کمرے میں کھڑاہاتھی

انگریزی کا ایک محاورہ ہےElephant in the room ۔ مطلب یہ ہے کہ کیا ہماری بینائی اور سوجھ بوجھ اتنی کمزور‘ خستہ حال اور زنگ آلود ہے کہ ہم جس کمرے میں بیٹھے ہیں‘ وہاں موجود چھوٹی سے چھوٹی چیز سے تو واقف ہیں مگر کمال یہ ہے کہ ہمیں کمرے میں کھڑا ہاتھی نظر نہیں آتا۔ بقول شفیق الرحمن اگر نظر اتنی کمزور ہو تو اسے ہر گز بینائی نہیں کہا جا سکتا۔ یہ ہیں وہ الفاظ جو شفیق الرحمن کے دل پسند کردار کے آنکھوں کے معائنے کے بعد ماہرِ امراض چشم نے اپنی رپورٹ میں لکھے تھے۔ اب اگر آپ تجاہلِ عارفانہ سے کام لینے کا افسوس ناک فیصلہ کر لیں تو یہ مرض لاعلاج ہے۔ اگر آپ کی نظر بہت زیادہ کمزور نہیں یا آپ کی قوتِ مشاہدہ دیمک زدہ نہیں تو آپ کو بہ آسانی کمرے میں کھڑا ہاتھی نظر آ جانا چاہیے۔ اگر گزری ہوئی نصف صدی میں آپ کو یہ نظر نہیں آیا تو لمحۂ فکریہ ہے۔ یہ ہاتھی آسمان سے بذریعہ پیرا شوٹ تو نہیں اُتارا گیا کہ وہ چشمِ زدن میں آپ کے کمرے میں آ دھمکا۔ ہماری قومی زندگی کے پہلی ربع صدی میں اس ہاتھی کا کوئی وجود نہ تھا۔ یہ قریباً نصف صدی قبل پیدا ہوا۔ بچپن میں قد کاٹھ میں اتنا چھوٹا تھا کہ اس کا نظر نہ آنا قابلِ معافی ہے مگر وہ دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتے کرتے بہت جلد جوان ہو گیا اور ہماری تجارت‘ زراعت‘ صنعت غرضیکہ ہر شعبہ پر حاوی ہوتا گیا۔ اس ہاتھی کا نام ہے مافیا۔ جو اربوں کھربوں روپوں کو نہ صرف چوری کرنے بلکہ اس مال کو برطانیہ‘ دبئی‘ مالٹا‘ پانامہ اور ورجن آئی لینڈتک غیرقانونی طور پر پہنچانے (جسے منی لانڈرنگ کہتے ہیں) کے فن میں مہارت رکھتا ہے۔ مافیاز اربوں کھربوں روپے کس طرح چراتے ہیں؟ اس کا جواب بڑا سیدھا سادہ ہے۔ واجب الادا ٹیکس نہ دے کر۔ ذخیرہ اندوزی کر کے۔ حکومت سے بلا جوازمالی اعانت (سبسڈی)لے کر۔ بڑے کاروباروں میں جعلی انوائسنگ کر کے۔ بجلی کے کنڈے لگا کر۔ جعلی مال(بالخصوص ادویات) بنا کر۔ کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی اجرتوں میں ڈنڈی مار کر۔ حکومت سے اپنے مطلب کی سرکاری پالیسی منظور کرا کے۔ ڈالروں سے لے کر گندم تک کی بڑے پیمانہ پر سمگلنگ کر کے۔ متعلقہ افسران کی ملی بھگت سے اربوں روپوں کے محصولات ادا نہ کر کے۔ سرکاری زمین کوڑیوں کے دام خرید کر اسے اربوں روپے میں فروخت کر کے۔ بڑے سرکاری افسروں اور سیاست دانوں کو اپنا شراکت دار بنا کر۔ بجلی اور گیس کے ان منصوبوں کو (جو صریحاً عوامی مفاد کے خلاف ہوں) حکومتِ وقت (چاہے وہ کسی بھی پارٹی کی ہو) سے منظوری دلوا کر۔ پاکستان کو برطانیہ اور امریکہ کے سامراجی بلاک کا حصہ بنا کر۔ وطنِ عزیز کو روس کے ساتھ معاشی تعاون (مثال کے طور پر سٹیل ملز کو منافع بخش بنا کر چلاتے رہنے اور سالانہ اربوں روپے کمانے) سے روک کر۔ پاکستان کو صرف سیاسی اعتبار سے نہیں بلکہ معاشی لحاظ سے بھی مغرب (خصوصاً امریکہ) کا حلقہ بگوش‘ محتاج اور زیر اثر بنا کر۔ (بقول اقبال) سفالِ پاک سے مینا جام پیدا کرنے کی بجائے شیشہ گرانِ فرنگ کے احسان اُٹھانے کی مہلک روش پر چلا کر۔ حکمِ اذاں سننے والوں کا گلہ گھونٹ دینے والوں کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کر کے۔ یورپ کی ناقص ترین خوراک اور مضر صحت مشروبات کو پاکستان میں پذیرائی اور مقبولیت دلوا کر۔ متاعِ غرور کا سودا کرکے ہمیں عالمی سطح کا گدا گر بنا کر۔ ہمارے کشکولِ گدائی کو توڑنے کا جعلی اور گمراہ کن نعرہ لگانے کے بعد اسے کئی گنا بڑا کر کے۔ اپنے مفادات کی خاطر ملک دشمن فیصلوں پر منظوری کی مہریں لگوا کر۔
