موسمِ خزاں کا گلدستہ … (2)

گزشتہ کالم میں پھول زیادہ تھے اور کالم کی جگہ کم‘ اس لیے بات بڑھتے بڑھتے دوسری قسط تک آن پہنچی۔ اُمید ہے کہ درج ذیل خبروں کو پڑھنے والے اِنہیں بھی اتنا ہی دلچسپ پائیں گے جتنی دلچسپی انہیں برطانوی اخباروں کی شاخوں سے چُن لیے جانے والے گلدستہ کے لیے تھی۔ آئیے! کسی تمہید کے بغیر نفسِ مضمون کی طرف چلیں:
(1) آپ کو شاید یہ خبر پڑھ کر یقین نہ آئے کہ جرمنی کی حکومت نے خفیہ جاسوسی کے ادارے BND (جو برطانیہ کی MI6 سے مماثلت رکھتا ہے) کے افسر شاہی کی آنکھوں پر اتنی موٹی پٹی لپیٹی اور اس کے ہاتھوں کو کمر کے پیچھے باندھ دیا کہ وہ بالکل بے اثر ہو کر رہ گیا۔ نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ جرمن حکومت کو غیر ممالک میں جاسوسی کرنے کے ضروری کام کو دوسرے ممالک کے جاسوسی کے ادارے کو ٹھیکے پر دینا پڑا۔ یہ شاید دنیا میں آج تک نہیں ہوا اور جاسوسی کی دنیا کے حوالے سے ناقابلِ تصور سمجھا جاتا ہے۔ یہ حیرت انگیز انکشاف BND کے دو سابق سربراہان نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کیا ہے۔
(2) جن دو جانوروں نے نقل و حرکت کی آزادی کے حق کو استعمال کرتے ہوئے پنجروں سے مفرور ہو کر شہری آبادی کے علاقوں میں سیر کرنے کامشغلہ اپنایا‘ وہ دونوں کافی دوڑ بھاگ اور تگ و دو کے بعد پکڑے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک ببر شیر تھا جو اٹلی کی ایک سرکس کمپنی کے حفاظتی پنجرے سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوا مگر آزادی کی صرف ایک رات گزارنے کے بعد ہی وہ دوبارہ پکڑا گیا۔ دُوسرا جانور ایک ریچھ تھا جس کا وزن 500 پائونڈ تھا اور اتنا لحیم شحیم کہ ''Hank The Tank‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ اس نے اپنی آزادی کا پرچم ایک سال قبل لہرایا تھا۔ اب یہ گرفتار ہوا تو ڈاکٹروں نے انکشاف کیا کہ مفرور ہو جانے والا جانور نر نہیں بلکہ مادہ ہے۔ یہ واقعہ امریکی ریاست کیلیفورنیا میں رونما ہوا۔ ریچھ نے اپنی آزادی کا ایک برس جنگلوں میں گزارا مگر دوسری طرف سرکس کا ببرشیر اٹلی کے ایک شہر کی سڑکوں پر ساری رات مٹرگشت کرتا رہا۔
(3) کالم نگار برطانوی اخبارات میں کوئی ایسی خبر پڑھ کر خوش نہیں ہوتا جو تیسری دُنیا (ایشیا، افریقہ، لاطینی امریکہ) کے کسی ملک کے حکمران کی ایسی بڑی مالی بدعنوانی یا ملکی دولت کے بے دریغ ضیاع کا انکشاف کرتی ہو جس سے پاکستان کے سابق حکمرانوں کی اس میدان میں عالمی برتری پر سوالیہ نشان لگ جائے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا جو سالانہ اجلاس ماہِ اکتوبر میں ہوا‘ اُس کا ایک موضوع دنیا میں غربت کا خاتمہ تھا۔ وسطی افریقہ‘ جو تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود دنیا کے غریب ترین خطوں میں شمار ہوتا ہے‘ کا ایک ملک Equatorial Guinea ہے۔ یہاں آبادی کی اکثریت عالمی معیار کے اعتبار سے خطِ غربت سے نیچے نہایت برے حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے مگر وہاں کے حکمران بے حسی‘ بے شرمی اور بے حمیتی میں ہمارے حکمرانوں سے بھی کئی قدم آگے ہیں۔ روزنامہ ٹائمز نے ہمیں صرف ایک جھلک دکھائی ہے۔ مذکورہ بالا ملک کے نائب صدر (جن کی عمر 55 برس ہے اور وہ خود Teddy کہلواتے ہیں) نے اقوامِ متحدہ کے ''غربت گھٹائو اجلاس‘‘ میں شرکت کی۔ موصوف نائب صدر اپنے ذاتی عملے کے ساتھ نیویارک کے جس ہوٹل میں ٹھہرے وہ غالباً دنیا میں سب سے زیادہ مہنگا (Waldorf-Astoria New York) ہوٹل تھا جہاں پر ایک رات کے قیام کا کرایہ 75 ہزار ڈالر ہے۔ (آپ اس رقم کو خود ہی پاکستانی کرنسی میں کنورٹ کر لیں) Teddy کے نائب صدر ہونے اور اربوں ڈالروں کی کرپشن کا مرتکب ہونے کا سہرا اس کے باپ کے سر باندھا جا سکتا ہے جوافریقہ کے سب حکمرانوں سے زیادہ عرصے سے اپنے ملک پر برسر اقتدار چلا آ رہا ہے اور 81 برس کا ہونے کے باوجود ریٹائر ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ ایشیائی حکمرانوں کی طرح افریقی حکمران بھی چوری اور کرپشن کے پیسے کو یورپ کے ملکوں میں چھپا کر رکھتے ہیں۔ Teddy نے اپنا ذاتی بحری جہاز فرانسیسی ساحل پر لنگر انداز کیا اور پیرس میں ایک محل خریدا‘ جس کی قیمت 200 ملین ڈالر بتائی جاتی ہے۔ فرانسیسی حکومت نے جب چھان بین کی تو مجرم کا پتا چل گیا۔ ثبوت فراہم نہ کر سکنے پر جہاز اور یہ محل‘ دونوں ضبط کر لیے گئے۔ عالمی رسوائی بھی Teddy کو اقوام متحدہ میں تقریر کرنے سے نہ روک سکی۔
(4) ماضی قریب میں طبی سائنس میں تین بڑی تہلکہ مچا دینے والی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن کی وجہ سے علاج معالجہ کے اُفق پر تین بڑے ستارے جگمگانے لگے ہیں۔ اوّل: برطانوی سائنس دانوں نے یہ خوش خبری سنائی ہے کہ وہ ایک ایسے Blood Test کی تیاری میں ایک قدم اور آگے بڑھنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جس کی بدولت خون کے چند قطروں کے معائنے سے پتا چلایا جا سکے گا کہ خون دینے والے شخص کے سر پر کون سے موذی امراض کی تلوار لٹک رہی ہے تاکہ اُن کا ابتدائی مرحلے ہی میں علاج شروع کیا جا سکے۔ انگریزی محاورے میں اسے کہتے ہیں: Nip the evil in the bud۔
دوم: برطانیہ کی دوائیاں بنانے والی ایک بہت بڑی کمپنی نے سانس کی بیماریوں کے علاج کے لیے ایک نئی دوا دریافت کی ہے (جس کا نام Arexvy رکھا ہے) جو بوڑھے افراد کی جان بچانے میں بڑی کارآمد ثابت ہو گی۔ پچھلے چھ ماہ میں اس نئی دوائی نے امریکہ میں ایک ارب ڈالر کمائے ہیں۔ اب اس دوائی کو برطانوی حکومت نے بھی علاج کے لیے استعمال کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ اس دوائی کو بنانے میں تجربہ گاہوں میں کام کرنے والوں کی ایک بڑی ٹیم نے پندرہ برس خرچ کیے ہیں۔ یہ دوائی نظامِ تنفس کے زیریں حصے کو Syncytial Virus کے جان لیوا حملے سے بچاتی ہے۔ مذکورہ دوائی کی دریافت سے اس کو بنانے والی کمپنی کے حصص کو پَر لگ گئے ہیں اور اس کی مالی حالت کئی درجے زیادہ مستحکم ہو گئی ہے۔ سانس کے نظام کی جس بیماری کا اب علاج دریافت ہوا ہے‘ وہ ہر سال برطانیہ میں 60 سال سے زیادہ عمر کے تقریباً آٹھ ہزار افراد کی ہلاکت کا باعث بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ 87 سالہ بوڑھا کالم نگار اس بیماری سے سب سے زیادہ خوفزدہ رہتا ہے اور ہر رات سونے سے پہلے اس سے بچائو کی دعا اپنے رب سے کرتا ہے۔
سوم: امریکہ سے یہ خبر آئی ہے کہ وہاں ریاست آرکنساس (Arkansas) میں ایک شخص کی بنیائی سے محروم آنکھ میں ایک دوسرے شخص کی صحت مند آنکھ کی پیوندکاری کا کامیاب تجربہ کیا گیا۔ یہ آپریشن 21گھنٹوں پر محیط تھا۔ کتنا اچھا ہو کہ پاکستان میں بھی جسمانی اعضا کو (بعد از وفات) عطیہ کرنے کی ترغیب دی جائے۔ اس مقصد کے لیے جمعہ کے خطبات بہت پُراثر ثابت ہو سکتے ہیں۔ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ پاکستان کے Eye Banks کو آنکھوں کی پتلیوں کے جتنے بھی عطیات موصول ہوتے ہیں اُن میں سے ایک بھی پاکستانی شخص کا عطیہ نہیں ہوتا بلکہ سو فیصد عطیات سری لنکا سے موصول ہوتے ہیں۔ کالم نگار کی طرح برطانیہ میں رہنے والوں کی بہت بڑی تعداد ہر وقت اپنی جیب میں Donor Card رکھتی ہے جو ڈاکٹروں کو (بعد از وفات) جسم سے ہر کارآمد عضو نکال کر اُسے ضرورت مند کے جسم میں ''پیوند‘‘ کر کے اُس کی جان بچانے کی اجازت دیتا ہے۔ کتنا اچھا ہو کہ اس کارِ خیر میں ہمارے علما کرام پہل کریں۔
اس کالم کے قارئین کے دوستانہ اور موافق ردّعمل کی توقع رکھتے ہوئے کالم نگار اگلے ہفتے آپ کی خدمت میں خزاں کی خبروں کا تیسرا (اور آخری) گلدستہ پیش کرے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں