدار کا نتیجہ بھی بھگتیں۔