مافیاز کی وارداتوں کے تو اور بھی بہت سے طریقے ہیں مگر کالم کی جگہ کی کمی کی وجہ سے انہی مثالوں پر اکتفا کرنا مناسب ہوگا۔ یہ آپ کو بخوبی پتہ چل گیا ہوگا کہ اگر آج 24 کروڑ افراد کی قوم اتنے بڑے بحران‘ اتنے خوفناک گرداب اور اتنی زیادہ مصیبتوں کے بھنور میں اتنی بری طرح پھنسی ہوئی ہے تو ایک لحاظ سے ہم سب ذمہ دار ہیں۔ مگر ہزاروں گنا زیادہ ذمہ دار کون ہیں؟ سیاست دان (سارے کے سارے)۔ خود ساختہ مبلغین۔ صحافی (میں یہاں یہ ہر گز نہیں لکھ سکتا کہ سارے کے سارے)۔ افسر شاہی (قریباً ساری کی ساری)۔ عدلیہ کی طرف دیکھیں تو ہمیں مولوی تمیز الدین کی رِٹ پٹیشن منظور کرنے والے جسٹس کانسٹنٹائن‘ جسٹس کارنیلس‘ جسٹس ایم آر کیانی‘ جسٹس وجیہ الدین احمد‘ جسٹس بھگوان داس‘ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم‘ جسٹس مقبول باقر‘ جسٹس سلیم الزمان صدیقی اور ایک دوسرے صدیقی صاحب بھی (جو بدنیتی پر مبنی ایک ریفرنس کے بعد برخاست کیے گئے) اندھیرے آسمان پر روشن ستاروں کی طرح جگمگاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
مافیاز کے ملک دشمن اور عوام دشمن اقدامات کی فہرست اتنی لمبی ہے کہ شاید ایک پوری کتاب بھی ناکافی ثابت ہو مگر ہم اپنے گونا گوں مصائب اور دکھوں کی فہرست مرتب کرتے وقت جب مجرموں کو شناخت پریڈ میں کھڑا کرتے ہیں تو اس میں مافیا سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی کردار اور سماج دشمن شخص نظر نہیں آتا۔ کسی بھی سیاسی جماعت نے اپنے منشور میں یہ کبھی نہیں لکھا کہ وہ ٹکٹ دیتے وقت (خصوصاً سینیٹ کے) ایسے کسی فرد کو اپنا امیدوار نہیں بنائے گی۔ کسی بھی پلیٹ فارم پر ان کرداروں کی نہ نشاندہی کی جاتی ہے اور نہ انہیں بے نقاب کیا جاتا ہے۔ آپ جمہوریت اور معیشت کے سو میثاق بنا لیں‘ اگر آپ نے مافیاز کے وجودکو اور ان کے عوام دشمن کردار کو تسلیم کر لیا یا ان کے ساتھ سمجھوتا کر لیا تو ہم کبھی بھی اندھیرے سے نکل کر روشنی کی طرف ایک قدم بھی نہ اٹھا سکیں گے۔ سول سوسائٹی کے تمام شعبوں‘ کسانوں‘ مزدوروں‘ اساتذہ‘ وکلا‘ صحافیوں‘ سیاست دانوں‘ غرض ہر ایک کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر متحدہ محاذ بنانا پڑے گا تاکہ وہ اپنی شہ رگ کو مافیاز کے خونخوار پنجوں سے چھڑا سکیں۔ اگر ہم سب مل جائیں تو اُمیدکی جا سکتی ہے کہ ہم ہتھکڑیوں اور پاؤں کی ان بیڑیوں کو توڑ سکیں جنہوں نے مافیاز کی مجرمانہ کارروائیوں اور کارستانیوں سے گزری ہوئی نصف صدی میں (بقول غالبؔ) ہماری یہ حالت کر دی ہے کہ:
نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے
کیسی ستم ظریفی ہے کہ نگران اور غیر نمائندہ اور چند ماہ کی مہمان اور عارضی حکومت نے بجلی چوروں (سینکڑوں نہیں ہزاروں) کو گرفتار کرنے اور ان سے واجبات چند ہفتوں میں وصول کرنے کا جو قابلِ صد تعریف کارنامہ سرانجام دیا وہ نہ تحریک انصاف ساڑھے تین برسوں میں اور نہ تیرہ جماعتی اتحاد (یعنی پی ڈی ایم) ڈیڑھ سال میں سرانجام دے سکا۔ ان دنوں یہ خبر گرم ہے کہ ایک نئی سیاسی جماعت ہمارے گردو غبار میں اَٹے ہوئے سیاسی اُفق پر طلوع ہونے والی ہے۔ یہ صرف اس صورت میں باعثِ اطمینان ثابت ہو گی کہ وہ کروڑوں عوام کی بھرپور حمایت سے انواعِ و اقسام کے مافیاز کا قلع قمع کرنے کا عزم اپنے منشور میں لکھ کر میدانِ سیاست میں اُترے۔ نئی پارٹی کی پیدائش کا صرف ایک جواز اور ایک بڑا مقصد ہو سکتا ہے کہ وہ ہمیں مافیاز سے نجات دلوائے اور (بقول اقبالؔ) یاد رکھے کہ:
ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریبِ تمام

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں