سماجی اور ذہنی تبدیلی

اخبار میں شائع ہونے والے کالموں کو بغور‘ دلچسپی اور سنجیدگی سے پڑھنے والے قارئین کو یقینا یاد ہو گا کہ ماضی قریب میں میرے ساتھی کالم نگار‘ جناب خورشید ندیم نے سماجی تبدیلی جیسے اہم ترین موضوع پر خاصا فکر انگیز اور عالمانہ کالم لکھا تھا۔ اُنہوں نے بجا طور پر اپنے مؤقف کی حمایت میں یہ دلیل دی کہ جب تک ایک طرف مدرسہ؍ مکتب؍ سکول اور دوسری طرف گھر اور گھریلو ماحول اپنا مثبت‘ جاندار اور تخلیقی کردار ادا نہ کرے گا صحتمند اور سماج دوست رویے اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کو بچے؍ بچی کے کردار کا حصہ نہ بنایا جا سکے گا۔ اُس وقت تک سماجی تبدیلی کی وہی تخیلاتی حیثیت رہے گی جو دن میں دیکھے جانے والے سراب کی ہوتی ہے اور رات کو نیند میں دیکھے جانے والے خواب کی۔ خورشید ندیم صاحب کے مذکورہ بیانیے سے اتفاق کرتے ہوئے اور ان سے اجازت چاہتے ہوئے بصد ادب میں یہ اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ماحو ل کے سیاق و سباق میں سماجی تبدیلی کو ایک تکون کی ضرورت ہے۔ خورشید ندیم صاحب نے دو کلیدی مقامات (مکتب اور گھر) کے نشاندہی کی اور بڑی فصاحت سے اپنا موقف بیا ن کیا مگر اُنہوں نے تکون کے تیسرے زاویے کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا اور قارئین کی توجہ اس طرف نہ دلائی۔ یہی وجہ ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ بات ادھوری رہ گئی ہے۔ مسلمانانِ پاکستان پنج وقتہ نماز اگر مسجد جا کر نہ بھی پڑھتے ہوں تو یقینا نمازِ جمعہ مسجد جا کر‘ وہاں باجماعت ہی ادا کرتے ہیں۔ اگرچہ ان کے برعکس یہ کالم نگار اس سعادت سے (بہ امر مجبوری) محروم رہتا ہے اور صرف عیدین کی نمازیں برطانیہ کی سب سے بڑی اور شاندار جامع مسجد (ریجنٹ پارک‘ لندن) میں پڑھ پاتا ہے اور پھر سارا سال عیدین کا انتظار کرتا ہے کہ جب وہ دنیا بھر کے (ہر قومیت‘ ہر رنگ اور ہر نسل کے) مسلمانوں کے ساتھ باجماعت بہ آوازِ بلند تکبیر پڑھے۔ یہ روایت فقید المثال ہے جو اس مسجد کی انتظامیہ پر عرب بالادستی کا مبارک نتیجہ ہے۔ اس سے یہ کالم نگار وہ خوشی حاصل کرتا ہے جو ناقابلِ بیان ہے اور صرف دل کی گہرائیوں میں محسوس کی جا سکتی ہے۔
اس کالم نگار کا موقف‘ جو نصف صدی سے اپنی تقاریر اور تحاریر میں بیان کرتا اور دہراتا رہا ہوں‘ وہ یہ کہ ہر مسلم معاشرے کی سماجی زندگی کا محور مسجد ہے اور ہمارے سماجی بگاڑ کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بدقسمتی سے (ماسوائے انڈونیشیا کے) کسی بھی مسلم ملک میں مسجد کو وہ کلیدی اہمیت حاصل نہیں ہو سکی جو مسجد کے ادارے کے منطقی مضمرات میں شامل ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم نے مسجد کو محض ایک عبادت گاہ بنا دیا ہے۔ مسجد ایک عبادت گاہ ہونے کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ ہمیں وہ ''بہت کچھ‘‘ اب نظر نہیں آتا یا نظر آنا بند ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے قومی شاعر اقبال نے لکھا:
ملّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!
اگر پاکستان نہ بنتا تو کیا غیر منقسم ہندوستان میں مسلمانوں کے نماز پڑھنے‘ روزے رکھنے یا حج کرنے پر کوئی پابندی عائد ہوتی؟ ہرگز نہیں! پاکستان بنانے کا مقصد یہ تھا کہ ہم یہاں مسجد کو اپنی سماجی زندگی کا اس طرح محور و مرکز بنائیں جو غالباً ایک غیر مسلم ملک میں ممکن نہ ہوتا۔ یقین جانئے کہ مجھے یہ بات بڑی عجیب لگتی ہے کہ میرے جیسا شخص جناب خورشید ندیم سے مخاطب ہو کر اُن کو مسجد کی سماجی حیثیت بتا رہا ہے اور درخواست گزار ہے کہ وہ جب سماجی تبدیلی لانے کے Levers بیان فرمائیں تو اِس تکون کا تیسرا اور اہم زاویہ (مسجد) ہرگز نظر انداز نہ کریں۔ مکتب اور گھر کے ساتھ مسجد (بطور کلیدی اور Pivotal ادارہ) شامل ہو گی تو ہماری صدیوں سے رُکی گاڑی پھر رواں دواں ہو گی۔ کارواں پھر جادہ پیما ہو گا۔
میں یہ سطور لکھ رہا تھا کہ میری رفیقہ حیات نے مطالعہ کی میز سے میری مختصر غیر حاضری کا فائدہ اُٹھا کر (تجسس کے مارے) لکھی ہوئی مندرجہ بالا سطور پڑھ لیں اور جب میں دوبارہ کرسی پر بیٹھا تو اُنہوں نے بکمال مہربانی میری محدود معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ اسلام آباد میں ایک ایسی مسجد ہے جو سماجی مرکز (Community Centre) کا کردار ادا کر رہی ہے اور وہ بھی حسنِ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو! اس سے زیادہ خوشی کی کیا بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ میرے بیانیے کو وطنِ عزیز سے ٹھوس اور زندہ مثال مل گئی۔ بھلا ہو اُن تمام نیک لوگوں کا جنہوں نے چھ ہزار میل دُور رہنے والے بوڑھے کالم نگار کے خواب کو مجسم کر دکھایا۔ مگر مقامِ صد افسوس ہے (مقام حیرت ہرگز نہیں) کہ اسلام آباد میں مذکورہ مسجد کے قیام کے باوجود ملک بھر میں ایک لاکھ کے قریب مساجد میں سے کسی ایک کی بھی انتظامیہ کو یہ توفیق نصیب نہ ہو سکی کہ وہ ایک نہایت اعلیٰ و عمدہ مثال کی پیروی کریں۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ مجھے اس کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آتا۔ نوبت یہاں تک پہنچی تو اقبال کو بجا طور پر مسلمان راکھ کا ڈھیر نظر آئے۔ ایک ایسا خاکستر جس میں کوئی ایک بھی دبی ہوئی چنگاری نہ ہو۔ وجہ؟
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
بقول اقبال: لشکریاں شکستہ صف ہیں اور تیر ہے تو بے ہدف۔ ان دنوں جو میرِ کارواں ہے (یا جو بھی بن جائے) اُس میں خوئے دلنوازی تک نہیں۔ 25 کروڑ افراد کی راستہ بھول جانے والی اور ویرانوں میں بھٹکنے والی قوم صداقت‘ عدالت اور شجاعت کا سبق دوبارہ پڑھے تو کیونکر؟ دنیا کو تو چھوڑیں‘ یہ قوم اُن قائدین سے بھی محروم ہو چکی ہے جو امامت کا حق ادا کر سکیں۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اب کالم نگار سوتے جاگتے اپنی قوم کی ہر روز‘ ہر ماہ‘ ہر سال بگڑتی ہوئی صورتحال کی بہتری کیلئے کیوں فکرمند رہتا ہے۔ بوجھل دل سے سوچتا رہتا ہے‘ بے اختیار ہاتھ اُٹھا کر اپنے رّب سے دُعائیں مانگتا رہتا ہے۔
اپنے بیانیے کو سمیٹتے ہوئے لکھتا ہوں کہ ہمیں مسجد سے جو کام لینا ہوں گے وہ ہیں گلیوں‘ بازاروں کی صفائی کے لیے رضاکاروں کی بھرتی۔ ڈاکوئوں کی بڑھتی ہوئی یلغار کی ٹھیکری پہرہ کے ذریعہ مزاحمت۔ ماحول کو سرسبز و شاداب بنانا۔ ضرورت مندوں کی مدد کرنا۔ بے سہارا لوگوں کا سہارا بننا۔ بے روزگار نوجوانوں (خصوصاً خواتین کو) مفت فنی تربیت دینا۔ چھو ٹے جھگڑوں کا پنچایتی فیصلہ کرنا۔ عوامی عدالت (جرگہ) کو معرضِ وجود میں لانا۔ مسجد کو فالتو خوراک‘ کپڑوں‘ کتابوں اور گھریلو سامان کی تقسیم کا مرکز بنانا اور اُسی محلہ (یا گائوں) میں لوگوں کو اچھے شہری بن جانے کی تلقین اور ان کی تربیت کرنا۔ صرف یہی نہیں‘ مسجد میں نوجوانوں کو شہری دفاع (مثلاً ابتدائی طبی امداد دینے اور آگ بجھانے) کی عملی تربیت دی جائے۔ ہر مسجد میں مقامی آبادی کا مکمل ریکارڈ رکھا جائے۔ مسجد کا معاشرے میں وہی مقام ہو جو انسانی جسم میں دل و دماغ کا ہوتا ہے۔ قانوناً لازم ہو کہ ہر شری ہر سال مسجد میں سب لوگو ں کے سامنے قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر حلف اُٹھائے کہ وہ قوانین کا احترام کرے گا۔ کوئی سماج دشمن حرکت نہ کرے گا۔ نہ خود جرم کرے گا اور نہ کسی مجرم کا ساتھی اور مددگار بنے گا۔ اپنے حصے کا ٹیکس ایمانداری سے ادا کرے گا۔ خواتین اور اقلیتوں کا احترام کرے گا۔ مقامی حکومتوں کے نظام کو کامیاب بنانے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ سماجی خدمت کے لیے اپنی رضاکارانہ خدمات (چاہے ہفتے میں ایک گھنٹہ) مفت پیش کرے گا۔ کتنا اچھا ہو کہ خورشید ندیم صاحب مندرجہ بالا تجاویز کو عملی شکل دینے کیلئے ڈاکٹر ندیم الحق‘ سرور باری اور سماجی کارکنوں اور تمام کالم نگاروں کے تعاون سے انتخابات کے مرحلے کے بعد ایک کانفرنس منعقد کریں۔ ہم مسجد پر جمے گرد و غبار کو جھاڑ پونچھ کر اسے پھر سے زندہ و تابندہ بنائیں اور غلامانہ ذہن سے باہر آئیں۔ ہم مسجد کو قوتِ اُخوتِ عوام کا محور و مرکز بنائیں۔ یاد رکھیں کہ ہم جاگیں گے تو سویرا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں