چہرے نہیں نظام بدلو

آج کے کالم کا عنوان کسی دور میں پاکستان عوامی تحریک کا انتخابی نعرہ اور ڈاکٹر طاہر القادری کا تکیہ کلام ہوا کرتا تھا۔ 2018ء میں عوامی تحریک سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کر چکی اور اب یہ نعرہ جماعتِ اسلامی کی قیادت بلند کر رہی ہے، جبکہ اس کے آخری دو الفاظ وہ نعرہ ہیں جو تحریکِ انصاف کی زیر عتاب قیادت نے پسِ دیوارِ زنداں بلند کیا ہے۔ غالباً پی ٹی آئی اس نعرے کو اپنے پرچم پر لکھ کر انتخابات کے میدان کارِ زار میں اُترنا چاہتی ہے، سو بسم اللہ! برطانیہ میں رہنے والے اور کام کرنے والے پاکستانی وکلا اور اُن کے ہم خیال ساتھی گزشتہ چالیس برس سے لکھ اور شائع کر رہے ہیں کہ نظام بدلو! کالم نگار نے برطانیہ چلے آنے سے دو سال قبل‘ 1965ء میں ڈاکٹر مبشر حسن سے اور1970ء میں ایئر مارشل (ر) اصغرخان سے‘ جب وہ برطانیہ کے دورے پر تشریف لائے تھے‘ جو سیاسی سبق سیکھا وہ اُنہی چار الفاظ پر مشتمل تھا جو آج کے کالم کا عنوان ہے۔ پاکستان میں 1970 ء سے پہلے کئی صوبائی انتخابات ہوئے اور 1970ء میں اور اُس کے بعد قومی سطح پر بھی متعدد انتخابات ہوئے مگر کوئی قابلِ ذکر جوہری تبدیلی نہ آئی۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ بے حد آسان اور جلد سمجھ آجانے والی ہے۔ وہی پرانی بے ڈھنگی چال اور وہی پرانی‘ گھسی پٹی ناکام حکمت عملی۔ وہی محنت پر سرمائے کی برتری اور وہی امریکی سرپرستی اور امریکہ کی بندہ پروری میں دن گزارنے کی پرانی روش۔ وہی متاعِ غرورکی سودا بازی اور وہی شیشہ گرانِ فرنگ کی احسان مندی۔ بقول اقبالؔ‘ وہی سفالِ 'پاک‘ (شعر میں لفظ ''ہند‘‘ ہے) سے میناو جام پیدا کرنے (یعنی خود کفیل ہونے) کی وطن دوست پالیسی کو اپنانے سے انکار اور وہی مٹی کا نیا حرم بنانے (یعنی چادر دیکھ کر پائوں پھیلانے) کے بجائے مر مر کی سِلوں سے (غیر ملکی اربوں ڈالر کے قرض لے کر) اپنے محل بنانے پر اصرار۔ وہی سلطانی ٔ جمہور کی نفی اور وہی قانون کی حکمرانی کی ہر قدم اور ہر مرحلہ پر پامالی۔ وہی انصاف اور مساوات کے زریں اُصولوں کی رسوائی اور وہی فلاحی مملکت بنانے کے بجائے ایک فیصد حکمران طبقے پر نعمتوں اور نوازشوں (سبسڈیز) کی بارش۔
یہ حقیقت پیشِ نظر رکھیں کہ ہمارے ملک میں پہلے قومی انتخابات قیام پاکستان کے 23 برس ہوئے تھے۔ پہلا آئین آزادی کے نو برس بعد 1956ء میں مرتب ہوا تھا اور صرف دو سال بعد اسے ردّی کی ٹوکری میں پھینک کر مارشل لاء لگا دیا گیا تھا۔ یہ سیاہ شب ہمارے بدنصیب مگر بے قصور سروں پر لگ بھگ بارہ برس مسلط رہی۔ دُوسرا آئین جو ایوب خان نے اپنے مخصوص مقاصد کے تحت 1962ء میں بنوایا تھا‘ اُسے اپنے دورِ اقتدار کے خاتمے پر موصوف نے اپنے ہاتھوں سے منسوخ کر دیا تھا۔ 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے (قریباً اتفاقِ رائے سے ) تیسرا آئین بنانے کا کمال کر دکھایا تو وہ پہلے ضیاء الحق اور پھر پرویز مشرف کے قدموں تلے روندا گیا اور بدقسمتی سے ان دونوں آمرانِ مطلق کو عدلیہ کی اُسی طرح حمایت حاصل رہی جس طرح پچاس کی دہائی میں تیسرے سربراہِ مملکت (گورنرجنرل) کو چیف جسٹس منیر کی عدالت کی تھپکی اور تائید حاصل تھی۔ بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی اور کراچی میں ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کے ممبرانِ قومی اسمبلی کے علاوہ متوسط طبقے کے افراد کو اعلیٰ سطح پر اقتدار میں کوئی حصہ نہیں ملا۔ آج تک الّا ماشاء اللہ وہی شخص صوبائی/ قومی اسمبلی اور (بالخصوص) سینیٹ کا رکن بنا جو ارب پتی ہونے کے باوصف انتخابات میں کروڑوں روپے خرچ (بلکہ انویسٹ ) کرنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ اراکینِ اسمبلی کی بڑی تعداد کو یہ عہدہ ورثے میں ملا۔ لہٰذا کہا جاسکتا ہے:
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
معاشی وسائل (جاگیر و صنعت) کے ساتھ ساتھ سیاسی مقام بھی وراثت میں مل گیا۔ جب نہ اصولوں کا جھنجھٹ ہو اور نہ نظریات کی قید پھر موسم بدلنے کے ساتھ فصلی (اور موقع پرست) بٹیروں کا خزاں کی زد میں آنے والے درخت کے زرد پتوں کو خدا حافظ کہہ کر متبادل ہرے بھرے درخت کو اپنا مسکن بنا لینے میں نہ کوئی رُکاوٹ ہوتی ہے، نہ کوئی قباحت اور نہ ہچکچاہٹ۔ بھٹو صاحب گئے تو اُن کی جگہ ان کی صاحبزادی نے سنبھال لی۔ ان کے بعد ان کا بیٹا کرسی کا حقدار ٹھہرا۔ نواز شریف کی جانشین اُن کی صاحبزادی ہیں۔ شہباز شریف کا بیٹا ان کی جگہ لینے کو تیار ہے۔ عبدالغفار خان کی جگہ ولی خان، اُن کی جگہ ان کا بیٹا اسفند یار، اسفندیار کی جگہ اُن کا بیٹا ایمل ولی۔ مولانا مفتی محمود (جو بڑی خوبیوں کے مالک تھے) کی جگہ اُن کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمن اور اُب ان کا بیٹا منصب سنبھالنے کو تیار ہے۔ البتہ بلوچستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اُس نے چار ایسے سیاستدان پیدا کیے جو نہ موروثی تھے اور نہ قبائلی سردار۔ ایک غوث بخش بزنجو، دوسرے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، تیسرے ڈاکٹر عبدالحی بلوچ اور چوتھے تھے جناب عبدالصمد اچکزئی۔ لائل پور (آج کے فیصل آباد) نے پہلے جڑانوالہ سے میاں عبدالباری اور افضل چیمہ کو اور پھر سائیکل چلانے والے ایم حمزہ صاحب کو اپنی نمائندگی کا شرف بخشا۔ گزری قومی اسمبلی میں ڈاکٹر نثار چیمہ (مسلم لیگ ن) اور شفقت محمود (پی ٹی آئی )‘ دونوں کا تعلق تعلیم یافتہ متوسط طبقے سے تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بنے تو اُنہوں نے ایک روشن دماغ شخص کو گوشۂ گمنامی سے نکالا اور اپنا وزیر بنایا۔ وہ تھے منڈی بہاء الدین کے ممتاز احمد تارڑ۔
صد افسوس کہ تحریک انصاف نے جس وعدے پر اقتدار حاصل کیا وہ اُس نے ہر گز پورا نہ کیا۔ اس نے مسلم لیگ (ن، ق، ف) اور پیپلز پارٹی (بعد از ذوالفقار علی بھٹو) کی استحصالی اور قدرے بدعنوان حکومتوں (ان دونوں کے ادوار کو ملائیں تو تقریباً 35 برس بنتے ہیں) کی پھیلائی ہوئی گندگی کو صاف کر کے ایک نئے روشن اور عوام د وست دور کے آغاز کا وعدہ کیا تھا۔ الفاظ چاہے مختلف استعمال ہوئے ہوں‘ مطلب اور مفہوم صاف شفاف تھا۔ دُوسرے الفاظ میں پی ٹی آئی نے نظام بدلنے کے ارادے کو اپنی سیاسی جدوجہد کا کلیدی نکتہ بنایا اور اس کے انتخابی اُمیدواروں کو جو ووٹ ملے وہ اسی بیانیے کی وجہ سے کہ ہم برسرِ اقتدار آکر ملک کی کایا پلٹ دیں گے۔ قوتِ اُخوتِ عوام کو بروئے کار لا کر فلاحی مملکت قائم کریں گے۔ روشنی کا وہ چراغ جلائیں گے کہ ہمارے سیاسی اُفق پر چھائی ہوئی تاریکی ختم ہو جائے گی۔
مقامِ شکر ہے کہ کالم نگار کا تعلق کسی جماعت سے نہیں۔ دیانتداری سے (اور سر جھکا کر )تسلیم کرنا چاہئے کہ میں پیپلز پارٹی کی طرح‘ تحریک انصاف کے اُن اراکین میں بھی شامل رہا جو اس کے قیام کے چند گھنٹوں کے اندر اس پارٹی میں شامل ہوئے؛ البتہ مذکورہ دونوں جماعتوں کی عوام دشمن کارکردگی اور کیے گئے ہر وعدے کی خلاف ورزی کے سبب ان دونوں جماعتوں سے قطع تعلق کرنے والے اُن اوّلین افراد میں بھی شامل تھا عاشقی (عوام دوستی) میں بچی کھچی عزت کو مٹی میں ملانے کے بجائے جو خاموشی سے ریٹائر ہو گئے۔ یہ سطور لکھ چکا تو خیال آیا کہ آج ‘ جب میں 87 برس کی عمر کی دہلیز عبور کر چکا ہوں‘ مزید کتنے سال زندہ رہنا پڑے گا کہ پھر ایک ایسی سیاسی جماعت معرضِ وجود میں آئے جس سے نظریاتی اتفاق ہو۔ جس سے اُمیدیں اور توقعات وابستہ کروں اور یہ جماعت اقتدار میں آئے اور میرا اور کروڑوں ہم وطنوں کا پاکستان کو فلاحی مملکت بنتا دیکھنے کا خواب پورا ہو۔ اسے فارسی میں کہتے ہیں۔
یک کاشکے بود کہ بصد جا نوشتہ ایم
''کاش ایک ایسا لفظ تھا جو سو جگہ لکھ دیا گیا‘‘۔ قارئین غور فرمائیں کہ ایک بوڑھے اور شکستہ دل شخص پر کیا گزری ہوگی۔ جیسے پہلے بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی اور پھر عمران خان کی تحریک انصاف کی نالائقیوں‘ بدعنوانیوں‘ وعدہ خلافیوں‘ پے در پے حماقتو ں‘قانون کی حکمرانی کے بجائے آمرانہ روش اپنانے کی مہلک غلطیوں نے نڈھال کر دیا ہے۔کالم نگار زمین پر گرا پڑا تھا کہ مدہم سی آواز آئی ''نظام بدلو‘‘۔ کتنا سادہ لوح اور قابلِ رحم ہے کہ یہ دو الفاظ سن کر کالم نگار پھر سے اُٹھ کر بیٹھ گیا اور پھر کھڑا ہو کر چل پڑا۔ یوں سمجھ لیں کہ عالمِ خواب میں۔ نامعلوم کہ نئی منزل کون سی ہے؟ نئے ساتھی کون ہوں گے؟ کیا وہ تیسری بار بھی رہبر کو نہ پہچاننے کی فاش غلطی کرے گا؟مگر اب تو غالبا ً تیسرا تجربہ کرنے کا وقت بھی نہیں رہا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں