کشتِ ویراں

سو سال پہلے کالم نگار کے پیر و مرشد علامہ اقبالؔ نے اپنے اردگرد دیکھا‘ عالم اسلام بالخصوص ہندوستان کے مسلمانوں پر نظر دوڑائی۔ مشرقِ و مغرب میں کروڑوں مسلمانوں کی حالتِ زار کا جائزہ لیا۔ سلطنت عثمانیہ‘ جو کئی صدیوں تک ایشیا اور یورپ پر مطلق العنان حکمرانی کے بعد دم توڑ چکی تھی‘ کا خاتمہ ہوا تو ہندوستان میں فرسودہ، گلے سڑے، عوام دُشمن اور سامراجی نظام حکومت کے اسیروں اور اس نظام کی وفات پر غم زدہ اور ماتم کناں مسلمانوں کا دل بڑھانے اور حوصلہ بلند کرنے کے لیے لکھا:
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
اقبال نے کمال کی جو طویل نظمیں لکھیں اُن میں ''طلوعِ اسلام‘‘ مسجدِ قرطبہ میں لکھی گئی نظم کے بعد یقینا دُوسری عظیم الشان‘ فکر انگیز اور چودہ طبق روشن کر دینے والی شاہکار نظم ہے۔اس نظم میں نو‘ نو اشعار کے آٹھ گلدستے ہیں، یعنی کُل 72 اشعار۔ سدا بہار پھولوں کے خوشبودار گل دستے! اگر بدقسمتی سے آپ نے اب تک یہ نظم نہیں پڑھی تو آج ہی بانگِ درا حاصل کریں اور ضرور پڑھیں۔ اگر پہلے پڑھی ہے ‘جس کا زیادہ امکان ہے‘ تو اب دوبارہ پڑھیں اور اپنا ایمان تازہ کریں۔ اقبال نے مذکورہ بالا شعر کے بعد جو اگلا شعر لکھا وہ ہمیں سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کا سبب بتاتا ہے:
جہاں بانی سے ہے دُشوار تر کارِ جہاں بینی
جگرِ خون ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
سلطنتِ عثمانیہ کے حکمرانوں نے جہان بانی کے فن پر عبور پایا۔ اس جہان بانی کا کئی صدیوں تک حق ادا کیا مگر وہ اس سے زیادہ مشکل کام کرنے میں ناکام رہے اور وہ تھا جہان بینی کا۔ نشاۃِ ثانیہ کی بدولت یورپ کا پندرہویں‘ سولہویں صدی میں اندھیرے سے روشنی کا‘ حصول علم کا‘ رموزِ کائنات سمجھنے کا‘ سلطانی ٔ جمہور کا‘ عظمتِ آدم کو قانوناً تسلیم کرنے کا یعنی جہان بینی کا سفر شروع ہو گیا تھا۔ سلطنتِ عثمانیہ‘ جس کی عمارت ترکوں کی جہان بانی پر اُستوار کی گئی تھی‘ کا ایک سو سال پہلے وہی حال تھا جو لمحۂ موجود میں پاکستان کا ہے۔ چار سُو ذہنی انتشار اور سیاسی خلفشار۔ نہ عوام اور نہ قوتِ اُخوتِ عوام۔ عوام دُشمن مافیا کی آہنی اور مہلک و ہلاکت خیز گرفت۔ علم و فضل سے بڑھتی ہوئی دُوری۔ تنگ نظری اور جہالت۔ توہم پرستی اور تعصبات کے بھنور۔ بددیانتی۔ دھوکا دہی اور ہر قسم کے فراڈ کی بھرمار۔ جان و مال اور عزت‘ سب کے سب غیر محفوظ۔ دُوسرے کی آنکھ کا تنکا دیکھنے والی آنکھ‘ جو اپنی آنکھ کاشہتیر نہ دیکھ سکتی۔
ایک بڑی سیاسی جماعت نے اپنی شناخت وہ زبان (اُردو) بنا لی ہے جو (آئین کے مطابق) ہماری قومی زبان ہے۔ فلسطینیوں اور کشمیریوں کی حمایت عربوں سے کئی قدم بڑھ کر مگر شمال میں کروڑوں مسلمانوں کے عقوبت خانوں پر مکمل خاموشی۔ 99 فیصد عوام پر ایک فیصد طبقے کی حکمرانی۔ سیاسی قبضہ۔ معاشی استحصال اور بدترین لوٹ مار جس کی بدولت ایک زرعی ملک میں نہ آٹا‘ نہ چینی اور نہ اشیائے خور و نوش ایک عام آدمی کی قوتِ خریداری کے دائرے کے اندر ہیں۔ رشوت ستانی کا ہر لحظہ گرم ہوتا ہوا بازار۔ بقول قرۃ العین حیدر: کیا ہم ستم زدہ فرد کو مصر کا افسانوی دربار جا کر دکھلائیں تاکہ وہ اپنی حالتِ زار پر صبر و شکر کر کے خاموش ہو جائے۔ نہ انصاف‘ نہ مساوات اور نہ ہی بنیادی انسانی حقوق۔ ایک فیصد حکمران طبقہ کی ناقابلِ تصور خوشحالی‘ آنکھوں کو چندھیا دینے والے جزیرے اور دُوسری طرف اتنی ہی ناقابلِ تصورغربت‘ جہالت‘ افلاس اور طرح طرح کی بیماریوں کے سمندر میں جنم جنم سے غوطہ کھانے والے عوام‘ جنہیں رعایا کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔
یورپ کی بھونڈی نقالی صرف زبان‘ لباس‘ فیشن اور بری عادات میں ہے، نہ یو رپ سے سچائی‘ اُصول پرستی‘ حق گوئی‘ دیانتداری‘ عوام دوستی‘ نظم و ضبط اور اعلیٰ اقدار کی پاسداری سیکھی اور نہ کوئی ایسی خوبی جو ہماری کایا پلٹ دے۔ یورپ کو دورِ جدید میں کلیسا نے علم کا چراغ روشن کرکے داخل کیا مگر ہمارے ہاں مکتب و منبر اور مدرسہ کا جدید علو م سے متعلق روّیہ محتاجِ وضاحت نہیں۔ ہمارے مغرب میں افغانستان میں طالبان انگریزوں‘ رومیوں اور امریکیوں کو شکستِ فاش دے سکتے ہیں مگر خواتین کو نہ تعلیم حاصل کرنے کا حق دیتے ہیں اور نہ باعزت ملازمت کی اجازت۔ ہم‘ بقول اقبالؔ‘ جگر کا خون بہا کر (یعنی بے حد محنت کر کے) چشم دِل میں نظر پیدا کرنے کی صلاحیت سے اُسی طرح محروم ہیں جس طرح سو سال پہلے کی سلطنتِ عثمانیہ۔ نہ اُس دور کے ترکوں کو جہان بینی کا زیادہ مشکل کام آتا تھا اور نہ آج ہمیں آتا ہے۔ مقامِ شکر ہے کہ دورِ جدید کے ترکوں اور ایرانیوں نے بصد مشکل یہ کام سیکھ لیا اور سیکھ رہے ہیں۔ کیا ہمارے خاکستر میں آج بھی کوئی ایسی چنگاری ہے جو ہمارا مستقبل روشن کر سکے؟ یقینا! بصارت اور بصیرت مجھ سے ''یقینا‘‘ کا لفظ بار بار لکھواتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ وہ چنگاریاں اس وقت کہاں ہیں؟ جواب ہے کہ ہمارے چاروں طرف ہیں مگر ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانوں کی طرح بکھری ہوئی ہیں۔ پشاور سے کراچی تک‘ ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی ہزاروں مساجد مگر جامع مسجد ایک بھی نہیں۔ بہت سے ریٹائرڈ جج اور ریٹائرڈ فوجی افسران‘ درس گاہوں اور یونیورسٹیوں کے روشن دماغ اساتذہ۔ باضمیر اور سمجھدار صحافی۔ محنت کش‘ کسانوں‘ مزدور‘ کان کن۔ چاول، گندم اور کپاس اُگانے والے دہقان۔ مچھلیاں پکڑنے والے ماہی گیر اور مزارعین۔ سب کے سب بکھرے ہوئے ہیں، یکجا اور مجتمع نہیں۔ مگر اپنی جگہ یہ چنگاریاں موجود ہیں۔ آپ صرف ایک چھوٹی سی مثال کو سامنے رکھیں تو میرا موقف واضح ہو جائے گا۔ ماضی قریب میں عدالتِ عظمیٰ کا سربراہ تبدیل ہوا۔ جناب قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے یہ منصب سنبھالا اور چیف جسٹس بنے۔ عدالت بھی وہی۔ گلاسٹرا قانونی نظام‘ جس پر نظامِ انصاف ہونے کی تہمت لگائی جاتی ہے‘ بھی وہی۔ پولیس اور انتظامیہ بھی وہی۔ غرضیکہ سب کچھ وہی۔ بدلا تو کیا بدلا؟ صرف ادارے کا سربراہ۔ مگر سارے ملک کا ماحول روشن ہو گیا۔ اتنا روشن کہ ہمہ وقت وطنِ عزیز کو دیکھنے والے بو ڑھے کالم نگار کو چھ ہزار میل کے فاصلے سے بھی بخوبی نظر آیا۔ آپ ذرا اس تبدیلی کو سو سے بلکہ ہزار سے ضرب دے کر دیکھیں کہ کیا جواب نکلتا ہے؟ فلاحی مملکت کے اُس خواب کی تعبیر‘ جس پر 76 برس قبل دُنیا کی پانچویں بڑی مملکت معرضِ وجود میں آئی تھی۔ پاکستان کا بن جانا ایک معجزہ تھا‘ اگر یہ درست ہے (جو یقینا ہے) تو پھر اس کو بچانے کا معجزہ بھی ضرور رُونما ہو سکتا ہے۔ پھر وہ سحر طلوع ہوگی جس کو دیکھنے کی بشارت فیضؔ صاحب نے دی تھی۔
یہ کالم اقبال سے شروع ہوا‘ اُن پر ہی ختم ہوگا۔ اقبال نے فرمایا کہ وہ اپنی کشتِ ویراں (اُجڑی ہوئی کھیتی) سے ہر گز نااُمید نہیں۔ دُوسرے مصرع میں ایک چھوٹی سی شرط عائد کر دی اور وہ تھی اس زرخیز مٹی میں ذرا سے نم کی۔ ایک صدی گزر گئی‘ ابھی تک وہ نم پیدا نہیں ہوا اور بدقسمتی سے مٹی کی زرخیزی مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ روحِ اقبال کتنی مضطرب ہوگی؟ ہمیں اس نم کے حصول کے لیے بڑی تگ و دو‘ بڑی جدوجہد کرنا ہوگی۔ اقبال کا ''نم‘‘ کیا ہوسکتا ہے؟ سلطانی ٔ جمہور۔ سرمایہ پر محنت کی برتری۔ انصاف۔ مساوات اور انسانی حقوق کا احترام۔ قوتِ اُخوتِ عوام۔ مغربی سامراج اور امریکی اجارہ داری کے خلاف جدوجہد۔ مافیاز سے نجات۔ جدید علوم کا حصول۔ صداقت۔ دیانت۔ امامت۔ شجاعت۔ آیئے! یہ بھولا ہوا سبق پھر سے پڑھیں۔ دُنیا کی امامت کا سبق‘ جو اقبال ہم جیسے نالائقوں کو پڑھانا چاہتے تھے۔ وہ منزل ابھی دور ہے‘ پہلے ہم 24 کروڑ ہم وطنوں کو ہی سنبھال لیں‘ ان کی کشتِ ویران کو پھر سے سرسبز اور ہرا بھرا کر دیں‘ خزاں کی جگہ بہارلے آئیں تو کمال ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں