صرف آدھا سچ کیوں؟

پانچ فروری کو ایک چینل نے بڑی سیاسی جماعتوں کے ترجمان اور تین صحافیوں (جن میں دو میزبان تھے) کے درمیان ایک مکالمے کا اہتمام کیا جو (غیر معمولی زیادہ اور طویل وقفوں کے طفیل) اس کالم نگار اور میری طرح دوسرے بہت سے ناظرین کا بہت سا وقت لے گیا مگر صد افسوس کہ صرف آدھا سچ بیان کیا گیا۔ مکالمے کا عنوان تھا: Grand Debate۔ آپ چاہے بابائے اُردو (مولوی عبدالحق مرحوم) نہ بھی ہوں‘ بڑی آسانی سے اُردو میں ترجمہ ہو جانے والے مندرجہ بالا دونوں الفاظ کا انگریزی میں لکھا جانا اس بوڑھے کالم نگار کی دل آزاری کا باعث بنا‘ جس نے آج سے 82 برس پہلے نارووال کے ایک پرائمری سکول میں درخت کے نیچے ٹاٹ پر بیٹھ کر سرکنڈے کے خود تراشے ہوئے قلم سے لکڑی کی تختی پر اُردو حروفِ تہجی لکھنا سیکھے تھے۔ اگلے آٹھ برس اُردو زبان ذوق و شوق سے سکو ل میں بطور درسی مضمون پڑھی۔ زمیندار ہائی سکول جی ٹی روڈ گجرات کے کمال کے اساتذہ سے ایک برس‘ اس سے پہلے حافظ آباد کے گورنمنٹ ہائی سکول اور اس سے پہلے 1947-48ء میں گورنمنٹ ہائی سکول شاہ پور کے اساتذہ سے اردو پڑھی۔ ملک محمد نواز‘ جو آگے چل کر آئی جی پولیس بنے‘ یہاں میرے ہم جماعت تھے۔ پچاس کی دہائی میں گورنمنٹ کالج لائل پور سے ہجرت کر کے مرے کالج سیالکوٹ گیا تو وہاں مباحثوں میں شرکت کے شوق کے سبب ارشاد حسین کاظمی‘ خالد حسن‘ مہدی نقوی‘ زمرد ملک‘ وارث میر اور سیّد نوازش علی سے دوستی کا وہ رشتہ قائم ہوا‘ جو ان کی وفات سے بھی نہیں ٹوٹا۔ بھلا ہو اُن سب کا کہ انہوں نے مجھے نہ صرف اُردو ادب بلکہ کلاسیکی موسیقی سے بھی متعارف کرایا۔ زندگی کے اگلے 70 برس اُردو ادب پڑھنے اور کلاسیکی موسیقی سننے‘ کتابیں‘ ریکارڈ اور سی ڈیز اکٹھی کرنے میں گزرے۔ غالب کی طرح‘ (پہلے پاکستان میں اور پھر 55 برس سے برطانیہ میں) ستم ہائے روزگار کا رہین ہونے کے باوجود‘ اگر جناب حسرت موہانی چکی کی مشقت کے ساتھ مشق سخن جاری رکھ سکتے تھے تو میرے جیسا ایک عام محنت کش اور سابق ''پینڈو‘‘ محض سخن فہم کیوں نہیں ہو سکتا؟ دیکھئے بات شروع کہاں سے ہوئی اور کہاں تک جا پہنچی! میرے ٹاٹ پر بیٹھنے سے شروع ہوئی اور بوریا نشین حسرت موہانی تک جا پہنچی۔
واپس چلتے ہیں ٹیلی ویژن پر ہونے والے مکالمے کی طرف جو نہ Grand تھا اور نہ Debate۔ ایک عام مکالمہ تھا جس میں منتظمین صرف یہ کوشش کرتے دکھائی دیے کہ نہ صرف تین کہنہ مشق صحافی بلکہ ہر سیاسی جماعت کے ترجمان اور نوجوان اس میں حصہ لیں۔ کتنا اچھا ہوتا کہ اس میں ڈاکٹر رسول بخش رئیس‘ پروفیسر عاصم سجاد اختر‘ قیوم نظامی‘ امتیاز عالم‘ ڈاکٹر رشید احمد خاں‘ خورشید ندیم اور سرور باری بھی شامل ہوتے اور محنت کشوں (کسانوں‘ مزدوروں) کے چند راہ نمائوں کو بھی بلایا جاتا۔ مکالمے کا حاصلِ کلام یہ تھا کہ سیاسی جماعتیں لمحۂ موجود میں نہ میثاقِ جمہوریت پر‘ نہ میثاقِ معیشت پر اور نہ ہی کسی عمرانی معاہدے پر اپنی بھرپور اور دیانتدارانہ تصدیق اور حمایت و تائید کی مہر لگانے کیلئے تیار ہیں۔ اب آپ بتائیے کہ جب عوامی نمائندوں میں بنیادی اصولوں پر عدم اتفاق کی اتنی بڑی خلیج ہو تو آئین اور اس کی محافظ عدلیہ کرے تو کیا کرے؟ بہتر ہوتا کہ ایک طویل اورصبر آزما پرو گرام ریکارڈ کرنے کے بجائے اسے تین‘ چار یا پانچ قسطوں میں ریکارڈ اور نشر کیا جاتا۔ بہت سی کام کی باتیں وقت کی کمی کی وجہ سے رہ گئیں اور تشنگی کا احساس شدت سے ہوا۔ مثال کے طور پر اُس ہاتھی کا بار بار ذکر آیا جو کمرے میں کھڑا ہے مگر کسی کو نظر نہیں آتا۔ ہم اُس کا نام لیتے بھی ڈرتے اور گھبراتے ہیں۔ کبھی اسے کوئی نام دیتے ہیں اور کبھی کوئی۔ یہ صورت حال عزت و احترام کی وجہ سے نہیں بلکہ ڈر اور خوف کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ ایک سچائی جو اتنی کڑوی ہے کہ ہم اس کو تسلیم کرنے سے‘ 1958ء کے پہلے مارشل لاء سے لے کر آج تک‘ انکاری ہیں کہ ہمارے ملک میں جب بھی مارشل لاء نافذ کیا گیا اسے عوام کی اکثریت کی خاموش حمایت حاصل تھی۔ یہ کہنا زیادتی بلکہ گمراہ کن مبالغہ آرائی ہو گی کہ چاروں بار مٹھائی تقسیم کی گئی۔ بدقسمتی سے سچ یہ ہے کہ جب سیاسی ابتری اور معاشی استحکام کی وجہ سے ریاست کے وسیع تر مفاد کو خطرہ لاحق ہوا‘ لوگوں (کی خاموش اکثریت) نے مارشل لاء کے نفاذ کو خیر مقدم کہا اور اگر یہ نہ بھی کیا تو دل ہی دل میں خوش ضرور ہوئے کہ اچھا ہوا کہ ہم ایک بڑے بحران سے بچ گئے۔ میں اپنے مؤقف سے اختلاف کرنے والوں سے جان کی امان مانگتے ہوئے یہ سچائی بیان کرنے کی اجازت چاہتا ہوں کہ چاروں بار مارشل لاء کے نفاذ کو خاموش اکثریت کی Tacit مگر Implicit حمایت حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دس سال گزر جانے کے بعد جب عوام کی اکثریت مارشل لاء کی افادیت کے بارے میں منفی رویہ اپناتی تھی اور اس سے جان چھڑانا چاہتی تھی تو آمر مطلق بہت بے آبرو ہو کر کوچۂ اقتدار سے اپنا بوریا بستر لپیٹ کر چلا جاتا تھا۔ ضیا الحق اگر ہوائی جہاز کے حادثے میں جاں بحق نہ ہوتے تو یقینا عوام کے عتاب کا اُسی طرح شکار ہوتے جس طرح اُن کے پیشرو ایوب خان اور جانشین پرویز مشرف۔
آج ہماری سیاسی زندگی پر بالادستی اور مداخلت کا اختیار اور کٹھ پتلی کا کھیل رچانے کی جو صلاحیت مقتدرہ کو حاصل ہے وہ سیاسی جدلیات کے ایک اٹل اصول کی وجہ سے یعنی سیاسی راہ نمائوں اور جماعتوں کی کمزوری‘ عوام دشمنی‘ سامراج پرستی اور اپنی سراسر غیر جمہوری سیاست۔ غیر سیاسی مداخلت اور پس پردہ سازش کر کے کسی کو اقتدار کی مسند پر بٹھانے اور اتارنے کا مذموم کام اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک سیاسی جماعتیں خود ہر لحاظ سے جمہوری‘ عوام کی امنگوں کی ترجمان اور عوام دوست نہیں بن جاتیں۔ ماسوائے نیشنل پارٹی‘ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے‘ کسی دوسری جماعت کے اندر پارٹی انتخابات نہیں ہوتے۔ کسی سیاسی جماعت کی جڑیں عوام کے دل و دماغ میں پیوست نہیں‘ گملے میں اگائے گئے اور لگائے ہوئے پھولوں کو کسی بھی وقت (بقول اقبال) نئی تہذیب کے گندے انڈے کی طرح باہر گلی میں پھینکا جا سکتا ہے‘ اور چار بار پھینکا بھی گیا‘ مگر زمین میں گہری جڑوں والے شاہ بلوط کو اکھاڑ پھینکنا آسان کام نہیں۔ ہمارا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ بڑے سرکاری افسروں‘ ارب پتی تاجروں اور صنعت کاروں اور نام نہاد سیاسی رہنمائوں پر مشتمل ہے‘ یہ سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ ان کا رہن سہن‘ طرزِ زندگی‘ اغراض و مقاصد‘ اندازِ سوچ‘ طبقاتی مفادات اور سیاسی ترجیحات بالکل یکساں ہیں۔ ہاںپشتون‘ بلوچ اور سندھی قوم پرست تینوں‘ چاروں بڑی سیاسی جماعتیں مندرجہ بالا حکمران طبقے کی دائمی رکن اور ستون ہیں۔ ان موقع پرست‘ بے اصول‘ بے ضمیر اور چڑھتے سورج کو سلام کرنے والوں کا رکنِ اسمبلی بن جانے کا مقصد عوام کی خدمت نہیں۔ قوتِ اخوتِ عوام کو بڑھانا نہیں۔ غریبوں کو جگانا نہیں۔ مٹی کا نیا حرم بنانا نہیں۔ پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اٹھانا نہیں۔ دہقاں کو روزی نہ دینے والے کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دینا نہیں۔ سفالِ پاک سے مینا و جام پیدا کرنا نہیں۔ اپنے غرور کا سودا کرنے میں کوئی ملامت نہیں۔ سودی نظام کو ختم کرنا نہیں۔ محنت کو سرمایے پر ترجیح دینا نہیں۔ اُردو کو سرکاری زبان بنانا نہیں۔ ارب پتی طبقے کو 500 ارب روپے کی سالانہ Subsidy ختم کر کے بندۂ مزدور کے ایام کی تلخی کو کم کرنا نہیں۔ یہ سب محض مہرے ہیں۔ مٹی کے مادھو! جہاں چاہیں‘ جب چاہیں آگے پیچھے کر دیں۔ قوت خواہ کتنی ہی زیادہ ہو‘ کتنے ہی وسائل سے لیس ہو‘ وہ حقیقی جمہوری روایات پر چلنے والوں کے سامنے اُسی طرح بے بس ہے جس طرح امام خمینی کے سامنے شاہ ایران ۔ جب ہم جاگیں گے تو سویرا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں