گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں …(3)

کالم نگار پورے وثوق، ذمہ داری اور سنجیدگی سے کہہ رہا ہے کہ اس وقت سب سے زیادہ قومی مفاد کی آواز بلند کرنے والے فورم (Forum) کی ضرورت ہے۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج صاحبان‘ روشن دماغ سابق فوجی افسران (مثلاً جنرل (ر) نعیم خالد لودھی اور جنرل (ر) زاہد مبشر، جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد، جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ، جسٹس (ر) خلیل الرحمن رمدے)‘ صحافی‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ‘ محنت کشوں کے راہ نما‘ دانشو ر اور ہر سیاسی جماعت میں سے وہ اِکا دُکا افراد جو اپنے سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی مفاد کا درد اور لگن رکھتے ہوں۔ ماہرینِ معیشت و سیاست (مثلاً ڈاکٹر ندیم الحق‘ ڈاکٹر حسن عسکری رضو ی‘ ڈاکٹر اکمل حسین‘ ڈاکٹر شاہد کاردار‘ ڈاکٹر قیصر بنگالی‘ ڈاکٹر فرخ سلیم‘ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی‘ ڈاکٹر شاہدہ وزارت) گوشہ نشین سیاسی راہ نما‘ عوام ووست سیاسی کارکن (مثلاً انصار برنی جیسے گنجِ گراں مایہ) کی کوئی کمی نہیں۔ہمارے پاس مندرجہ بالا عوام دوست افراد کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ اس خاکستر میں یہی چنگاریاں ہمارا آخری قیمتی سرمایہ ہیں۔ ابراہم لنکن کے الفاظ میں: Our Last Best Hope۔
اعلیٰ سرکاری افسروں کو میں عوام دشمن سمجھتا تھا‘ (الّا ماشاء اللہ) مگر مجھے محمد اقبال دیوان صاحب کے لکھے ہوئے ایک کمال کے ناول (وہ ورق تھا دل کی کتاب کا) کے بعد اپنی رائے بدلنا پڑی اور اس سال کے شروع میں ایک انگریزی جریدے میں ایک سابق پروفیسر جناب انجم الطاف کا ایک آرٹیکل پڑھ کر یونیورسٹی اساتذہ کے بارے میں بھی میرا خیال تھا (اور کسی حد تک اب بھی ہے) کہ بقول اقبالؔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کتاب خواں تو ضرور ہیں مگر صاحبِ کتاب نہیں۔ کتابوں کے مطالعہ نے انہیں اتنا کور ذوق کر دیا ہے کہ اُنہیں چلتی ہوئی ہوا سے بوئے گل کا سراغ نہیں ملتا۔ اُن کے ذہن اُن افکارِ تازہ سے محروم ہیں جو جہانِ تازہ کو جنم دیتے ہیں۔
پاکستان میں وکلا‘ یونیورسٹی اساتذہ اور صحافیوں میں بجا طور پر دانشور کہلانے کے مستحق افراد کی تعداد ہزاروں میں نہیں تو سینکڑوں میں ضرور ہو گی۔ بقول مصحفیؔ رفو کے بہت سے کام کا مستحق میرا دل خوشی سے جتنا بھی سرشار ہو‘ وہ بوڑھے دماغ کی اس حیرت کا مقابلہ نہیں کر سکتا کہ سارے ملک میں صرف دو (دوبارہ لکھتا ہوں صرف دو) روشن دماغ اور عوام دوست افراد نے حکمِ اذاں سنا۔ ایک نے انگریزی اخبار میں بہت اچھا کالم لکھا‘ وہ تھے: پروفیسر جناب انجم الطاف اور دوسرے تھے ایک ریٹائرڈ بیورو کرپٹ اور چو ٹی کے ادیب جناب محمد اقبال دیوان‘ جنہوں نے بہت بلند معیار افسانے لکھنے کے بعد کمال کا ناول لکھا۔ ''وہ ورق تھا دل کی کتاب کا‘‘۔ بھلا ہو دو باذوق اور بہادر ناشر بھائیوں کا جنہوں نے اس ناول کو بارہ برس پہلے اس خوبصورتی سے شائع کیا۔ افسوس کہ مجھے یہ کتاب حاصل کرنے اور ذوق و شوق سے پڑھنے کے لیے گیارہ برس کا انتظار کرنا پڑا۔ پڑھتے پڑھتے اور ذہین ناول نگار کے قریباً ہر صفحہ پر داد و تحسین کے پھول برساتے صفحہ نمبر 348 پر پہنچا تو اپنی آنکھوں (جو نہ دُنیا کو بازیچۂ اطفال سمجھتی ہیں اور نہ شب و روز رُونما ہوتے واقعات کو غالبؔ کی طرح تماشا سمجھ کر دیکھتی ہیں) پر اعتبار نہ آیا۔
میں پرانے دور کی کہانیوں کا کردار ہوتا تو اپنے آپ کو چٹکی بھر کر اس امر کی تصدیق کرتا کہ میں جاگ رہا ہوں‘ خواب نہیں دیکھ رہا۔ مناسب ہو گا کہ کالم نگار اقبال دیوان کے خوبصورت بیانیے کا حلیہ بگاڑنے کے بجائے ان کے ناول میں لکھے ہوئے مذکورہ بالا نو نکاتی Radical (انقلابی اور غیر روایتی) منشور کو ہو بہو نقل کر دیں جو نہ صرف میرے بلکہ میرے تمام ہم خیال دوستوں (افسوس کہ تعداد زیادہ نہیں) کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔ 348 تا 350 صفحات پر لکھے گئے ہر پیراگراف کی ہر سطر اور ہر سطر کے ہر لفظ کو پڑھ کر یوں محسوس ہوا کہ:
گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
''اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے آئین میں چند ترامیم کر لیں۔ ہمارا اس میں رول ماڈل (Role Model) امریکہ کا آئین ہو تو اچھا ہو۔ میں چند گزارشات ان ترامیم کے سلسلہ میں پیش کرتا ہوں۔ آپ غور فرمائیں گے کہ یہ ایک عہدے سے مختص نہیں‘ یہ بہت بنیادی Structural نوعیت کی ہیں۔
(1) پاکستان میں جتنے ڈویژن ہیں‘ اتنے صوبے بنا دیں۔ حکومت کو عوام کے دروازے کی دہلیز تک لے جائیں۔ بھارت جب آزاد ہوا تو اس میں اس وقت سات یا آٹھ صوبے تھے۔ اب ان کے ہاں 30 کے قریب صوبے ہیں۔ (نوٹ: بھارت کے حصے نصف پنجاب آیا‘ جس میں سے تین صوبے بنائے گئے) ایران اور افغانستان (جو پاکستان کے مقابلے میں رقبے اور آبادی میں چھوٹے ملک ہیں) میں صوبوں کی تعداد 25 کے قریب ہے۔
1: میرے ناقدین کہیں گے کہ اس سے حکومت کا خرچہ بڑھے گا تو اس کا آسان حل یہ ہے کہ صوبائی سطح پر زیادہ سے زیادہ پانچ اور کم از کم تین وزیر رکھیں۔ امریکہ (جو بہت بڑا ملک ہے) میں معاملہ ایسا ہی ہے۔ اس وقت ان کے ہاں 13کے قریب وزرا ہیں‘ جنہیں وہ سیکرٹری کہتے ہیں۔ وہ ایوانِ نمائندگان یا سینیٹ (کانگریس) کے رکن نہیں ہوتے۔ یورپ، امریکہ اور چین میں آٹھ سے بارہ وزیر ہوتے ہیں۔ عوام کے مسائل عوام کے دروازے پر حل ہو رہے ہیں۔ ہمارے ہاں صوبوں کی موجودہ تقسیم ہندوستان میں انگریزوں کے زمانے کی ہے۔ اب اس میں آبادی کے حساب سے نئے مسائل اور محرومیوں نے جنم لیا۔ جب ہم ملک کی تقسیم ڈویژن کی بنیاد پر کریں گے تو عوام کی شکایات کم سے کم ہوں گی۔
2: وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی کابینہ کے وزرا اسمبلی کے ممبران نہ ہوں۔ اس سے کرپشن کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ یہ صرف ملکی اور صوبائی معاملات کی نگرانی اسمبلیوں کے ذریعے کریں۔ ان کا حکومت سے براہِ راست کوئی واسطہ نہ ہو۔ اسمبلی ممبران کے پاس حکومت کا کوئی عہدہ نہ ہو۔ وزیر اور مشیر صاحبان اپنی کارکردگی کے حوالے سے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو جواب دہ ہوں۔
3: ایک آزاد الیکشن کمیشن ہو جو انتخابات کے عمل کو شفاف رکھنے کا ضامن ہو۔ آپ نے دیکھا کہ جب T.N Seshan کو بھارت میں چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا تو اُنہوں نے کس طرح بھارت میں انتخابات کے عمل کو شفاف اور قابلِ اعتبار بنا دیا۔
4: آپ ہر صوبہ (موجودہ ڈویژن) سے امریکہ کی طرح دو سینیٹرز عوام کے براہِ راست ووٹوں سے منتخب کریں۔ اس سے سیاست میں جو مختلف نوعیت کی فرقہ بندیاں ہو جاتی ہیں‘ ان کی جڑیں کاٹنے میں مدد ملے گی اور سینیٹ کا ادارہ حقیقتاً ایک عوام کا نمائندہ ادارہ بن جائے گا۔
5: ہم امریکہ کی طرح (اسمبلیوں میں) موضوعاتی کمیٹیاں بنا دیں‘ جیسے دفاع، قانون، انصاف اور خارجہ اُمور کمیٹی وغیرہ۔ ان دنوں امریکی سینیٹ کی سولہ کمیٹیاں اور ان کی ذیلی کمیٹیاں حکومت کے کام کی کڑی نگرانی کرتی ہیں۔ پالیسی اور قانون سازی کے عمل میں ماہرین کو مستقل بنیادوں پر وہ مشورہ کے لیے بلاتی ہیں۔ یوں امریکہ کی حکومت اور اس کے اہلکار دنیا کے ان چند طاقتور افراد میں سے ہیں جہاں کم از کم لوگ ان کے خلاف عدالتوں میں جاتے ہیں۔ ان کی سب سے طاقتور اور بااختیار کمیٹی House Committee on Appropriations ہے جو حکومت کے صوابدیدی اختیارات کے حوالے سے اعتراضات کی منظوری دیتی ہے۔ امریکہ کی عدالتِ عالیہ مختلف معاملات پر دسترس رکھتی ہے۔ سینیٹ کی وفاتی حکومت کے مقرر کردہ سارے افسران (بشمول سپریم کورٹ ججز) کی منظوری ضروری ہے‘ جس پر اس کی تقلید کرنی چاہئے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں