گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں …(2)

اقبال چوٹی کے شاعر اور بے مثال دانشور تھے۔ تقریباً سو سال پہلے کمال کا وہ شعر لکھا جس کا پہلا مصرع آج کے کالم کا عنوان بنا۔ آپ دوسرے مصرع سے یقینا واقف ہوں گے۔ پھر بھی احتیاط کا تقاضا ہے کہ اُسے لکھ دیا جائے:
یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں
کالم نگار کم از کم نصف صدی سے اُن کے رازداں ڈھونڈ رہا ہے۔ شعر میں جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ اقبالؔ کے رازداں ایک سے زیادہ تھے۔ مگر مجھے تو ایک بھی نظر نہیں آتا۔ ہو سکتا ہے کہ ان کا اشارہ قائداعظم محمد علی جناح کی طرف ہو۔ کیا قائداعظم سے خط و کتابت کر کے اقبال کا احساسِ تنہائی ختم ہو گیا ہوگا؟ اقبالؔ کے اپنے الفاظ میں تو جواب مثبت ہے مگر مقامِ حیرت ہے کہ کالم نگار جیسے کم علموں کو اس کی کوئی شہادت نہیں ملتی۔ قرین قیاس ہے کہ اقبالؔ نے اپنے رازدانوں کو بھی صیغۂ راز میں رکھنا مناسب سمجھا ہو۔ خوش قسمتی سے ہمارے پاس بڑے عالم فاضل لوگ ہیں جو اقبالؔ کے نظریات، فلسفے اور تعلیمات کے گہرے مطالعہ کے بعد سکہ بند اور مستند ماہرین مانے جاتے ہیں۔ اگر وہ زیادہ ناراض نہ ہوں تو میں یہ لکھنے کی جسارت کروں گا کہ کالم نگار نے پون صدی پر محیط اپنے مطالعے میں اقبال پر جو سب سے عالمانہ، Inspiring اور بصیرت افروز کتابیں پڑھیں وہ دو ہیں۔ ایک Pankaj Mishra کی کتاب تھی: From the Ruins of Empire۔ (کالم نگار کو خوش قسمتی سے اُن سے ایک بار لندن میں ملنے اور اُن کی دل و دماغ کو روشن کر دینے والی تقریر سننے کا موقع ملا۔ جمال الدین افغانی کے بارے میں اُنہوں نے میرے محدود علم میں گراں قدر اضافہ کیا) اور دوسری کتاب تھی سنگاپور میں رہنے والے بھارتی صحافی ظفر انجم کی جو بھارت سے ایک برطانوی اشاعتی ادارے نے قریب دس برس قبل شائع کی تھی: Iqbal: The Life of a Poet, Philosopher and Politician.
مندرجہ بالا ساری باتیں جملہ معترضہ کے زمرے میں آتی ہیں۔ آج کے کالم کا عنوان اقبال کے ایک معروف شعر کا پہلا مصرع بنانے کا جواز یہ ہے کہ کالم نگار نے 25 برس پہلے ''پاکستان بچائو منشور‘‘ کے عنوان سے جو دستاویز لکھی (ظاہر ہے کہ برطانیہ اور پاکستان میں بہت سے ہم خیال دوستوں کی مشاورت اس میں شامل تھی مگر صرف مشوروں کی حد تک اور نہ ہونے کے برابر) اُس کا پہلا اور ایک اہم ترین نکتہ یہ تھا کہ پاکستان کے موجودہ چاروں صوبے ہندوستان پر برطانوی راج کی یادگار ہیں۔ یہ ہم نے آزادی مل جانے کے بعد نہیں بنائے۔ یکے بعد دیگرے ہم نے تین آئین بنائے اور تیسرے اور آخری آئین میں بہت سی ترامیم بھی کی گئیں جن میں غالباً اہم ترین ترمیم اٹھارہویں ہے مگر نہ ہی کسی آئین میں اور نہ کسی ترمیم میں ان چاروں صوبوں کی جغرافیائی حد بندی کی گئی۔ پاکستان بنا تو پانچ صوبے تھے۔ پانچواں صوبہ مشرقی پاکستان تھا جو 1971 ء کے آخر میں بنگلہ دیش کے نام سے ایک آزاد مملکت بن گیا۔ اس وقت ایک آمر (یحییٰ خان) کے مارشل لا کا زمانہ تھا اس لیے ہمیں آئینی ترمیم کیے بغیر پانچ کے بجائے چار صوبوں کی زمینی حقیقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔ 1973ء کا آئین قائداعظم کے پاکستان کے صرف چوبیس سال میں دو لخت ہو جانے کے المیے کا ذکر نہیں کرتا۔ تجاہلِ عارفانہ سے آئین کی عمارت چار صوبوں کے چار ستونوں پر کھڑی کی گئی اور وہ بھی اس پیرائیہ میں کہ لگتا ہے کہ اُن کے وجود کا جواز کسی الہامی کتاب میں درج ہے۔
آئین کو بنائے ہوئے پچاس برس گزر گئے۔ اس دوران کئی ترامیم ہوئیں۔ آمرانہ حکومتوں کو ''بلینک چیک‘‘ دیے گئے۔ آئین کو پامال کرنے والوں کو سجدہ سہو کرنے کی بلا جواز اجازت دی گئی۔اسے انگریزی میں Turning a Blind Eye کہتے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان بھی سرحدی صوبے ہیں‘ شمال مغربی سرحدی صوبہ کا نام بدلنے میں 63 برس لگ گئے۔ یہ کام 15 اگست1947 ء کوہی ہو جانا چاہئے تھا۔دُنیا کی تاریخ میں ایسی پھرتی اور تیز رفتاری کی مثال نہیں ملتی۔
اب واپس چلتے ہیں تحریکِ تبدیلیٔ نظام و شرکتِ عوام کی بے حد مناسب اور صائب تجویز کی طرف کہ انگریز کے اپنے سامراجی مفادات کے تحت بنائے گئے ان چار صوبوں کو ختم کرکے ہر ڈویژن کو صوبائی درجہ دیا جائے۔ کیا یہ بات ہم نہیں جانتے کہ 2023 ء میں ہر صوبے کی ہر ڈویژن کی آبادی آزادی سے قبل‘ صوبوں کی آبادی سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی سرائیکی صوبے کی آواز بلند ہوتی ہے اور کبھی سابقہ ریاست بہاولپور کی جغرافیائی حدود کا احترام کرتے ہوئے اُسے صوبائی درجہ دینے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ یہ تو کل کی بات ہے کہ ہزارہ ڈویژن کے لوگ خیبر پختونخوا سے علیحدگی اور ہزارہ کو صوبائی درجہ دیے جانے کا مطالبہ کرتے تھے۔ کراچی سے بھی باقاعدگی سے اسے صوبائی درجہ دینے کے دبے دبے مطالبات کی آواز بلند ہوتی رہتی ہے۔ دو کروڑ سے زائد آبادی کا شہر‘ جو مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور یورپ کے کئی ممالک سے بڑا ہے‘ اسے بمشکل ڈویژن کا درجہ حاصل ہے۔ عملاً شاید وہ بھی نہیں! اتنا ضرور سنتے ہیں کہ کراچی میں کئی اضلاع ہیں اور ہر ضلع ہر خلیجی ملک سے آبادی میں بڑا ہے۔ لسانی بنیادوں پر نئے صوبے بنانا ہماری قومی وحدت (جو پہلے ہی نحیف و نزار ہے) کو مزید صدمہ پہنچائے گا۔ ڈویژن ایک انتظامی اکائی ہے۔ ہر ڈویژن کی اپنی ہائیکورٹ ہونی چاہیے‘ اپنی قانون ساز اسمبلی اور عوام کے ووٹوں سے چنا گیا گورنر۔ کتنا اچھا ہو کہ متناسب نمائندگی کے Electoral طریقۂ انتخاب پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ پرانے وقتوں میں صرف جماعت اسلامی اس کا مطالبہ کرتی تھی‘ اب وہ بھی نہیں کرتی۔ وجہ کیا ہے‘ یہ جناب سراج الحق ہی بتا سکتے ہیں۔
کالم نگار اس سال دو بار پاکستان گیا۔ میں امیرِ جماعت اسلامی کا ممنون ہوں کہ اُنہوں نے دونوں بار مجھے ملاقات کا وقت دیا۔ دس‘ پندرہ منٹ میں ٹرخایا نہیں بلکہ ایک گھنٹہ تک میری باتیں توجہ سے سنیں ۔ میں نے ہر ملاقات میں اُنہیں متناسب نمائندگی‘ جو بیک جنبشِ قلم الیکٹ ایبلز کا سیاسی اُفق سے صفایا کر دے گی‘ کے فوائد گنوائے۔ بظاہر وہ متفق نظر آئے مگر تاحال انہوں نے ایک بھی تقریر میں اُس کا ذکر نہیں کیا۔ اگر وہ اس بیانیہ کو نہ اپنائیں گے تو کون اپنائے گا؟ بڑی سیاسی جماعتوں کے لیے یہ زہر ہلاہل ہے‘ وہ اسے اپنی زبان پر لائیں تو کیونکر؟ حیرت ہے کہ ایم کیو ایم بھی اس کا ذکر نہیں کرتی اور نہ ہی جی ڈی اے ۔ مصیبت یہ ہے کہ موجودہ طریقۂ انتخاب ‘جسے علم سیاست کی زبان میں First Past the Postکہتے ہیں‘ اُس استحصالی طبقے (مافیا ) کیلئے بے حد مفید اور کارآمد ہے جو اربوں روپوں کی سرمایہ کاری کرکے انتخابات میں کامیابی حاصل کرتا چلا آ رہا ہے اور اگلے انتخابات میں بھی وہی کامیاب ہو گا۔ حکومتیں آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کرتی رہیں گی‘ ارکانِ اسمبلی ان پر اپنے انگوٹھے لگاتے رہیں گے‘ قومی خزانے پر اربوں روپے کا سالانہ بوجھ پڑتا رہے گا اور ہمیں اپنے آپ کو یہ فریب دینے میں آسانی رہے گی کہ ہمارے ملک میں جمہوریت ہے جہاں حکومتیں عوام کی اکثریت کی تائید سے بنتی ہیں۔ خود فریبی کی اس سے زیادہ قابلِ رحم مثال اور کیا دی جاسکتی ہے؟
لمحۂ موجود میں سیاسی جماعتوں کی ساری کاوش اورتگ ودو کا صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے اقتدار کا حصول۔ ملکی مفاد کسی کی ترجیح نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم76 سال کے بعد (دوسری قوموں کی طرح آگے جانے کے بجائے) پیچھے جا رہے ہیں۔ نہ جمہور اور نہ سلطانیٔ جمہور۔ نہ عوام اور نہ قوتِ اُخوتِ عوام۔ نہ قانون و انصاف اور نہ آئین کی حکمرانی۔ ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ ہم اس دلدل اور بھنور سے نکلیں تو کیونکر؟ یہی وہ موضوع ہے جس پر اگلا کالم لکھا جائے گا۔ آج کا کالم ادھر اُدھر کی باتوں‘ جو اپنی جگہ بڑی اہم تھیں‘ میں صرف ہو گیا، معذرت خواہ ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں