ایک مسافر کی راہ تمام ہوئی

مسافر کا نام تھا سلیمان۔ سلیمان تو اُن کا گھریلو و غیر رسمی نام تھا، اصل نام تھا محمد امیر محمد خان۔ وہ بھارت کے سب سے بڑے اور شمالی صوبے (اُتر پردیش) میں سابقہ ریاست محمود آباد و بلہیرہ کے (کاغذی) حکمران تھے‘ جو راجہ کہلاتے تھے۔ 80 برس عمر پائی اور 4 اکتوبر کو جہانِ فانی کو خیرباد کہہ گئے۔ قارئین کی اکثریت مرحوم سے ناواقف ہو گی مگر ان کے والدِ محترم‘ جو راجہ آف محمود آباد کے نام سے معروف تھے‘ کے نام اور کام سے تھوڑی بہت واقفیت ضرور ہو گی۔ راجہ آف محمود آباد کا شمار قائداعظم کے قریبی ساتھیوں میں کیا جاتا ہے۔ جب مسلم لیگ عوامی حمایت اور پذیرائی حاصل نہ کر پائی تھی‘ اس وقت وہ اسے سب سے زیادہ چندہ دیتے تھے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اپریل 1918ء میں جب قائداعظم محمد علی جناح نے رتن بائی سے نکاح کیا تو نکاح نامے پر قائداعظم کے وکیل کی حیثیت سے راجہ صاحب ہی نے دستخط کیے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ قائداعظم اپنی دُلہن کے ساتھ نینی تال کے جس ہوٹل میں ہنی مون کے لیے گئے‘ اُس کے مالک بھی راجہ صاحب ہی تھے۔ بھارت میں راجہ صاحب اپنی ریاست محمود آباد کے اندر اور باہر جتنی جائیدادوں کے مالک تھے اُن کی تعداد936 تھی۔ ان میں لکھنؤ کا چوٹی کا تجارتی مرکز Halwasiya Market بھی شامل تھا۔ بڑے راجہ صاحب کے قائداعظم کے ساتھ چند باتوں پر نظریاتی اختلافات بھی تھے۔ اوّل یہ کہ راجہ صاحب کے ذہن میں جس مملکت کا نقشہ تھا‘ وہ ایک ایسی اسلامی مملکت تھی جس کے ریاستی ڈھانچے، آئین اور نظامِ انصاف پر اسلام کا گہرا رنگ چڑھا ہو اور معاشی نظام کے خدوخال سوشلسٹ نظریے سے متاثر ہوں مگر قائداعظم مختلف خیالات کے حامل تھے۔ جب پاکستان کے مجوزہ نظام حکومت پر غور و فکر کا مرحلہ آیا تو وہ ہر قسم کے مذہبی عقائد کو ریاست کے سیاسی نظام سے بالکل جدا رکھنے کے اُصول پر سختی سے کاربند رہے۔ ان اختلافات کے باوجود راجہ صاحب شروع سے لے کر قیام پاکستان تک مسلم لیگ کے خزانچی رہے۔ جب قائداعظم نے مسلم لیگ کی ترجمانی کے لیے ایک انگریزی جریدہ (Dawn) نکالنے کا فیصلہ کیا تو اس منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے بھی سب سے بڑا عطیہ راجہ صاحب نے دیا تھا۔ پاکستان بنا تو وہ کراچی میں مقیم تھے مگر کسی سرکاری تقریب میں شریک نہ ہوئے۔ غالباً یہ بھی درست ہے کہ وہ نہ کبھی قائداعظم‘ جو نوزائیدہ ریاست کے سربراہِ مملکت تھے‘ کو ملنے گئے اور نہ قائداعظم نے کبھی اُنہیں دعوتِ ملاقات دی۔ راجہ صاحب بعد ازاں خاموش احتجاج کرتے ہوئے 1948ء میں پاکستان چھوڑ کر عراق چلے گئے اور وہاں ایک کاروباری ادارہ قائم کیا۔ وہ گاہے گاہے خاموشی سے پاکستان آتے رہے۔ 1956ء میں جب وہ پاکستان آئے تو اُنہوں نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور اسلامی سوشلزم کے اُصولوں (خصوصاً سرمائے پر محنت کو فوقیت اور ترجیح دینے کے اصول) کو اپنانے کے لیے آواز اُٹھائی جسے بدقسمتی سے بالکل نظر انداز کر دیا گیا۔ 1968ء میں راجہ صاحب عراق سے برطانیہ چلے گئے جہاں اُنہوں نے اسلامی کلچرل سنٹر کی سربراہی کی ذمہ داری سنبھالی۔ اُنہوں نے 1973ء میں وفات پائی مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ راجہ صاحب نے اپنی زندگی کے آخری پانچ سال خرابیٔ صحت کی حالت میں لندن میں کسمپرسی اور گمنامی میں گزارے۔ اُن کے بیوی‘ بچوں میں سے کوئی بھی ان کے پاس نہ تھا۔ البتہ برطانوی نرسوں نے ان کا اتنا اچھا خیال رکھا کہ وہ یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ وہ ساری عمر جس قوم (انگریز) کے ہندوستان پر استعماری قبضے کے خلاف جدوجہد کرتے رہے‘ اُسی نے آخری عمر میں ان کی نگہداشت کی ذمہ داری بخوبی ادا کی۔
سلیمان نے لکھنؤ کے بہترین تعلیمی ادارے La Martinière College میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد برطانیہ کی بہترین یونیورسٹی کیمبرج میں ریاضی میں Tripus کے اعزاز کے ساتھ ڈگری لی اور تین سال بعد Stellar Oscillation کے بے حد مشکل موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی جو ایک قابلِ تعریف کارنامہ ہے۔ واضح رہے کہ لکھنؤ میں ایک نہیں دو باکمال کالج ہیں۔ ایک تو وہ جہاں سلیمان نے تعلیم حاصل کی اور دوسرا ہےIsabella Thoburn College ۔ خواتین کا یہ کالج اپریل 1870ء میں قائم کیا گیا تھا اور یہیں پر عالمی شہرت یافتہ ناول نگار قرۃ العین حیدر نے اپنی تعلیم مکمل کی۔
سلیمان نے تعلیم تو سائنس کے مضامین میں حاصل کی مگر ان کی اصل دلچسپی اُردو اور فارسی ادب (خصوصاً شاعری) سے تھی۔ تقسیم ہند کے دس سال بعد (1957ء میں) سلیمان پر یہ خبر بجلی بن کر گری کہ اُن کی بھارت میں موجود تمام جائیداد کو بحق سرکار ضبط کر لینے کا سرکاری حکم نامہ جاری کیا گیا ہے کیونکہ مذکورہ جائیدادوں کا مالک پاکستانی ہے‘ جو بھارت کا دشمن ملک شمار کیا جاتا ہے۔ 1957ء میں سلیمان کی عمر 16 برس تھی جبکہ وہ اپنے والد کے ہمراہ عراق میں پناہ گزین تھے۔ تب سے لے کر 2023ء تک‘ یعنی 66 برس سلیمان بڑا دُکھی رہا۔ بھارتی حکومت نے Enemy Property Act کے تحت راجہ آف محمود آباد کے اگست 1947ء میں ہندوستان چھوڑ کر پاکستان چلے جانے کو بنیاد بنا کر اُن کی اربوں روپوں کی جائیداد کو بحقِ سرکار ضبط کرنے کا نادر شاہی حکم جاری کیا تھا۔ حالانکہ راجہ صاحب پاکستان میں مستقل قیام کے بجائے پہلے عراق اور بعد ازاں برطانیہ چلے گئے تھے۔ جب سلیمان نے دیکھا کہ بھارتی حکومت اُن کی فریاد نہیں سنتی تو اُنہوں نے عدالتوں میں قانونی چارہ جوئی شروع کر دی۔ سلیمان کی ممتاز سماجی حیثیت کی بدولت بھارت کے چوٹی کے تمام سیاسی رہنمائوں‘ جن میں وزرائے اعظم اور سربراہانِ مملکت بھی شامل تھے‘ تک براہِ راست رسائی تھی۔ مُراد جائی دیسائی (جو غیر متعصب ہونے کی شہرت رکھتے تھے) نے سلیمان کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے اُسے طنزاً کہا کہ کتنا اچھا ہوتا کہ وہ کیمبرج یونیورسٹی میں اسٹرانومی (علم فلکیات) کے بجائے Astrology (ستاروں کی گردش سے قسمت کا حال دریافت کرنے کا علم) پڑھتا تاکہ آنے والی مصیبتوں سے اپنے آپ کو بچانے کی تدابیر کر سکتا۔ سلیمان نے مالی مشکلات کے باوجود لکھنؤ یونیورسٹی کو اتنی بڑی رقم بطور عطیہ دی کہ اُس نے King George کے نام سے ایک میڈیکل کالج بنا لیا۔ غالباً یہ نیکی ہی اُن کے کام آئی اور جب بھارتی سپریم کورٹ کے سامنے سلیمان کا مقدمہ پیش ہوا تو اُس کے سامنے بنیادی سوال یہ تھا کہ کسی بھارتی شہری کو دُشمن ملک کا شہری قرار دے کر اس کی جائیداد کو ضبط کیا جا سکتا ہے؟ سپریم کورٹ کا فیصلہ تھا: ہرگز نہیں! مگر حکومت نے پھر بھی یہ حکم تسلیم نہ کیا اور یکے بعد دیگرے سرکاری احکامات جاری کر کے سلیمان کو اس کی جائیداد سے محروم کرنے کی کارروائی کو جاری رکھا۔ قانونی چارہ جوئی اتنے برسوں پر پھیل گئی کہ راجہ آف محمود آباد کے محلات خستہ حالی کا شکار ہو گئے۔ باغات اُجڑ گئے، دبیز قالینوں اور فرنیچر پر گرد و غبار کی گہری تہیں جمنے لگیں۔ نینی تال کے خوبصورت ہوٹل پر اتنا برا وقت آیا کہ وہ کار پارکنگ بن گیا۔
واضح رہے کہ جب بڑے راجہ صاحب پاکستان آئے تو سلیمان کی والدہ نے اُن کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا اور وہ راج زمانوں کی طرح اپنے محل (قیصر باغ) میں عالی مقام راجوں، مہاراجوں اور حکمران طبقے کے ممتاز افراد کو دعوتوں پر مدعو کرتی رہیں۔ جب محمود آباد کی ریاست (پانچ سو سے زیادہ ریاستوں کی طرح) بھارت میں بزور شمشیر ضم کر دی گئی تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ محمود آباد کے نئے راجہ کے لیے بدلے ہوئے حالات سے سمجھوتا کرنا کتنا مشکل ہوا ہو گا۔ اب سلیمان اس دنیا سے رخصت ہو کر اپنے والدین کے پاس اگلے جہان جا چکا ہے، محلات اور مکان پیچھے رہ گئے ہیں اور مکین کی راہ تمام ہوئی۔ برطانیہ کے ٹاپ ہفت روزہ جریدے اکانومسٹ نے سلیمان پر بہت تعریفی تعزیتی مضمون شائع کیا۔ سلطنت اودھ کی طرح محمود آباد کا آخری راجہ بھی ماضی کا حصہ بنا اور اپنے خالق کے حضور پیش ہو گیا۔ سلیمان کا دامن مہاراجہ ہونے کے باوجود بے داغ رہا۔ مرحوم کے دل پر داغ تو بہت سے ہوں گے مگر بقول فیضؔ غالباً اُس پر ندامت کا کوئی داغ نہ ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں